رابندر ناتھ ٹیگور: ایک تاثر
میر ی خوش قسمتی ہے کہ مجھے مارچ ۲۰۱۲ء میں کولکاتا کے ادبی سفر پر آنے کا موقعہ ملا۔بنیادی طور پر یہ دعوت ایشیاٹک سوسائٹی کولکاتا کی جانب سے تھی۔لیکن چونکہ اس کا سبب ڈاکٹر شہناز نبی تھیں،اس لیے انہیں کے توسط سے مجھے کلکتہ یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے ٹیگور سیمینار میں شرکت کا موقعہ بھی مل گیا۔میرے لیے یہ اعزاز کی بات تھی کہ میں بنگالی زبان کے ایسے شاعر ، ادیب اور دانشورکے بارے میں منعقدہ سیمینار میں شریک ہورہا تھا جسے غیر منقسم ہندوستان میں ادب کا نوبل پرائز حاصل کرنے والے پہلے اور( ابھی تک)آخری شاعر اور ادیب ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔سچی بات ہے کہ ٹیگور کے بارے میں تھوڑا بہت سن رکھا تھا لیکن ان کے بارے مجھے کچھ زیادہ معلومات حاصل نہیں تھی۔اس سیمینار میں شرکت کا فائدہ یہ ہوا کہ مجھے جو مقالات اور تقاریرسننے کا موقعہ ملا ان کے ذریعے ٹیگور کے بارے میں ایک واضح تاثر قائم ہو گیا۔کولکاتا سے واپسی پر میں نے اپنی یادوں کے باب ’’زندگی کا یادگار سفر ‘‘میں اس حوالے سے لکھا تھا:
’’رابندر ناتھ ٹیگور کے بارے میں اچھی اچھی باتیں سننے کو ملیں۔مجھے ٹیگور سے متعارف ہونے کا موقعہ مل رہا تھا۔شاعر،نثر نگار،مصور ٹیگورکو اس کے اپنوں نے بری طرح نظر انداز کیالیکن اس کا فن اپنے زور پر آگے بڑھا۔بر صغیر کی واحد ادبی شخصیت جسے۱۹۱۳ء میں نوبل پرائز سے نوازا گیا۔انور ظہیر کے مقالہ سے ٹیگور سے صحیح معنوں میں ملاقات ہو سکی۔وہ بتا رہے تھے کہ ٹیگور مذہبی جکڑ بندیوں کو توڑ کر خدا سے محبت اور تعلق قائم کرنے کے قائل تھے۔میں اس بات کو ہلکی سی ترمیم کے ساتھ یوں مانتا ہوں کہ کسی توڑ پھوڑ کی ضرورت نہیں ہے،انسان کسی بھی مسلک کا ہو،اگر اس کی جستجو سچی ہے تو مذہب کی ظاہری سطح سے اوپر اُٹھ کر خدا سے محبت اور تعلق کو قائم کر سکتا ہے۔۔۔۔۔۔۔سیمینار کے آخر میں مجھے اپنے تاثرات بیان کرنے کے لیے بلایا گیا تو ٹیگور کے مجسمہ والا لطیفہ یہاں سنا دیا۔ادب میں روحانی حوالے سے میں خود کو ٹیگور کے قریب سمجھ سکتا ہوں۔انہیں جانے بغیر میں جس انداز میں لکھ رہا ہوں،وہ لگ بھگ ویسا ہی ہے جیسا ٹیگور کے ہاں ذکر کیا جاتا ہے۔‘‘
اسی سیمینار کے دوران یونیورسٹی کی پرو وائس چانسلر ممتا رئے سے بات ہوئی تو میں نے انہیں مشورہ دیا کہ ٹیگور کے پرانے اردو تراجم کو از سر نو موجودہ اردو دنیاتک پہنچانے کا انتظام بھی کیا جانا چاہیے اور ان کی تخلیقات کے نئے تراجم بھی سامنے لائے جانا چاہئیں۔انہوں نے ایسا کرنے کے لیے ہلکا سا وعدہ کیا تھا۔اسی دوران مجھے ڈاکٹر شہناز نبی کے اردو میں کیے گئے چند نظموں کے ترجمے مل گئے۔تاہم مجھے اندازہ نہیں تھا کہ اتنی جلد کلکتہ یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے جرنل ’’دستاویز‘‘کا رابندر ناتھ ٹیگور نمبر نکالنے کا پروگرام بن جائے گا۔یہ خوش کن خبر ہے۔
رابندر ناتھ ٹیگور کے بارے میں اپنے تاثرات لکھنے کا ایک آسان طریقہ تو یہ ہے کہ انٹرنیٹ پر جا کر جہاں کہیں سے معلومات ملے،اسے جمع کر کے ایک معلوماتی مضمون تیار کر لوں۔لیکن یہ کام تو مجھ سے پہلے بہت سارے لوگ کر چکے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ براہ راست ٹیگور کو پڑھ سکوں اور یوں ان کے ساتھ ملاقات کی صورت بن پائے۔تب اس ملاقات کا جو بھی تاثر لکھ سکوں گا،وہ میرا ذاتی تاثر ہوگا۔ٹیگور سیمینار کے جملہ مقالات اور تقاریر کو سننے کے بعدایک تاثر قائم ہوا تھااور وہ یہ کہ تھوڑے سے فرق کے ساتھ ہم فکری طور پر ایک دوسرے کے قریب سے گزرتے ہیں۔اب ٹیگورکی چند نظموں کا ترجمہ ڈاکٹر شہناز نبی نے کرکے بھیجا ہے تو جیسے ٹیگور کے ساتھ سرِ راہ ایک ہلکی سی ملاقات ہو گئی ہے۔ان نظموں سے اس تاثر کی توثیق ہوئی ہے کہ ٹیگور مذہب کی ظاہری سطح سے اوپر اُٹھ کر خدا سے محبت اور تعلق کو قائم کرتے ہیں۔ اور خدا سے محبت کا یہ تعلق اس کی کمزور مخلوق سے محبت کا اظہار بھی بن جاتا ہے۔اس سلسلہ میں ٹیگور کی نظم’’ خاکی مندر‘‘کا اردو ترجمہ پیش کروں گا۔
بھجن،پوجا، بھگتی، عبادت، سب پڑے رہیں یونہی
مندر کے ایک کونے میں کیوں بیٹھے ہو چپ چاپ
کس کی عبادت کر رہے ہو خشوع و خضوع کے ساتھ
آنکھیں مل کر دیکھو
دیوتا نہیں ہیں مندر میں
وہ وہاں گئے ہیں جہا ں کسان ہل جوت رہے ہیں
جہاں پتھر توڑ کر راستہ بنا رہے ہیں مزدور بارہ مہینے
دھوپ میں جھلس رہے ہیں وہ سبھوں کے ساتھ
دونوں ہاتھ دھول میں سنے ہیں ان کے
ان کی طرح تو بھی مراقبے سے نکل
آگرد و غبار کے اس طرف
نجات۔؟ نجات کہاں ملے گی تجھے
نجات کہاں ہے۔؟
پربھو اپنی تخلیق کے سامنے خود گرفتار ہے
رہنے دو اپنی عبادت، رہنے دو پھولوں کی ڈالی
پھٹ جانے دو لباس
لگنے دو دھول مٹی
اس کے ساتھ کام کاج میں مشغول رہو
بہنے دو پسینہ
زندگی کو اپنے پہلے دن ہی سے موت کے خوف کا سامنا رہا ہے۔موت کا موضوع کئی فلسفیوں،شاعروں اور ادیبوں کی توجہ کا مرکز رہا ہے۔ہر کسی نے اسے اپنے اپنے انداز سے دیکھا اور اپنے اپنے انداز سے بیان کیا ہے۔کہیں یہ خوفناک صورت کے ساتھ آئی تو کسی نے اسے کسی حسین دوشیزہ کے روپ میں دیکھ کر گلے لگایا۔کسی نے اسے زندگی کا اختتام قرار دیا تو کسی نے نئی زندگی کا آغاز۔کسی نے اسے اپنے پیاروں کے ساتھ لمبے فراق سے تعبیر کیا تو کسی نے حقیقتِ عظمیٰ کے ساتھ وصلِ جاوداں سمجھا۔اندازِ نظر کچھ بھی رہا ہوں،موت اور اگلا جہان کئی فنکاروں کی دلچسپی کا موضوع رہا ہے۔ٹیگور کے ہاں یہ موضوع انوکھے انداز سے سامنے آیا ہے۔یقیناََ انہوں نے اس موضوع کو محض ایک بار نہیں چھوا ہوگا،تاہم ان کی نظم’’موت‘‘اپنی جگہ بے حد اہم نظم ہے۔ایسے لگتا ہے جیسے موت ہمہ وقت انہیں ملتی رہتی ہے،ان کے ہاں آتی جاتی رہتی ہے،جیسے ان کے آس پاس رہتی ہے۔ان سے سرگوشیاں کرتی ہے،وہ موت کو اس کے جمالی روپ میں بھی دیکھتے ہیں اور جلالی روپ میں بھی۔لیکن کسی روپ میں وہ موت سے خائف نہیں ہیں۔موت کو دلہن کی طرح دیکھ کر نیند میں ہی مرجانے کی تمنا جیسے متحرک اور چاق و چوبندزندگی گزارنے کی تمنا ہے۔ موت کا موضوع میری شاعری میں میری ابتدا سے ہی چلا آرہا ہے اور آج تک کسی نہ کسی رنگ میں آتا چلا جا رہا ہے۔اس لیے مجھے ٹیگور کی نظم ’’موت‘‘اچھی لگی۔ان کی ’’سناٹا‘‘پڑھتے ہی مجھے اپنی نظم ’’خلا‘‘یاد آئی۔ان کی نظم’’کفالت‘‘کو پڑھا تو اپنی نظم’’دعا گزیدہ‘‘کی یاد آئی۔ان مختلف نظموں کے ساتھ مجھے اپنی نظموں کا یاد آنا،اس لیے نہیں ہے کہ ان میں کوئی مشابہت ہے،نظموں کے مضامین الگ الگ ہیں،تجربات کی نوعیت الگ الگ ہے،لیکن شاعر کا وہ احساس جواسے کہیں سے لے کر کہاں چلا جاتا ہے،اس میں جیسے ہم ایک دوسرے کے قریب سے ہی گزر رہے ہوتے ہیں۔اسی لیے ٹیگور کی ان نظموں کو پڑھ کر مجھے بہت اچھا لگا اور میری اس بات کی ایک بار پھرتوثیق ہوئی کہ : ’’ادب میں روحانی حوالے سے میں خود کو ٹیگور کے قریب سمجھ سکتا ہوں۔انہیں جانے بغیر میں جس انداز میں لکھ رہا ہوں،وہ لگ بھگ ویسا ہی ہے جیسا ٹیگور کے ہاں ذکر کیا جاتا ہے۔‘‘
ٹیگور کی نظم’’عورت‘‘کا آغاز ان سطور سے ہوتا ہے:
’’تو صرف مالکِ دوجہاں کی تخلیق نہیں ہے اے عورت
مرد نے تیرے دلآویز پیکر کو اپنے اندرون میں سنوارا ہے‘‘
اورنظم کا اختتام ان خوبصورت اور فکر انگیز سطور پر ہوتا ہے:
’’شرم، سجاوٹ، سنگار دے کر
تجھے بیش قیمت بنا کر چھپا دیا ہے
تو روشن آرزوؤں کا مرکز بن گئی ہے
آدھی انسان ہے تو
آدھا تخئیل!‘‘
نظم ’’سرحدوں کے درمیاں‘‘میں عرفانِ خداوندی کی انوکھی کیفیات سامنے آتی ہیں۔’’اروپ، تمہارے روپ کی لیلا میں دل کا نگر بے چین‘‘یہ مصرعہ تجرید اور ظاہر حقیقت،ہر روپ سے بالا اور ہزار روپ میں جلوہ گرحقیقتِ عظمیٰ کے گیان کی غمازی کر رہا ہے۔
نام اور روپ سے جو بالا ہے
کس قیامت کے نقش والا ہے
(وزیر آغا)
او اَن دیکھے!تیرے تو ہیں اربوں،کھربوں روپ
تیرے پانے کو بدلوں آخر کتنے بہروپ
(حیدر قریشی)
عرفانِ خداوندی سے لبریز یہ نظم عرفانِ ذات سے بھی بھر جاتی ہے اور تب مجھے حضرت علی کا فرمان یاد آتا ہے کہ جس نے خود کو پہچان لیا اس نے خدا کو پہچان لیا۔مجھے اس نظم میں ٹیگور معرفت کے اسی مقام کے آس پاس دکھائی دئیے ہیں۔اللہ جمیل و یحب الجمال سے لے کراللہ نور السمٰوات والارض تک کتنی ہی آفاقی سچائیوں کا پرتو اس نظم میں اپنی جھلک دکھا دکھاکر چھپ جاتا ہے۔
سرحدوں کے درمیاں لامکاں تم
بجاتے رہتے ہو اپنی دھن
کتنے رنگوں، کتنی خوشبوؤں میں
کتنے گیتوں ، کتنے چھندوں میں
اروپ، تمہارے روپ کی لیلا میں دل کا نگر بے چین
میرے اندر تمہارا حسن
کتنا مدھر ،کتنا دلکش
میری تمہاری ملاقات سے سب کھل جائیں گے
دنیا کے ساگر میں موجیں لہرا کر اٹھیں گی
تمہاری روشنی میں کوئی سایہ نہیں
وہ میرے ا ندر تشکیل پاتا ہے
میرے آنسوؤں میں ڈوب کر وہ متذبذب ہو اٹھتا ہے
میرے اندر تمہارا حسن
اتنا مدھر، اتنا دلکش
یہ مذہبی سطح پر کسی عقیدے کا اظہار نہیں ہے۔مذہب کی مقامی جھلک ان میں ضرور موجود ہے،لیکن ٹیگور کی جستجو انہیں اس سے اوپر لے جا کر ایسے تخلیقی تجربہ سے روشناس کراتی ہے جو اپنے اندر روحانی کیفیات لیے ہوئے ہے۔
یہ میری ٹیگور سے سرِ راہ ملاقات ہوئی ہے۔اگر مجھے ان کی تخلیقات کو پوری طرح پڑھنے کا موقعہ مل گیا تو شاید ان سے بھر پور ملاقات ہو جائے۔میں ٹیگور کی شخصیت کے بڑے سائز کے آئنے کے سامنے اپنا چھوٹا سا تخلیقی آئنہ لے کر روبرو ہو سکوں گا۔سائز کے فرق کے باوجود آئنے ایک دوسرے کے روبرو ہوئے تو عکسوں کا ایک لا متناہی سلسلہ سامنے آسکتا ہے۔ ایسی ملاقات کا سوچ کر مجھے وزیر آغا کی ایک نظم ’’نباض‘‘کی یہ سطریں یاد آگئی ہیں:
اس نے کاغذپہ لکھا روگ تمہارایہ ہے
میں نے کاغذ پہ لکھا روگ تمہارا بھی تومیرے ہی سجل روگ کاآئینہ ہے
اورپھرآئینے اک دوسرے کو دیکھ کے حیران ہوئے
اپنے روگوں کے نگہبان ہوئے!
میری دلی خواہش ہے کہ مجھے ٹیگور سے ایسی یادگار ملاقات کا موقعہ مل جائے۔شاید ممتارئے اور شہناز نبی کے توسط سے’’دستاویز‘‘کے مطالعہ سے ہی ایسا کچھ ہو جائے!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔