رابعہ سے طیبہ تک
سات سالہ بچی رابعہ کی کراچی کے علاقے منگھو پیر سے لاش ملی ،پوسٹ مارٹم میں معلوم ہوا کہ بچی کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی ہے ۔۔۔اسکے بعد رابعہ کا گلہ دبا کر اس معصوم کو قتل کیا گیا ۔۔۔رابعہ کے دادا عبدالقادر مگسی کے مطابق رابعہ اتوار کو لاپتہ ہوئی تھی ۔۔۔اتوار کو رابعہ لاپتہ ہوئی ،پیر کو منگھو پیر سے اس کی لاش ملی ،منگل کے روز علاقے کے لوگ اشتعال میں آگئے ۔۔۔علاقے میں دھڑنا ہوا ،مظاہرہ کیا گیا ،پھر پولیس نے ان مظاہرین پر پتھراو کیا ۔۔۔پولیس کی جانب سے فائرنگ اور لاٹھی چارج کے نتیجے میں احتجاج کرنے والا ایک شہری ہلاک ہوا۔۔۔جھڑپوں میں چھ پولیس والے بھی زخمی ہوئے جبکہ تین عام شہری بھی شدید زخمی ہو گئے ۔۔۔ہلاک ہونے والے شہری کا نام الیاس تھا ۔۔۔جو رابعہ کے لئے باہر نکلا اور ریاست کے غنڈوں نے فائرنگ کرکے اسے مار دیا ۔۔۔رابعہ کے والد اور والدہ کی جانب سے تین افراد کی نشاندہی کی گئی،ان تین میں سے دو کو گرفتار کر لیا گیا ہے جبکہ ایک علاقے سے فرار ہو گیا ہے ،پولیس کے مطابق فرار ہونے والے مشتبہ ملزم کی تلاش جاری ہے ۔۔۔ڈین این ائے رپورٹ کا انتظار ہے ،اس کے بعد ہی حتمی چارجز ملزمان پر لگائے جائیں گے ۔۔
والد کہتے ہیں کہ اتوار کے روز وہ گھر سے باہر کھیلنے گئی تھی ،رابعہ کھیلنے چلی گئی اور والد صاحب گھر سے باہر کسی کام کے لئے باہر نکلے ۔۔جب والد محترم گھر آئے اور پوچھا رابعہ کہاں ہے تو رابعہ کی والدہ نے کہا وہ صبح گھر سے کھیلنے نکلی تھی ،ابھی تک نہیں آئی ،تو اس پر رابعہ کے والد نے کہا آجائے گی ،رابعہ کے والد سو گئے ،اٹھے تو سوال کیا ،رابعہ آ گئی ،جواب آیا ،ابھی تک نہیں آئی ،اس کے بعد والد صاحب کو پریشانی ہوئی اور وہ بچی کو ڈھونڈنے باہر نکلے ۔۔۔علاقے میں اعلان کرایا گیا ،رابعہ کے والدین نے پولیس میں رپورٹ درج کرائی ۔۔۔پولیس نے کہا منگھو پیر بچوں کے اغوا کے حوالے سے بدترین علاقہ ہے ،وہاں بھی تلاش کرو ،رابعہ کے والد منگھو پیر کے علاقے میں گئے تو بچی کی لاش مل گئی ۔۔۔رابعہ کی والدہ کا کہنا ہے کہ جب اس نے اپنی بچی کو دیکھا تو پاوں ٹوٹے ہوئے تھے ،ہاتھ بھی ٹوٹے ہوئے تھے اور ظالموں نے رابعہ کے منہ کو بھی نوچ لیا تھا ۔۔۔۔۔رابعہ لاش کی صورت میں معاشرے کا گھناونا چہرہ محسوس ہورہی تھی ۔۔۔ایک بدقسمت غریب بچی درندوں کی حوس کا نشانہ بنی اور المناک موت کا شکار ہوئی ۔۔۔یہ تو تھی غریب اور مظلوم رابعہ جس کو معلوم نہیں انصاف ملے گا بھی یا نہیں ۔۔۔اب چلتے ہیں گزتہ روز کی ایک اور اہم خبر کی جانب ۔۔۔۔اسلام آباد میں دسمبر دو ہزار سولہ میں ایک واقعہ پیش آیا تھا ۔۔۔گھریلو ملازمہ طیبہ پر ظالم جج اور اس کی بیوی نے تشدد کیا تھا ،یہ واقعہ سوشل میڈیا کے زریعے منظر عام پر آیا تھا ۔۔۔شروع میں طیبہ کی تشدد زدہ تصاویر سامنے آئیں،یہ تصاویر ٹوئیٹر پر شئیر کی گئی تھی ۔۔۔تشدد کرنے والے ظالم جج کا نام خرم علی راجہ اور ان کی بیوی ماہین تھے ۔۔۔27 دسمبر کو یہ کیس سامنے آیا تھا ،29 دسمبر کو اس پر کاروائی شروع کی گئی ،سات دن کے بعد تین جنوری دو ہزار سترہ کو ظالم جج کے ساتھی وکیلوں کے دباو پر ظیبہ کے والدین نے راضی نامہ کر لیا ۔۔۔عدالت میں راضی نامہ کو فوری طور پر قبول کیا گیا ،اس طرح ظالم جج اور اس کی اہلیہ کو ضمانت مل گئی ۔۔۔اس پر سپریم کورٹ کے چیف جستس ثاقب نثار نے سو موٹو نوٹس لیا اور کہا کہ کیسے ایک بچی پر وحشیانہ تشدد کیا گیا ،کیسے دنوں میں راضی نامہ کر لیا گیا ،دال میں کچھ تو کالا ہے ؟چیف جسٹس نے اسلام اآباد ہائی کورٹ کو کہا کہ وہ اس مقدمے کو دیکھے ۔۔۔گزشتہ روز اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج عامر فاروق نے فیصلہ سنا دیا ۔۔۔ظالم جج اور اس کی بیوی کو جس نے طیبہ پر وحشیانہ تشدد کیا تھا ایک سال قید اور پچاس پچاس ہزار جرمانے کی سزا دی گئی ۔۔۔فیصلے میں کہا گیا کہ طیبہ پر تشدد ثابت نہیں ہوا،اس کے ساتھ بدسلوکی کی گئی ،ظالم جج اور اس کی بیوی جن کو ایک سال کی سزا دی گئی تھی ،پولیس کا کام یہ تھا کہ فوری ان کو حراست میں لیا جاتا ،لیکن اگلے ہی لمحے اسی جج نے جس نے سزا سنائی تھی مجرم سابق جج اور اس کی بیوی کو ضمانت پر رہائی کے احکامات جاری کردیئے ۔۔۔۔پاکستان کے عدالتی نظام کو میری جانب سے ایک بہت بڑا سلام ۔۔۔کورٹ روم میں ہی فوری طور پر مجرم جج کو ضمانت ملنا یہ بتاتا ہے کہ ہمارا عدالتی نظام کیسا ہے؟چیف جسٹس نے جب طیبہ تشدد کیس کا سو موٹو نوٹس لیا تھا تو فرمایا تھا کہ اس کیس کے حوالے سے ایسا فیصلہ دیں گے کہ جس سے چائلڈ لیبر کے حوالے سے بھی پالیسی سامنے آئے گی ۔۔فیصلہ دیکر مثال قائم کریں گے ۔۔۔اب آخر میں یہ بتا دیتا ہوں کہ حقیقت میں طیبہ پر تشدد کا واقعہ سامنے کیسے آیا تھا ۔۔۔اسلام آباد کے علاقے آئی ایٹ میں ایک جج کا گھر تھا ۔۔۔اس جج کا نام ہے خرم راجہ ۔۔۔اس میں جج صاحب کی بیوی اور بچے رہتے تھے ۔۔۔ہمیشہ صبح و شام گھر سے ایک بچی کے چیخنے چلانے کی آوازیں آتی تھی ،ہمسایوں کا کہنا تھا کہ یہاں ایک بچی کام کرتی ہے ،جس کا نام طیبہ ہے ،ہر روز جج اور اس کی بیوی اس بچی پر تشدد کرتے تھے ،اسی وجہ سے یہاں سے چیخنے چلانے کی آوازیں آتی تھی ۔۔۔کسی ہمسائے نے طیبہ کی تشدد زدہ تصاویر بنائیں اور سوشل میڈیا یعنی ٹوئیٹر پر ڈال دی ۔۔اسی وجہ سے یہ واقعہ سامنے آیا ۔۔۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔