آپ کو پتہ ہے راگ کیا ہوتا ہے؟
آپ کو بھلا کیا معلوم۔ میں جانتا ہوں آپ شریف آدمی ہیں اور راگ رنگ سے دور رہتے ہیں۔ شریف تو خیر میں بھی بہت ہوں جس کا ہمیشہ افسوس رہتا ہے۔ لیکن جب کہیں چار آدمیوں کے بیچ کسی پکے گانے والے کو سنتا ہوں تو (اپنا)سر ایسے دھنتا ہوں جیسے ایک ایک راگ سمجھ رہا ہوں۔ ویسے یہ حرکت میں اکثر مشاعروں میں بھی کرتا ہوں ( اور میں جانتا ہوں کہ آپ بھی یہی کرتے ہیں) اور واہ واہ سبحان اللہ کہہ کر اپںے آپ کو شعر فہم ثابت کردیتا ہوں لیکن یقین جانئیے کہ شاید ہی کبھی کوئی شعر سمجھ آیا ہوا سوائے ان اشعار کے جو ٹرکوں، بسوں ویگنوں اور رکشاؤں کے پیچھے لکھے ہوتے مثلاً
پلٹ کر دیکھ لے ظالم تمنا ہم بھی رکھتے ہیں
ترے پاس فورڈ ہے تو ٹویوٹا ہم بھی رکھتے ہیں
یا پھر
ڈریور کی زندگی بھی ایک کھیل ہے
موت سے بچے تو سنٹرل جیل ہے
یہی سچی شاعری ہے جو دل کو چھوتی ہے۔۔ خیر ہم راگوں کی بات کررہے تھے۔ نہ میں جانتا ہوں کہ راگ کیا ہوتے ہیں نہ آپ پہچان سکتے ہیں کہ یہ جو سامنے ستار یا سرمنڈل لئے ، کاندھوں پر شال اور منہ میں پان ڈالے استاد جی جو ۔۔۔آیایایایایا، دھیم دھیم تانا دھیم دھیم، نادر دھن تا نادر دھن تا دھین دھین تانا ناناں ۔۔کررہے ہیں کون سا راگ الاپ رہے ہیں لیکن جب وہ بیچ بیچ میں وضاحت کرتے ہیں کہ یہ خیال مالکونس میں پیش کیا ہے، یا کہتے ہیں کہ دیکھئے ایمن کلیان میں کیا زبردست دھن نکالی ہے تو ہم بھی جھوم کر کہتے ہیں واہ واہ ایمن کلیان کی کیا ہی بات ہے۔
استاد بتاتے ہیں کہ راگوں سے مختلف کیفیات پیدا ہوتی ہیں۔ لیکن میرا خیال ہے کہ مختلف کیفیات کی وجہ سے مختلف راگ پیدا ہوتے ہیں۔ بھنگ یا کوئی اور نشہ زیادہ چڑھا ہو اور طبیعت سنجیدہ اور مراقباتی سی لگ رہی ہو تو روں ، روں ، ریں ریں کرتا ہوا راگ بھیروں سنائی دیتا ہے۔ لیکن اگر مستی اور شوخی کی کیفیت ہو اور طبیعت نٹ کھٹ سی ہورہی ہو تو چلبلا سا راگ پہاڑی اپنا رنگ جماتا ہے۔ لیکن یہ سب کہنے کی باتیں ہیں ۔ ہمیں تو جب تک گانے والے استاد جی نہ بتائیں تو راگ پیلو، بھیم پلاسی، تلک کمود، اساوری اور جے جے ونتی سارے ایک جیسے ہی راگ لگتے ہیں ۔ ہاں کبھی کوئی راگ زورسے جھنجوڑ دے تو شاید وہ “ جھنجھوٹی” راگ ہوتا ہے۔
یہ بھی سنا ہے کہ ملہار گانے سے برکھا برستی ہے اور دیپک راگ، آگ لگا دیتا ہے۔ اور یہ بھی سنا کہ راگ بھی وقت وقت کے ہوتے ہیں۔ کچھ لوگ بے وقت کی راگنی بھی الا پتے ہیں تو کچھ ایسے بھی ہیں جو ہواؤں کا رخ پہچانتے ہیں اور ہمیشہ وہ راگ گاتے ہیں جو ہر وقت کا راگ ہے۔
جی ہاں یہ “ راگ درباری” ہے جو ہر وقت کا راگ ہے اور اس کے گانے والے ہمیشہ بڑے سکھی اور سپھل رہتے ہیں کہ سدا کسی نہ کسی دربار سے جڑے رہتے ہیں اور اس کی شان میں تانیں ملاتے رہتے ہیں۔ ان کا کمال یہ ہے کہ ہمیشہ بادشاہ وقت کی مصاحبی میں رہتے ہیں اس کی شان میں ہر وقت زمین آسمان کے قلابے کچھ اس طرح ملاتے ہیں کہ سننے والا بھی حیران رہ جاتا ہے لیکن یہ سننے والے بھی ایسے ہی ہوتے ہیں جن کے من کو یہ ہی راگ بھاتا ہے۔ راگ درباری الاپنے والے گوئیے لیکن بڑے کائیاں ہوتے ہی اور ہوا کی سمت پہچانتے ہی وقت پڑنے پر چمپت ہوجاتے ہیں ۔
یہ موقع شناس، ابن الوقت اور حرفوں کے بنے ہوئے استاد گائیک ہر زمانے میں اور ہر دربار میں موجود رہتے ہیں لیکن جب دربار اور بادشاہ کا چل چلاؤ ہوتا ہے تو پھر یہ وہاں نظر نہیں آتے بلکہ اکثر دیکھا گیا کہ بادشاہ کی ایسی تیسی کروانے میں یہی حضرات پیش پیش ہوتے ہیں۔
مملکت خدادا میں راگ درباری گانے والے یہ گوئیے ہر دور، بلکہ ہر دربار میں موجود رہے ہیں۔ مجھے تاریخ کا اتنا ہی علم ہے جتنا آپ کو پکے راگوں کا، لیکن کچھ ایسے نمایاں فنکار آج بھی یاد ہیں اور آج بھی موجود ہیں جنھوں نے اس فن میں کمال حاصل کیا ہے۔
جب آنکھ کھلی تو ملک میں جنرل ایوب خان کی بادشاہی تھی۔ ان کے دربار میں ایک سے بڑھ کر ایک راگ درباری گانے والے استاد موجود تھے۔ ایک تو ایسے تھے جو انہیں اپنا باپ مانتے تھے لیکن جب دیکھا کہ خان کا راج سنگھا سن ڈوبنے کے قریب ہے تو پھر اس طرح اس ہجوم میں شامل ہوگئے جو پتھر مارنے والوں میں سب سے نمایاں تھا۔
لیکن راگ درباری گانے والوں میں سب سے اونچی تان ایک بظاہر نحیف اور دبلے پتلے نظر آنے والے درباری کی تھی۔ جتنے یہ دبلے پتلے تھے اس سے زیادہ خود کو چست و چالاک ظاہر کرنا چاہتے تھے ( ان کی بیگم ان کی ضد تھیں اور صوبہ مغربی پاکستان کی وزیر صحت تھیں، اور برحق تھیں کہ ان کی صحت ہی ایسی مثالی تھی)۔ تاریخ کی کتابوں میں ان حضرت کا نام “ چودھری خلیق الزماں” لیا جاتا ہے۔ یہ شاید ایوب خان کی خانہ زاد سیاسی اورحکمراں جماعت کنونشن مسلم لیگ کے صدر یا نائب صدر تھے۔ پرانی بات ہے، میں بچہ سا تھا، ٹھیک سے یاد نہیں۔ لیکن ایک راگ انہوں نے ایسا گایا تھا کہ اس کے بول آج تک کانوں میں گونج رہے ہیں۔ چودھری صاحب نے تجویزا تھا، بلکہ بنتی کی تھی کہ ایوب خان تاعمر مسند حکومت پر متمکن رہیں۔ اب دربار میں اس سے بڑھ کر اور کون راگ گا سکتا تھا۔
ایوب خان کا دھڑن تختہ ہوا۔ اس کے سپہ سالار نے زمام حکومت سنبھالی اور وہ صاحب جنہوں نے ایوب کو اپنا والدقرار دیا تھا نئے حکمراں کے ساتھ مل کر کچھ ایسے چکر چلاتے رہے کہ اس ساری اٹھا پٹخ میں ملک ہی ٹوٹ گیا۔ بادشاہ سلامت نے اپنا ناؤ نوش کا سامان سنبھالا اور اپنی سہیلیوں کو لے کر چپ چاپ گھر چلا گیا اور مسند حکومت بھی انہی صاحب کے حوالے کی۔
ان حضرت کے گرد بھی راگ درباری گانے والوں کو ایک زبردست ٹولہ، گھیرا ڈالے ہوئے تھے۔ جن کی پڑھائی ہوئی پٹی کا نتیجہ یہ ہوا کہ حکومت پر قابض رہنے کے چکر میں اگلے انتخابات میں جی بھر کر دھاندلی کی، لیکن یہ الٹی انہی کے گلے پڑ گئی۔ اس دھر پٹخ کے نتیجے میں پھر “ امیر العساکر” نے تخت سنبھال لیا اور جن سے حکومت لی تھی بالآخر انہیں تختہ دار پر پہنچا دیا۔
امیر العساکر نے اب امیر المومنیں بننے کا ارادہ کیا اور گیارہ برس تک منصب شاہی پر صریر آراء رہے۔ مملکت خداداد کے تخت شاہی میں خدا نے کچھ ایسی تاثیر رکھی ہے کہ جو کوئی اس پر بیٹھتا ہے، راگ درباری کا اسیر ہوجاتا ہے اور اس کی تفنن طبع کے لئے ایسے درباری گوئیے بھی میسر آجاتے ہیں۔ امیرالمومنین کے دربار میں بھی ایسے گوئیوں کی کمی نہ تھی۔
لیکن میدان ہاتھ رہا ایک لوہار کے۔ اس لوہار کی ایک چھوٹی سی بھٹی تھی جس میں کباڑیوں سے پرانا ٹین ٹبر لے کر لوہا ڈھالا جاتا تھا۔ لیکن دربار میں بادشاہ سلامت کو کچھ ایسے لبھایا کہ اس کی دن دگنی، رات چوگنی ترقی سے آنکھیں خیرہ ہوجائیں۔ لوہے کی بھٹیاں سونا ڈھالنے لگیں اور نہ صرف مملکت خداداد بلکہ دنیا بھر میں اس کی دولت کے ڈنک نے بجنے لگے۔ اسی دربار سے وابستگی تھی کہ اسے تین بار تخت پر بیٹھنا نصیب ہوا۔
لیکن فلک ناہنجار بھلا کب کسی کو خوش دیکھ سکتا ہے۔ اس کی مملکت کے ایک نوجوان اور خوبرو کھلاڑی نے مسند حکومت پر بیٹھنے کے خواب دیکھنا شروع کردئیے۔یہ کھلاڑی اب نہ نوجوان رہا تھا نہ خوبرو لیکن حکومت کرنے کی خواہش اسے بہت ہی شدید تھی۔ آخر ایک دن وہ شاہی محل کے سامنے پیر پسار کر بیٹھ گیا کہ جب تک مجھے حکومت نہیں ملے گی یہاں سے نہیں ہٹوں گا۔ اسے بھلا ایسے ہی حکومت کیسے ملتی، لیکن اس کی نظریں سپہ سالار کی طرف رہتیں کہ کب وہ اپنی انگلی کا اشارہ کرے اور لوہار کی حکومت کا بستر بوریا گول ہو۔ چونکہ اس سے پہلے چار بار بھی یہی سپہ سالاران حکومت سنبھال چکے تھے اور دنیا جانتی تھی اور سب سے زیادہ کھلاڑی جانتا تھا کہ اصل بادشاہ گر یہی سپہ سالار ہوتے ہیں ، کھلاڑی کی ساری امیدیں سپہ سالار سے وابستہ تھیں اور وہ اکثر وبیشتر راگ درباری میں اصل حکمرانوں کے گن گایا کرتا۔
آخر وہ گھڑی آ پہنچی جب سپہ سالار نے اس اپنے دربار میں آنے کی دعوت دی۔ اور دنیا نے کھلاڑی کی خوشی کا وہ عالم بھی دیکھا کہ چری ہوئی با نچھیں اپنی جگہ پر آنے کا نام نہ لیتی تھیں۔ ایک ایسی مسکراہٹ جیسے روم روم کہہ رہا ہو۔۔۔” مجھے آرزو تھی جس کی وہ پیام آگیا ہے”۔ ۔۔لیکن بدقسمتی سے سپہ سالار نے دوچار دلا سے دے کر اسے واپس بھیج دیا لیکن اس کے بعد آنے والے سپہ سالار نے منصف اعلا کی مدد سے اسے اس کی منزل مقصود تک پہنچا ہی دیا۔ کھلاڑی کی امید برآئی۔
اور پھر دنیا نے یہ بھی دیکھا کہ اس نئے بادشاہ کے دربار میں راگ درباری گانے والوں کی ایسی عظیم الشان کھیپ اتری جو شاید ہی کسی سربراہ مملکت کو نصیب ہوئی ہو۔ اکبر اعظم کے نو رتن تھے لیکن اس بادشاہ کے سو سے بھی زیادہ رتن ہیں اور ہر ایک راگ درباری گانے میں دوسرے سے بازی لینے کے درپے ہے۔ یہ گوئیے صبح و شام اپنے ممدوح کی حمدوثناء میں مصروف رہتے ہیں۔ اسے طرح طرح کی صلاح دیتے ہیں کہ اسے بھی یقین ہوگیا کہ فی الوقت اس سے بڑا عالم و فاضل، عقلمند و زیرک چہار دانگ عالم میں کوئی نہیں۔
موجودہ دربار میں ایک سے ایک باکمال گویا موجود ہے جو دن رات راگ درباری کے کمالات دکھانے میں مصروف ہے لیکن سب کا ذکر اس مختصر سے مضمون میں ممکن نہیں لیکن چار زبردست قسم کے گوئیوں کے حالات مختصرا عرض کئے دیتا ہوں۔
اب تک بات اشارے کنائے میں ہورہی تھی کہ ، بڑے لوگوں ، کے نام اس طرح لینا اچھا نہیں۔ انیس ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو۔۔ لیکن اب جن حضرات کا ذکر خیر ہے ان کا نام بھی لینے میں کوئی حرج نہیں کہ جب انہیں نہیں شرم تو ہم کاہے کو شرمائیں۔ یہ چار نگینے اس خزانے سے چنے ہیں لیکن ان سے پہلے مختصرا” دو اور گلوکاروں کے درباری نغمات کا ذکر ہوجائے۔
ان میں پہلے تو ہیں موجودہ پنجاب اسمبلی کے اسپیکر اور آمر جنرل پرویز مشرف کے دور میں پنجاب کے وزیر اعلا محترم چودھری پرویز الہی جو پہلے کبھی اپنے عم زاد سمیت نواز شریف کے بہت قریب ہوا کرتے تھے لیکن دونوں بھائیوں نے نواز شریف کا تختہ الٹتے ہی مشرف کے دست شفقت پر بیت کرلی۔ اس کے عوض مشرف نے انہیں وزیراعلی بنا دیا۔ مشرف کی عنایتوں کے زیر بار چودھری صاحب نے دلی خواہش ظاہر کی پرویز مشرف کبھی وردی نہ اتاریں اور اسی طرح صریر آرائے سلطنت رہیں۔ ان حضرت کو پہلے آصف علی زرداری نے بے نظیر کے قاتلوں میں گردانا تھا اور ان کی جماعت مسلم لیگ “ق” کو قاتل لیگ قرار دیا تھا۔ لیکن بے نظیر کی المناک موت کے بعد جب زرداری صدر بن گئے تو انہوں نے اسی قاتل جماعت کے چودھری پرویز الہی کو نائب وزیر اعظم کے عہدے پر فائز کردیا۔ اس دوران جو کچھ ان حضرت نے کیا اس کے نتیجے میں موجودہ وزیر اعظم جناب عمران خان صاحب نے انہیں پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو قرار دیا۔ لیکن آج وہ اسی ڈاکو کی حمایت سے پنجاب پر راج کررہے ہیں جہاں عددی طور سب سے زیادہ نشستیں ان کی مخالف مسلم لیگ نون کے پاس ہیں۔ خدا جانے یہ چودھری برادران کے راگ درباری کا کمال ہے یا زرداری اور عمران خان صاحبان کی راگ درباری کی پذیرائی و سرپرستی کا نتیجہ کہ یہ قاتل اور ڈاکو دونوں حکومتوں کی ناک کا بال بنے رہتے تھے۔
ہمارے سابقہ نوجوان اور وجیہہ اور حالیہ وزیراعظم کے ساتھ جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ راگ درباری کے گوئیوں کی سب سے بڑی جماعت ان کی مداح سرائی میں مصروف رہتی ہے ان میں ایک صاحب جو ویسے تو بہت ہی متنازعہ اور مشکوک قسم کے ہیں اور جن کے خیالات اور حرکات پر اکثر شریف النفس لوگ نفرین بھیجتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ جناب فیصل واوڈا صاحب ہیں جنہوں نے ایک بار جوش قدح میں فرمایا ( نعوذ باللہ) کے اللہ کے بعد اگر کوئی ہے تو وہ ان کے ممدوح محترم عمران خان ہیں ( خان صاحب کی ذاتی زندگی کے حوالے سے جو باتیں زیر گردش رہتی ہیں ان کا ذکر کرنا مناسب نہیں۔ وہ جانیں اور ان کا خدا جانے، ہمیں کیا)۔ لیکن واوڈا صاحب نے تو جوش مدح سرائی میں کائنات کی عظیم ترین ہستی کو بھی بھلا دیا اور نہ ہی ان کے ممدوح نے کسی قسم کی سرزنش کی۔
خیر جی تو بات ہورہی تھی ان چہار درویشوں کی۔ ویسے درویش تو وہ ہرگز نہیں ہیں ورنہ درویش تو دنیائے فانی کے لئے اتنا کبھی گر ہی نہیں سکتے۔ یہ حضرات تو دربار سے چمٹے رہنے کے لئے تمام اصولوں اور آدرشوں سے کوسوں دور ہیں ۔ شرم، غیرت اور حمیت کیا ہوتی ہے، اس سے یہ کوئی علاقہ نہیں رکھتے۔
ان میں پہلے حضرت بزعم خود ایک بہت بڑے قانون دان ہیں۔ اپنے دور حکومت ( اپنی پارٹی کے دور حکومت) میں سرکاری ٹی وی پر عالم دین بھی بنے ہوئے تھے اور درس قرآن بھی دیتے تھے۔ ان کے پاس ڈاکٹریٹ کی ڈگری ہے جو ایسی یونیورسٹی نے عطا کی ہے جو کہیں عالم بالا میں قائم ہے کہ دنیا میں اس جامعہ کا کہیں وجود نہیں۔ ان کے بارے میں یوں سمجھ لیں کہ لومڑی سے زیادہ چالاک اور سانپ سے زیادہ زہریلا اگر کوئی ہوسکتا ہے تو وہ یہ حضرت ہیں۔ نام تو ان کا شہنشاہوں جیسا ہے یعنی ظہیرالدین بابر لیکن حرکتیں درباریوں جیسی ہیں ۔
ان کے بارے میں سنا ہے کہ جب ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی ہوئی تو انہوں نے مٹھائیاں بانٹی تھیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ہم نے انہیں مٹھائیاں بانٹتے نہیں دیکھا کہ تب ہم ان کے نام گرامی سے وقف ہی نہیں تھے۔ البتہ ہم نے یہ ضرور دیکھا کہ پھر یہ اسی بھٹو کی جماعت کے وزیر قانون بنے اور راگ درباری کی بدولت ایک مقام ایسا بھی آیا کہ بھٹو کی جماعت پر قبضہ کرنے کی تگ و دو میں لگ گئے۔ اس جماعت کے سربراہ آصف زرداری کی وکالت کچھ اس طرح سے کی کہ انہیں کہیں کا نہ چھوڑا۔ ان کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو نااہل کرواکر یہ حضرت پیپلز پارٹی سے اپنا بستر بوریا گول کرگئے۔
زرداری کے دربار سے وابستگی کے دنوں میں یہ موجودہ وزیر اعظم کے شدید مخالفین میں سے تھے اور انہیں اکثر ٹی وی کے ٹاک شوز میں طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا کرتے تھے ، خصوصا” ان کی رہائش گاہ کے حوالے سے جو بقول ان کے ایک پہاڑ پر غیر قانونی قبضہ کرکے تعمیر کی تھی ( ویسے اس بارے میں آج تک کوئی شافی وضاحت وزیر اعظم صاحب بھی نہیں دے سکے اور یہ بھی ان کے دیگر معاملات کی طرح ایک مشتبہ معاملہ ہی ہے) ۔ بابر اعوان صاحب کا کمال یہ ہے کہ اس قدر زہر اگلنے کے بعد آج انہی وزیر اعظم کے خصوصی درباری یعنی معاون خصوصی لگے ہوئے ہیں اور انہیں جسے پنجابی میں کہتے ہیں “ پٹھی سیدھی” قانونی پٹیاں پڑھاتے رہتے ہیں کہ جن کی وجہ سے کئی بار حکومت وقت کو عدالت عظمی میں ہزیمت اور شرمندگی اٹھانی پڑی۔ لیکن ان حضرت کے راگ درباری کا کمال یہ ہے کہ اس کے باوجود دربار میں موجود ہیں کہ صاحب دربار خود راگ رنگ کے رسیا اور کن رس ہیں اور انہیں بھی راگ درباری بے حد بھاتا ہے۔ اگر کبھی اس حکومت پر کوئی برا وقت آیا تو اس میں ان حضرت کی قانونی موشگافیوں کا سب سے بڑا ہاتھ ہوگا لیکن اس وقت تک یہ کسی اور دربار کی تلاش میں نکل پڑے ہونگے۔ آپ سب دیکھتے رہئیے۔
دوسرے حضرت ایک راہ سلوک و طریقت کی حامل شخصیت ہیں حالانکہ مغربی وضع قطع اپنائے ہوتے ہیں اور مغربی مشروبات سے شوق بھی فرماتے ہیں۔ یہ ایک بہت بڑے سلسلہ طریقت کے مجاور ہیں اور اس سلسلے کی خانقاہ کے لئے نذرونیاز اپنے دست مبارک سے خود وصول کرتے ہیں ۔ یہ اور بات ہے کہ ان کے اپنے ہی خاندان کے لوگ اور ان کے بھائی کہتے ہیں کہ یہ ناجائزطور پر “ گدی” پر قابض ہیں۔ ان کےدادا ،پردادا بھی انگریز کے دربار سے وابستہ تھے اور ہندوستان، خصوصا پنجاب کے حریت پسندوں کی مخبری کے صلے میں خلعت فاخرہ پاتے تھے۔
دربار سے محبت ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی ہے۔ یہ ہمارے موجودہ وزیر خارجہ حضرت مخدوم زادہ شاہ محمود قریشی قدس سرہ ہیں جن کی خارجہ پالیسی کے بدولت آج ہم دنیا میں “ پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں “ کی تعبیر بنے ہوئے ہیں۔ حضرت ایک زمانے میں نوازشریف کے دربار سے وابستہ تھے جو ذوالفقار علی بھٹو کی مخالفت میں “ پاکستان جمہوری اتحاد” کے زریعے وجود میں آئی تھی۔ ان کے والد گرامی شاید صوبہ پنجاب کے گورنر تھے۔ نواز شریف کی حکومت برطرف ہوئی تو بھٹو کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئے اور زرداری صاحب کے نفس ناطقہ بنے رہے۔ پھر جب ہوا کا رخ زرداری کے خلاف ہوتے دیکھا تو پہلے نواز شریف کی جماعت کا رخ کیا لیکن وہاں پہلے ہی ایک سے ایک گھاک اور جغادری سیاستدان موجود تھا جہاں ان کی دال گلنی مشکل تھی۔ پھر کچھ ایسے اشارے کنائے مل رہے تھے کہ اگلی حکومت عمران خان صاحب کی بنوائی جائے گی۔ شاہ صاحب درباروں سے وابستہ رہے ہیں۔ ہوا کا رخ پہچانتے ہیں ۔ ساتھ ہی انہیں عمران صاحب کی سیاسی صلاحیتوں کا علم تھا چنانچہ اس امید پر عمران صاحب کی پارٹی میں شامل ہوئے کہ ایک نہ ایک دن وہ خود وزیر اعظم کے منصب پر براجمان ہوں گے۔ اس پارٹی میں درون خانہ جو بھی درباری سازشیں ہوتی ہیں ان کا کھرا اکثر حضرت شاہ صاحب کی جانب نکلتا ہے۔ لیکن یہ اپنی چرب زبانی اور راگ درباری کی بدولت وزیر اعظم صاحب کی ناک کا بال بنے رہتے ہیں اور فی الحال حکمراں جماعت میں دوسرے نمبر پر فائز ہیں لیکن نظریں ان کی وزارت عظمی پر ہی رہتی ہیں۔ ان کا کمال یہ ہے کہ جب بھی یہ اپنے مخصوص لہجے میں چبا چبا کر بولتے ہیں صاف لگتا ہے کہ جھوٹ بول رہے ہیں۔ خان صاحب کی حکومت اگر کبھی گئی تو اس میں سب سے بڑا “یوگ دان “ انہی شاہ صاحب کا ہوگا کہ ان کا اس جماعت میں آنے کا واحد مقصد ہی یہ تھا۔
اب آئیے راگ درباری کے سب سے بے سرے گوئیے کی طرف۔ یہ ہیں راولپنڈی شہر کے بیچوں بیچ ایک سرخ رنگ کے مکان میں رہنے والے جناب شیخ رشید صاحب جنہیں اکثر لوگ پیار سے شیدا ٹلی بھی کہتے ہیں کہ یہ اکثر پیشگوئیوں کی ٹلیاں کھڑکاتے رہتے ۔ وہ پیشگوئیاں جو کبھی پوری نہ ہوئیں۔ پاکستانی سیاست میں ان سے زیادہ بے حمیت اور بے شرم کردار شاید ہی کوئی گذرا ہوگا۔ کسی اور نے نہیں، ہمارے محترم وزیر اعظم صاحب نے ان کے بارے میں فرمایا تھا کہ اس شخص کو میں کبھی اپنا چپڑاسی بھی نہ رکھوں ( ویسے اس حکومت کا کمال ہے کہ اس میں چپڑاسی صاحب بنے نظر آتے ہیں تو اکثر صاحب لوگ چپڑاسی نظر آتے ہیں۔ میں پرویز خٹک صاحب کی بات نہیں کررہا۔وہ تو وزیر دفاع ہیں )۔ لیکن ہائے رے خانصاحب کی وزیر اعظم بننے کی اور شیخ صاحب کی دربار سے وابستہ رہنے کی خواہش کہ دونوں ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم بنے ہوئے ہیں۔
شیخ صاحب کی ایک جماعت بھی ہے جس کا نام ہے پاکستان عوامی لیگ۔ اس میں عوام بھی شیخ صاحب ہیں اور لیگ بھی وہی ہیں کہ اس پارٹی کے واحد رکن وہ خود ہیں اور ان کی پوری جماعت ایک سائیکل پر سوار ہوسکتی ہے۔ اس کے باوجود شیخ صاحب کے راگ درباری کا کمال ہے کہ وہ موجودہ حکومت کا ایک لازمی جزو بنے ہوئے ہیں۔
شیخ صاحب کبھی نواز شریف کے دربار سے وابستہ تھے اور انہیں اپنا رہبر و رہنما اور ملجا و ماوا مانتے تھے۔ نواز شریف کی محبت میں ان کی مخالف بے نظیر بھٹو کی کردار کشی میں سب سے بڑا حصہ شیخ صاحب کا ہوتا تھا جس میں بے نظیر کی مخالفت سے زیادہ نوازش شریف کے دربار میں پذیرائی کی خواہش شامل رہتی تھی۔ پھر جب نواز شریف پر برا وقت آیا اور جس آمر نے نواز شریف کا تختہ الٹا، شیخ صاحب بھی چودھری برادران کے ہمراہ مشرف کی خانہ زاد وزارت میں شامل ہوگئے۔ مشرف کی شان میں راگ درباری گاتے ہوئے انہوں نے مشرف کو “ سید مشرف” بنا ڈالا جس کا شاید اسے خود بھی علم نہیں تھا،۔ اپنے آپ کو علانیہ آمروں کے در کا دربان قرار دینے والے شیخ صاحب کی حیثیت راستے میں پڑی ہوئی کتیا جیسی تھی جسے ہر کوئی ٹھوکر مارتا تھا۔ لیکن اللہ رے اقتدار کی خواہش کہ انہی شیخ صاحب کو ہمہ وقت ذلیل و خوار کرتے رہنے والے خان صاحب نے گلے لگا لیا۔ آج خان صاحب کے دربار میں راگ درباری الاپنے والوں میں سب سے بلند آواز شیخ صاحب کی ہی ہے، گو کہ بہت ہی بے سری ہے۔
اب آئیے دربار کے سب سے کائیاں اور شاطر گوئیے کی جانب۔ یہ ہیں استاد فواد حسین چودھری صاحب۔ جب مشرف کے ساتھ کوئی نہیں تھا تو چودھری صاحب ان کے قریبی ترین ساتھیوں میں سے تھے۔ مشرف کے بعد زرداری کی حکومت آئی تو یہ زرداری صاحب کے ترجمان بن گئے اور اس شدومد سے بنے کہ مخالفین کا جینا حرام کردیا۔ ٹیلیویژن پر موجودہ وزیر اعظم کی ذاتی زندگی کو نشانہ بنانے میں یہ حضرت پیش پیش رہتے تھے لیکن آج یہ موجودہ حکومت اور وزیر اعظم کے نفس ناطقہ بنے ہوئے ہیں۔ ان کا کمال یہ ہے کہ دھڑلے سے جھوٹ بولتے ہیں۔ ان کا فلسفہ ہے کہ بے غیرتی کی زندگی ، غیرتمندی کی زندگی سے ہمیشہ بہتر ہے۔ نہ صرف زبان سے دشنام و بد گفتاری کے تیر برساتے ہیں بلکہ ہتھ چھٹ بھی ہیں اور اکثر تو دوسرے درباری گوئیوں پر ہی ہاتھ چھوڑ بیٹھتے ہیں۔ جھوٹ کو سچ بنا کر پیش کرنا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ کوئی بعید نہیں کہ آج یہ عمران خان کے ترجمان ہیں اور نواز شریف اور ان کی صاحبزادی ان کے نشانے پر رہتے ہیں، کل اگر کبھی نواز شریف یا ان کے خاندان کو کسی طرح اقتدار مل گیا تو یہی چوہدری صاحب ان کے ترجمان کے فرائض سنبھال لیں گے۔ ان کی اب تک کی زندگی میری بات کی تائید کے لئے کافی ہے۔
راگ درباری گانے والوں کی ایک طویل فہرست ہے۔ دربار سے باہر بھی بہت سے صحافی، دانشور اور بزرجمہر نہ صرف اس حکومت بلکہ ہر دربار کی مداح سرائی میں مشغول نظر آئیں گے۔ آج بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو ہر وقت نغمہ سرا رہتے ہیں
تمہی میرے مندر، تمہی میری پوجا، تمہی دیوتا ہو
لوگ بھول جاتے ہیں کہ مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے۔ دارا و سکندر نہ رہے، قیصر و کسری ، چنگیز و ہلاکو، ہٹلر، شاہ شاہ ایران، مارکوس، قذافی ، صدام حسین اپنے اپنے وقتوں میں سیاہ و سفید کے مالک رہے لیکن پھر رزق خاک ہوئے اور ان کی داستاں بھی نہ رہی داستانوں میں۔
باقی رہنے والی صرف ایک اور ایک ہی ذات ہے۔
بس نام رہے گا اللہ کا ۔۔جو غائب بھی ہے حاضر بھی ۔جو منظر بھی ہے ناظر بھی
****
تحریر: شکور پٹھان
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...