آوارگی ہی میں زندگی کا بے مثال حُسن چُھپا ہے ۔
جیسے موت زندگی کی محافظ ہے اسی طرح آزادی اس کی شان اور جان ۔ انسان آزاد پیدا ہوا اور وہ آزادی روح کا جسم کو چھوڑنے تک جاری رہتی ہے ۔ روح کا ٹھکانہ دل ہے اور دل ہی تمام مسرتوں کا محور ۔ ناظم حکمت نے ٹھیک کہا تھا کہ سارا معاملہ دل کا ہے ۔ اندر کے موسم کی بات ہے ۔ وہ دلکش رہنا چاہیے جو کہ ہمارے بس میں ہے ۔ ممکنہ حقیقت اور سچ تو یہی ہے ۔ کل امریکہ سے ہی میری دوست کہ رہی تھی کہ آپ ڈائجنیز اور سرمد کہ ننگے ہونے پر بہت زور دے رہے تھے ۔ دراصل ان دونوں کا ننگا پھرنا ایک علامتی عمل تھا ۔ وہ اس مقام کو پہنچ گئے تھے جہاں ہر قسم کی قید ان کے لیے گناہ کبیرہ تھا ۔
پچھلے دنوں میں نے قومیت کی تحریک کا تزکرہ کیا ۔ اور بعض لوگوں نے یہ تبصرہ کیا کہ یہ انسانی آزادی کہ خلاف عمل ہے تو میرا کہنا تھا کہ کیا آپ اپنے گھر میں کسی کو بھی گھسنے دیں گے ؟ آپ لوگوں نے تو سیکورٹی گارڈ رکھ لیے ہیں ، اسی طرح ملک اپنی سرحدوں پر دیواروں اور خاردار تاروں کی بات کر رہے ہیں ۔ کل میں اپنی آسٹریلوی ادیب دوست سے بات کر رہا تھا کہ آسٹریلیا نے تو امریکہ سے بھی زیادہ پابندیاں لگا دی ہیں ۔ اُس نے کہا کیا کریں وہ میلبورن رہا ہی نہیں جس میں مجھے بڑے ہونے کا موقع ملا ۔ چینیوں نے گند ڈال دیا ہے ۔
اس کے نزدیک نودولتیے گند کی بڑی وجہ ہے ان کے spoiled brats جو مغرب کی یونیورسٹیوں میں پڑھنے آتے ہیں اور ادھر ہی پھر ٹِک جاتے ہیں ، انہوں نے ایک طوفان بدتمیزی مچا دیا ہے پورے آسٹریلیا میں ۔
سیمؤل ہٹنگٹن نے اپنے مشہور مقالے ‘تہزیبوں کا ٹکراؤ’ میں جو دلائل دیے تھے یہ اس سے یکسر مختلف ہے ۔
مسئلہ سارا مادہ پرستی اور سرمایا دارانہ نظام کا ہے جس نے تہزیب و تمدن کو پیچھے چھوڑ دیا ہے لہٰزا یہ سب پابندیاں ۔ یہ سارا ظلم و ستم اسی کا نتیجہ ہے ۔ اس سارے تماشے کا انجام وہی ہے جو نواز شریف اور اس کی بیٹی ، کلثوم کو مصنوعی زندگی دے کر لندن کے ایک ہسپتال میں دیکھ رہے ہیں ۔
آج صبح پارک میں کچھ نوجوان لوگوں سے ملاقات ہوئ ۔ یہاں گرمیوں کی چھٹیاں ہے ۔ اکثر جاگنگ کرتی لڑکیاں اور لڑکے نظر آتے ہیں ۔ وہ سارے متفق تھے کہ اس ورزش کہ بعد جو راحت ملتی ہے اس کا کوئ نعم البدل نہیں ۔ ایسا کیوں ہے ؟ کیونکہ آپ کچھ لمحوں کے لیے آزاد ہو جاتے ہیں ہر پریشانی ، فکر اور مصیبت سے ۔ خوشی کہ کیمیکل ورزش سے ریلیز ہوتے ہیں ۔ یہی دراصل روحانیت کی بھی آزادی ہے ۔ یہی جسم کو روح کِہ تابع کرنے کا عمل ہے ۔ ہم ہیں بس ایک پریشانی اور مصیبت کی علامت بنے ہوئے ہیں ۔ اتنا زور ہم اپنے پر غالب ، ظالم حکمرانوں پر نہیں لگا رہے جتنا ہم مال و دولت بنانے کے فکر میں صرف کر رہے ہیں ۔ اس صورت حال کو بدلنا ہو گا ۔ تمام ریاستوں نے اپنے دروازے بند کر دیے ہیں۔ یہ تہزیبوں کا ٹکراؤ نہیں بلکہ اپنی اپنی تہزیبوں میں واپس آنے کا عندیہ اور بات ہے ۔
کچھ لوگ میری تحریروں کو سمجھ نہیں پاتے کیونکہ وہ اس فریکوینسی پر نہیں ہیں جس پر میں ہوں ۔ آپ کو بہت سارے لکھاری ایسے مل جائیں گے جو آپ کی فریکوینسی پر ہیں ۔ میرا ان تحریروں سے کوئ مداح یا مرید اکٹھے کرنا نہیں ہے بلکہ ایک اپنا چیزوں کے بارے میں نقطہ نظر پیش کرنا ہے ۔ جس کا نہ تو میں کسی سے معاوضہ لیتا ہوں نہ بھتہ ۔ آپ کا اس سے متفق ہونا قطعا ضروری نہیں ۔
اگلے دن کینیڈا سے ایک میری تحریروں کو پڑھنے والے دوست نے اپنی بیٹی کی شادی کا کارڈ بھیجھا ۔ مجھے بے حد مسرت اس بات کی ہوئ کہ میں اور میری تحریروں کہ پڑھنے والے ایک مقدس رشتہ میں پروئے گئے ہیں ۔ ہم سب اب ایک فیملی ہیں ۔ میں آپ سب کے لیے بہت دعا گو ہوں ۔ اپنی زندگیوں کو جتنا آسان ہو سکتا ہے کریں ۔ کوئ آج تک یہ مال و دولت ساتھ نہیں لے گیا ۔ عبیداللہ علیم اس آوارگی کو کیا خوب بیان کرتاہے ۔
تُو بُوئے گُل ہے اور پریشان ہوا ہوں میں
دونوں میں ایک رشتہ آوارگی تو ہے ۔
اس رشتہ کی موج میں بہ جائیں ۔ پھر دیکھیں مزا ۔ بہت خوش رہیں ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔