قرۃ العین حیدر اور پروین شاکر کا جھگڑا
فکشن میں قرۃ العین حیدر جتنی مقبول و ممتاز ہیں شعر و ادب میں پروین شاکر بھی اتنی ہی مقبول ہیں۔ زندگی نے وفا نہ کی ورنہ بہت ممکن تھا کہ وہ کئی اور شاہ کار اردو ادب کو دے جاتیں۔ 1978ء کے اواخر میں وہ ہندوستان گئی تھیں۔ واپس آ کر انھوں نے اپنے سفر کی یاد گار کے طور کئی نظمیں لکھیں جن میں تین نظمیں بطور خاص اہمیت کی حامل ہیں۔ تاج محل۔فراق گورکھپوری۔اور قرۃ العین حیدر پر لکھی ہوئی وہ نظمیں ’’سیپ‘‘ کراچی۔شمارہ 38 (اکتوبر نومبر 1978) میں شائع ہوئی تھیں ۔
’’سیپ کا یہ شمارہ جب قرۃ العین حیدر صاحبہ تک پہنچا تو انھوں نے اپنے اوپر لکھی گئی نظم کے رد عمل کے طور پر مدیر ’’سیپ‘‘ نسیم درانی اور پروین شاکر کے نام الگ الگ دو خطوط ارسال کئے۔ پروین شاکر کے نام خط یوں تھا:
ممبئی۔۔۔3؍ جنوری 1979
محترمہ پروین شاکر صاحبہ
سیپ میں آپ کی نظم دیکھی جس میں آپ نے اپنی شاعری اور تخیل کے جوہر دکھائے ہیں۔ میں آپ سے بہت خلوص اور اپنائیت سے ملی۔ میری سمجھ میں نہیں آتا آپ نے میرے متعلق اس قدر لچر الفاظ کس طرح اور کیوں استعمال کیے اور آپ کو میں کس طور پر ایسی FIGURE OF THE TRAGEDY & FRUSTATION نظر آئی یا اس قسم کی SICK نظمیں لکھ کر آپ اپنی شہرت میں اضافہ کرنا چاہتی ہیں۔آپ شاید بھولتی ہیں اگر میں بد نفسی اور شرارت پر اتروں تو میرے ہاتھ میں بھی قلم ہے اور میں آپ سمیت جس کے لیے جو چاہوں لکھ سکتی ہوں۔میں چھ ۶ تاریخ کو تین ماہ کے لیے دلی جا رہی ہوں اور امید کرتی ہوں کہ آپ مندرجہ ذیل پتے پر مجھے لکھیں گی کہ آپ نے یہ نظم کیا سوچ کر لکھی یا آپ کی واقعی اتنیSICK ذہنیت ہے کہ آپ میری شخصیت کو اس طرح مسخ کر کے پیش کریں۔نہ میری آپ سے پرانی دوستی ہے نہ آپ میری ہم عمر ہیں۔ آپ نے دو تین بار کی سرسری ملاقات کے بعد میرے طرز زندگی پر جو قطعی میرا اپنا انتخاب اور میرا معاملہ ہے فیصلے صادر کر کے یہ ظاہر کیا ہے کہ یا آپ بمبئی آ کر بوکھلا گئی تھیں –
OR YOU MUST BE RIGHT OUT OF YOUR MIND
قرۃ العین حیدر
دوسرا خط مدیر ’’سیپ‘‘ نسیم درانی کے نام یوں تھا :
جناب مدیرسیپ نسیم درانی صاحب تسلیم!
آپ کے رسالے میں پروین شاکر صاحبہ کی نظم دیکھ کر افسوس ہوا اور تعجب بھی۔ادیبوں کی شخصیت کو بلاوجہ اور بلا جواز Unprovokedمسخ کر کے پیش کرنا یا ان پر کیچڑ اچھالنا ہمارے اردو رسالوں کا وتیرہ (کذا) بن گیا ہے اور یہ وبا عام ہو چکی ہے۔اس قسم کی Viciousnessکی وجہ کیا ہے۔یہ میری سمجھ میں نہیں آتا۔امید ہے آپ مجھے بتائیں گے۔والسلام
پتہ دیا تھا : معرفت مسٹر ایم آئی قدوائی، وائس چانسلر س ہاؤس، جامعہ ملیہ اسلامیہ پی۔او جامعہ نگر۔اوکھلا۔نئی دہلی۔25
قرۃالعین حیدر کا خط پا کر پروین شاکر حیران ہوئیں کہ خراج تحسین پیش کرنے کے لیے لکھی ہوئی نظم کا یہ الٹا اثر ہوا۔انھوں نے تمام تر احترام ملحوظ رکھتے ہوئے قرۃ العین حیدر کو جواب دیا اور اس کی ایک نقل مدیر سیپ نسیم درانی کو بھی بھیج دی۔نسیم درانی نے مدیرانہ ذمہ داری اور مدیرانہ تہذیب کے پیش نظر وہ خطوط اس وقت شائع نہیں کیے مگر سیپ کی ایک خاص اشاعت شمارہ 75 میں دونوں قلم کار خواتین کے خطوط شائع کرتے ہوئے یہ نوٹ لگایا :
’’ادارے نے اپنی مدیرانہ ذمہ داریاں پوری کرتے ہوئے ان خطوط کو اس وقت اس لیے شائع نہیں کیا کہ اردو کی سب سے عظیم نثرنگار اور ایک حساس شاعرہ کے درمیان پیدا ہونے والی رنجش ایک مستقل نزاع کی صورت نہ اختیار کر لے۔‘‘
اب جب کہ نہ پروین شاکر ہی سلامت ہیں نہ قرۃالعین حیدر، یہ خطوط ان کے مزاج کو سمجھنے کی دستاویز ہو کر رہ گئے ہیں۔پروین شاکر کا خط پڑھنے سے پہلے آیئے اک نظر اس نظم پر ڈال لیں جس کا قرۃالعین حیدر نے منفی تاثر قبول کیا :نظم کا عنوان ہے
قرۃالعین حیدر
جیون زہر کو متھ پر امرت نکالنے والی موہنی
بھرا پیالہ ہاتھوں میں لیے پیاسی بیٹھی ہے
وقت کا راہو گھونٹ پہ گھونٹ بھرے جاتا ہے
دیوی بے بس دیکھ رہی ہے
پیاس سے بے کل۔۔۔۔۔۔اور چپ ہے
ایسی پیاس کہ جیسے
اس کے ساتوں جنم کی جیبھ پہ کانٹے گڑے رہے ہوں
ساگر اس کا جنم بھون
اور جل کو اس سے بیر
ریت پہ چلتے چلتے اب تو جلنے لگے ہیں پیر
ریت بھی ایسی جس کی چمک سے آنکھیں جھلس گئی ہیں
آب زر سے نام لکھے جانے کی تمنا پوری ہوئی پر
پیاسی آتما سونا کیسے پی لے
اک سنسار کو روشنی بانٹنے والا سورج
اپنے برج کی تاریکی کو کس ناخن سے چھیلے
شام آتے آتے کالی دیوار پھر اونچی ہو جاتی ہے
(سیپ شمارہ 38 اکتوبر، نومبر 1978ء)
اس نظم کے رد عمل کے طور پر 3جنوری 1979ء کو جو خط قرۃالعین حیدر نے پروین شاکر کو لکھا تھا اس کا جواب 18 فروری 1979ء کو پروین شاکر نے دے دیا تھا۔چونکہ انھیں خط مدیر سیپ نسیم درانی کی معرفت ملا تھا، انھوں نے اس خط کی ایک نقل مدیر سیپ کو بھی بھیجی تھی۔ پروین شاکر کا یہ خط بجائے خود ان کی خوش سخنی و خو ش کرداری کا غماز بھی ہے :
عینی آپا۔آداب
معذرت خواہ ہوں کہ میری کوئی تحریر آپ کی دل آزاری کا سبب بنی۔یقین کیجئے میرا ہر گز یہ منشا نہیں تھا۔نہ نظم میں نے آپ کو خو ش کرنے کے لیے لکھی نہ ناراض کرنے کے لیے۔یوں جان لیں کہ یہ ایک تاثراتی قسم کی چیز تھی۔آپ بہت بڑی ادیب ہیں، ہم نے تو آپ کی تحریروں سے لکھنا سیکھا۔آپ مجھ سے خلوص اور اپنائیت سے ملیں، بڑا کرم کیا۔یقیناً یہ میرے لیے ایک بڑا اعزاز تھا۔مگر میری سمجھ میں نہیں آتا میں نے اس نظم میں کسی قسم کا لچر لفظ کہاں استعمال کیا ہے (کیوں اور کس طرح کا سوال تو بعد میں اٹھتا ہے) آپ تو مجھے بہت پیاری، بہت گہری خاتون لگی تھیں Frustratedاور Sick-Figuresلوگ ایسے تو نہیں ہوتے۔ہاں جہاں تک Tragedyکا تعلق ہے تو اپنا یہ تاثر میں Ownکرتی ہوں۔دکھ کس کی زندگی میں نہیں ہوتے، فرق یہ ہے کہ آپ جیسے اعلیٰ ظرف لوگ اسے جھیلنا جانتے ہیں، آنسو کو موتی بنا دیتے ہیں، ہماری طرح اسے رزقِ خاک نہیں ہونے دیتے، لیکن آپ اگر اس بات سے انکاری ہیں تو چلئے یہی سہی۔آپ خوش رہیں، آپ کے عقیدت مندوں کی اس کے سوا دعا ہے بھی کیا ؟
نہیں عینی آپا، جسارت کر رہی ہوں مگر غلط فہمی ہی ہو گی آگر آپ یہ سمجھیں کہ اس قسم کی نظمیں لکھ کر میں اپنی شہرت میں اضافہ کرنا چاہتی ہوں۔شہرت تو محبت کی طرح روح کی اپنی کمائی ہوتی ہے، کسی نام کی زکوٰۃ نہیں (مولانا الطاف حسین حالی اور جیمس باسویل کبھی میرے آئیڈیل نہیں رہے !)
آپ کا کہنا درست ہے کہ ’’اگر میں بد نفسی اور شرارت پر اتروں تو میرے ہاتھ میں بھی قلم ہے اور میں آپ سمیت جس کے لیے جو چاہوں لکھ سکتی ہوں ‘‘۔مجھ سمیت کوئی ذی نفس جس کی پہچان حرف ہے، آپ کے قلم کی طاقت سے بے خبر نہیں، بسم اللہ۔
چونکہ آپ نے سوال اٹھا یا ہے اور جواب نہ دینا گستاخی ہو گی لہذا یہ وضاحت مجھ پر لازم ہو گئی ہے کہ میں نے نظم کسی خاص محرک کے تحت نہیں لکھی۔ہندوستان سے واپسی کے بعد جب ذہن سے سفر کی گرد اتری تو سونے کے کچھ ذرات میری سوچ کی انگلیوں پر لگے رہ گئے۔تاج محل، گنگاسے، اے جگ کے رنگ ریز (امیر خسرو) بوئے یا سمین باقیست۔قرۃالعین حیدر اور سلمٰی کرشن۔یہ میری وہ نظمیں ہیں جو اس سفر کا عطیہ ہیں۔رہی میری ذہنیت کے Sickہونے کی بات تو اس کا فیصلہ تو کوئی سائیکاٹرسٹ ہی کر سکتا ہے لیکن اگر آپ حرف کی حرمت پر یقین رکھتی ہیں تو میری بات مان لیجئے کہ ان تمام نظموں میں آپ سمیت کسی شخصیت یا عمارت کو مسخ کرنے کی قطعاً کوشش نہیں کی گئی ہے۔
اب بات آتی ہے میرے اور آپ کے تعلقات کی۔۔۔۔۔۔۔ تو عینی آپا آپ سے ایک بار پھر درخواست ہے کہ نظم دوبارہ پڑھیں، کہیں بھی نئی یا پرانی کسی دوستی کا دعویٰ نہیں کیا گیا ہے۔ہم عمر ہونے میں تو تاریخی اور طبعی عوامل بھی حائل ہیں ! وہ ملاقاتیں یقیناً سرسری ہی تھیں اور آپ کے طرز زندگی پر جو قطعی طور پر آپ کا اپنا انتخاب اور اپنا معاملہ ہے طویل اور گہری ملاقاتوں کا اعزاز حاصل کرنے والے بھی فیصلہ صادر کرنے کا حق نہیں رکھتے !
Out of Mindہونے کے متعلق فیصلہ میں پہلے ہی ایک تیسرے شخص کے ہاتھ میں دے چکی ہوں البتہ ایک بات واضح کرتی چلوں کہ بمبئی اتنا بڑا شہر بہر حال نہیں ہے کہ کراچی کا کوئی رہنے والا وہاں جا کر بوکھلا جائے۔خدا میرے پاکستان کو سلامت رکھے، کبھی فرصت ملے تو ذرا علی سردار جعفری صاحب سے پوچھئے گا کہ آپ کے شہر کے بارے میں میرے تاثرات کیا ہیں
نظم کی ناپسند ید گی پر شرمندہ ہوں اور در گز ر کی خواستگار !
میں ذاتی خطوط کی نقلیں مدیران جرائد کو دینے کی قائل نہیں ہوں مگر چونکہ آپ نے لکھا ہے کہ اس خط کی نقل مدیر ’’سیپ ‘‘ کو بھیجی جا رہی ہے لہذا میں نے بھی مجبوراً یہی قدم اٹھایا ہے لیکن اتنا اطمینان رکھیں کہ آپ کی رضامندی کے بغیر یہ خط کہیں شائع نہیں ہو گا۔کہئیے کیا حکم ہے ؟
ہاں یاد آیا۔یہ تو آپ نے لکھا ہی نہیں کہ ’’کار جہاں دراز ہے ‘‘ کی رائلٹی یہاں پاکستان میں آپ کے کس رشتہ دار کو دی جائے ؟
امید ہے مزاج بخیر ہوں گے
نیازمند
پروین شاکر
’’برائے سیپ‘‘
پتہ نہیں پروین شاکر کا یہ خط پڑھ کر قرۃالعین حیدر پر کیا گزری تھی۔
[ بشکریہ عقیل عباس جعفری ]
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“