( قربانی چونکہ سال میں ایک مرتبہ کی جاتی ہے اس لئے عام طور سے لوگوں کے ذہن سے اس کے مسائل محو ہوجاتے ہیں یہاں چند بنیادی مسائل پیش کئے جارہے ہیں تاکہ قربانی صحیح طور سے ادا کی جاسکے)
۔۔۔ قربانی کا ثواب۔۔۔
قربانی کا بڑا ثواب ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قربانی کے دنوں میں قربانی سے زیادہ کوئی چیز اللہ تعالی کو پسند نہیں ان دنوں میں یہ نیک کام سب نیکیوں سے بڑھ کر ہے اور قربانی کرتے وقت خون کا جو قطرہ زمین پر گرتا تو زمین تک پہنچنے سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ کے پاس مقبول ہوجاتا ہے لہذا خوب خوشی سے اور دل کھول کر قربانی کیا کرو، نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ جانور کے بدن پر جتنے بال ہوتے ہیں ہر ہر بال کے بدلے میں ایک ایک نیکی لکھی جاتی ہے۔۔
سوچنے کا مقام ہے کہ کس قدر اللہ تعالیٰ نے قربانی کرنے پر ثواب عنایت کیا ہے کہ ایک قربانی کرنے پر ہزاروں لاکھوں نیکیاں مل جاتی ہیں ، لہذا ہمیں چاہیے کہ ہم بڑھ چڑھ کر اس مبارک اور پاکیزہ عمل میں حصہ لیں،
۔۔۔۔۔۔۔ قربانی کن پر واجب ہے۔۔۔۔۔
ہر مسلمان مرد و عورت،آزاد ، مقیم،جو ضروریات زندگی کے علاوہ مقدار نصاب یعنی ساڑھے سات تولہ ( تقریباً ساڑھے ستاسی گرام) سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کی قیمت یا بنیادی ضروریات کے علاوہ اس قیمت کی جائیداد و سامان کا دسویں ذی الحجہ کی صبح مالک ہو اس پر قربانی واجب ہے،
امام ابو حنیفہ کے نزدیک بالغ، عاقل ہونا ضروری نہیں اگر نابالغ بچہ یا پاگل اتنی جائیداد کا مالک ہو جس پر زکوٰۃ واجب ہو جاتی ہے اس پر قربانی واجب ہے اور اس کا باپ یا اس کا ولی اس کی طرف سے قربانی کرے گا،
۔۔۔۔۔۔ قربانی کا جانور۔۔۔۔
قربانی کے جانوروں میں اونٹ پانچ سال سے کم نہ ہو، اس کے علاوہ بیل، بھینس، گائے دو سال سے کم نہ ہو، اور بھیڑ بکری دنبے ایک سال سے کم نہ ہوں، اگر بھیڑ اور دنبہ چھ ماہ سے زائد کا ہو اور اتنا موٹا ہو کہ ایک سال کا نظر آرہا ہو تو اس کی قربانی جائز ہے، قربانی کے جانوروں کو فربہ، تندرست اور بے عیب ہونا چاہیے۔
حدیث شریف میں آتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قربانی کے جانوروں کو کھلا پلا کر خوب قوی کیا کرو کیونکہ پل صراط پر وہ تمہاری سواری ہونگے،
قربانی کا جانور اگر ایسا مریل اور کمزور ہو کہ اس کی ہڈیوں میں گودا ہی نھ رھ گیا ہو تو اس کی قربانی درست نہیں، ایسا جانور جو اندھا ہو یا کانا یا لنگڑا ہو جو مذبح تک نہ جاسکتا ہو یا اس کا کوئی عضو تہائی سے زیادہ کٹا ہوا ہو تو ان سب کی قربانی جائز نہیں،
جس جانور کی سینگ پیدائشی طور پر ہی نہ نکلی ہو یا نکلی ہو مگر کچھ حصہ ٹوٹ گیا ہو تو اس کی قربانی جائز ہے۔ البتہ جس جانور کی سینگ بالکل جڑ سے ہی ٹوٹ گئی ہو تو اس کی قربانی جائز نہیں،
وہ جانور جس کے پیدائشی طور پر کان نہیں ہیں یا ہیں تو بہت چھوٹے ہیں اس کی قربانی درست ہے،
جس جانور کے دانت بالکل ہی نہ ہو اس کی قربانی درست ہے،
گائے اور بکری اگر حاملہ ہو تو اس کی قربانی جائز ہے اگر بچہ زندہ نکل جائے تو اس کو ذبح کرکے کھانا بھی درست ہے،
دنبہ بکرا بکری میں صرف ایک ہی حصہ ہو سکتا ہے ایک سے زائد کئی آدمی اس کے حصہ دار نہیں ہوسکتے،۔ بیل گائے اور اونٹ میں سات حصے ہوسکتے ہیں سات سے زائد نہیں،
۔۔۔۔۔ قربانی کا وقت۔۔۔۔۔
دسویں ذی الحجہ سے لیکر بارہویں تاریخ کی شام تک قربانی کرنے کا وقت ہے۔۔ چاہیے جس دن قربانی کرے۔ لیکن قربانی کرنے کا سب سے بہتر دن بقرعید کا دن ہے، پھر اگیارہویں اور بارہویں تاریخ، بقرعید کی نماز ادا ہونے سے پہلے قربانی جائز نہیں، جب لوگ نماز پڑھ چکیں تب قربانی کی جائے، رات کو قربانی جائز ہے پسندیدہ نہیں، قربانی کے جانور کو اپنے ہاتھ سے ذبح کرنا افضل ہے اگر خود ذبح کرنا نہ جانتا ہو تو کسی اور سے ذبح کروالے البتہ ذبح کے وقت جانور کے سامنے کھڑا ہونا بہتر ہے،
۔۔۔۔۔۔ قربانی کا گوشت۔۔۔
افضل اور بہتر ہے کہ قربانی کا گوشت ایک تہائی غرباء ومساکین پر صدقہ کردے، ایک تہائی اپنے عزیزوں اور دوستوں کو دے، اور ایک تہائی اپنے اہل و عیال کیلیۓ رکھ لے، لیکن اگر کسی شخص کا کنبہ بڑا ہو یا کوئی اور ضرورت ہو تو تمام گوشت خود استعمال کرسکتا ہے، البتہ فروخت کرنا یا قصاب کو مزدوری دینا منع ہے، کئ حصہ دار ہوں تو قربانی کا گوشت آپس میں برابر وزن سے تقسیم کیا جائے، اندازے سے تقسیم کرنا جائز نہیں ہے،
۔۔۔ قربانی کرنے والے کیلئے بال اور ناخن تراشنے کا حکم۔۔۔۔
جو شخص قربانی کرے اس کیلئے مستحب ہے کہ ماہ ذی الحجہ کے آغاز سے جب تک قربانی نہ کرلے جسم کے کسی عضو سے بال و ناخن صاف نہ کرے کہ قربانی کرنے والا اپنی جان کے فدیہ میں قربانی کررہا ہے اور قربانی کے جانور کا ہر جز قربانی کرنے والے کے جسم کے ہر جز کا بدلہ ہے تاکہ جسم کا کوئی جز نزول رحمت کے وقت غائب ہو کر قربانی کی رحمت سے محروم نہ رھے، ۔۔ اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ حکم دیا ہے،۔ لیکن چالیس دن سے زائد کی مدت ہو جاتی ہو تو کراہت سے بچنے کی خاطر بال و ناخن کی صفائی کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے،
۔۔۔۔۔۔ چند اہم مسائل۔۔۔۔
کسی پر قربانی واجب نہیں تھی لیکن اس نے قربانی کی نیت سے جانور خرید لیا تو اس جانور کی قربانی واجب ہو گئ ۔۔ کسی پر قربانی واجب تھی لیکن قربانی کے تین دن گزر گئے اور اس نے قربانی نہیں کی تو ایک بکری یا بھیڑ کی قیمت کے برابر خیرات کردے اور اگر بکری خریدی تھی تو بعینہٖ وہی بکری خیرات کردے، اگر قربانی کیلئے جانور خریدا اس وقت کوئی ایسا عیب پیدا ہوگیا جس سے قربانی درست نہیں تو اس کے بدلے دوسرا جانور خرید کر قربانی کرے، ہاں۔ اگر غریب آدمی ہو جس پر قربانی واجب نہیں تو اس کیلئے درست ہے کہ وہی جانور قربانی کرے، ۔۔
متوفی رشتہ داروں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسرے بزرگوں کی طرف سے قربانی کرنا درست ہے، البتہ قربانی واجب ہے تو اپنی طرف سے کرنے کے بعد جب سہولت اور گنجائش ہو تو دوسروں کی طرف سے کرے، اگر اپنی خوشی سے کسی مردے کو ثواب پہنچانے کیلئے قربانی کرے تو اس کے گوشت میں سے خود کھانا، کھلانا بانٹنا سب درست ہے، لیکن اگر میت کی وصیت پر قربانی کرتا ہے تو پورا گوشت غرباء ومساکین پر صدقہ کرنا واجب ہے، قربانی کی کھال کی قیمت کسی کو اجرت میں دینا جائز نہیں اس کا خیرات کرنا ضروری ہے،
۔۔۔۔۔۔ پالتو اور جنگلی جانور کے اختلاط سے پیدا جانور کی قربانی۔۔۔۔
حدیث شریف میں قربانی کیلئے جن جانوروں کا ذکر آیا ہے وہ سب پالتو جانور ہیں، نہ کہ جنگلی، اس لئے قربانی صرف پالتو جانور ہی کی ہوسکتی ہے، اگر پالتو اور جنگلی جانور کے اختلاط سے بچہ پیدا ہوا ہو تو ماں کا اعتبار ہوگا، اگر ماں پالتو جانور کے قبیل سے ہے جس کی قربانی کی اجازت حدیثوں میں ہے تو اس کی قربانی درست ہوگی، ورنہ۔نہیں ، چنانچہ ہرن نر ہو اور بکری مادہ تو ایسے جانور کی قربانی درست ہے اگر صورت اس کے برعکس ہو تو اس کی قربانی درست نہیں،
۔۔۔۔ بقرعید کے دن قربانی کے گوشت کھانے سے آغاز۔۔۔
حضور صلی االلہ علیہ وسلم کا معمول مبارک بقرعید کے دن نماز سے پہلے کھانے کا نہیں تھا، بلکہ نماز کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم قربانی کا گوشت تناول فرماتے تھے، اس لئے جو شخص ذی الحجہ کو قربانی کررہا ہو تو اس کیلئے مستحب ہے کہ اس روز قربانی کے گوشت سے کھانے کا آغاز کرے لیکن یہ حکم استحبابی ہے وجوبی نہیں،
۔۔۔۔ قرض لیکر قربانی کرنا۔۔۔۔
اگر کسی شخص پر اپنی املاک کے لحاظ سے قربانی واجب ہو اور اس کے قبضہ میں گھریلو سامان اتنی قیمت کا موجود ہو جس سے قربانی کی جاسکتی ہو تو فقہاء نے ایسے شخص کو بھی قربانی کا حکم دیا ہے، فقہاء لکھتے ہیں کہ اگر کوئی شخص گھریلو سامان فرنیچر، برتن وغیرہ فروخت نہیں کرنا چاہتا تو اس پر واجب ہے کہ قرض لیکر قربانی کرے، جیساکہ اپنی دوسری ضروریات کیلئے قرض لیتا ہے،
میت کیلئے صدقہِ افضل ہے یا قربانی،
قربانی کے دنوں میں میت کے ایصال ثواب کیلئے پیسہ وغیرہ صدقہِ کرنے سے قربانی کرنا افضل ہے، اور اس کے ثواب کو میت کو پہنچانا افضل ہے، کیوں کہ صدقہِ خیرات میں فقط مال کا ادا کرنا ہے اور قربانی میں مال کا ادا کرنا بھی اور فدا کرنا بھی یعنی دو مقصد پائے جاتے ہیں،
( فتاویٰ رحیمیہ، جلد دوم ص ٨٧/
۔۔۔۔۔۔ عورت کا مہر اور اس کی قربانی۔۔۔۔
ایک عورت مالک نصاب نہیں لیکن اس کا مہر نصاب سے زیادہ شوہر کے ذمہ ہے جو ابھی نہیں مل سکتا ہے تو عورت اس مہر کی وجہ سے مالدار یعنی صاحب نصاب شمار نہ ہوگی اور اس پر قربانی واجب نہ ہوگی،
/ فتاویٰ ہندیہ، جلد دوم۔ ص ٢٩٣/
۔۔۔۔۔ چوری کے جانور کی قربانی۔۔۔
کسی شخص نے اگر چوری کرنے والے سے جانور خریدا تو اس کی قربانی جائز نہیں، دوسرا جانور خرید کر قربانی کرے، البتہ اگر اصل مالک اجازت دے دے تو گوشت کھانا جائز ہے،
۔۔۔۔۔ کانجی ہاؤس سے لئے جانور کی قربانی۔۔۔
کانجی ہاؤس سے خریدے گئے جانور کی قربانی درست ہے البتہ عرفا بدنامی کا سبب ہے اس لئے بلا ضرورت بدنام بالخصوص مقتدا کیلئے زیبا نہیں،۔
۔۔۔۔ قربانی کا جانور خرید کر نفع سے بیچنا۔۔۔
قربانی کے جانور کو خرید کر نفع سے بیچنا بہتر نہیں، اگر فروخت کرکے دوسرا کم قیمت کا خریدے تو جو نفع حاصل ہوا ہے اسے بھی خیرات کردے،
/ کتاب المفتی ج ٨ ص١٩٧/
۔۔۔۔۔ بانجھ جانوروں کی قربانی کا حکم۔۔۔
بانجھ جانور کی قربانی جائز ہے، کیوں کہ بانجھ ہونا قربانی کیلئے عیب نہیں ہے، جس طرح خصی ہونا اور جفتی سے عاجز ہونا عیب نہیں ہے، بانجھ جانور جس کے بچے پیدا نہ ہوتے ہوں اکثر لحیم شحیم ہوتے ہیں، گوشت بھی عمدہ ہوتا ہے بڑی عمر کی وجہ سے بچہ نہ ہو تو اس کی قربانی جائز ہے،
۔۔۔۔ کیا قربانی کے وقت میں مقام قربانی کا اعتبار ہوگا؟
قربانی کے سلسلہ میں دو باتیں خاص طور سے ذہن میں رکھنے کی ہیں، اول یہ کہ قربانی کے درست ہونے کیلئے یہ ضروری نہیں کہ جس کی طرف سے قربانی ہو رہی ہو وہ نماز عید ادا کرچکا ہو، بلکہ اعتبار قربانی کی جگہ کا ہے، وہاں نماز عید ہو چکی ہو تو یہ کافی ہے، اور اسی کا اعتبار ہے، دوسرے شہر میں کسی بھی ایک جگہ نماز ہو چکی ہو تو پورے شہر میں قربانی جائز ہے، خواہ ابھی دوسری جگہ نماز نہ ہوئی ہو، اور قربانی کرنے والے نے خود نماز ادا نہ کی ہو،
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...