لاک ڈاوءن کو پورے چار مہینے ہو گئے تھے رمضان عید سب لاک ڈاوءن میں ہی گزری تھی ہر شخص پریشان تھا لیکن کوئ ڈر کی وجہ سے باہر نہیں نکلتا تھا اب بقرعید بھی اگئ تھی لاک ڈاوءن میں سرکار نے صبح سے رات نو بجے تک ڈھیل دے دی تھی اس وجہ سے لوگ باہر نکل رہے تھے مگر ڈرے ہوئے جب سے رشو کو انکی امی نے کرونا چڑیل کے بارے میں بتایا تھا تب سے وہ اس سے بچنے کے لئے ہر تدبیر اوراحتیات کو اپنے ہی طریقے سے کرتے اور سب کو بتاتے رہتے رشو بھیا یوں تو اپنے کھیل میں اور گھر مین جانوروں اور پرندون میں الجھے رہتے تھے بڑا سا انگن ہی ان کے لئے کھیل کود اور طرح طرح کی کار گزاریون کے لئے بہت تھا
اتفاق سے ان کے چچا گھر میں بقرعید میں بکروں کی قربانی کا ذکر کر بیٹھے بس رشو بھیا کے کان کھڑے ہو گئے فورا دادا کے پاس پہنچ گئے
"دادا اپ کو معلوم ہئے اب بکرا عید اگئ ہئے پنو چاچا کہہ رہے ہین"
"بھیا بکرا عید نہیں بقرعید"
"ارے دادا وہی تو کہہ رہا ہوں بکرا عید اپ نے بدھو سمجھا ہئے کیا"
"نہیں تم کہاں بدھو ہو تم تو افلاطون ہو"
"دادا اپ بھی بچون والی باتیں کرتے ہیں ارے یہ سی والی عید پر بکرے کی قربانی ہوتی ہئے تو بکراعید ہوئ نہ "
" تم بھیا جھکی بہت ہو اچھا بتاوء کیا کروگے"
"ارے دادا بکرے کہاں سے ائیں گے کرونا چڑیل کی وجہ سے تو سب لوگ ڈر کے مارےگھر میں ہیں"
"دیکھو بھیا کیا ہوتا ہئے قربانی کا کیا ہوگا اس بار تو ایسا ہی لگ رہا ہئے پتہ نہیں بکرے ائیں گے بھی کہ نہیں"
"کیوں دادا"
"اماں ہاں بھیا اج کل ایسا ہی معاملہ چل رہا ہئے پتہ نہیں کیا ہو کرونا کی وجہ سے بکرے بازار میں ائیں بھی کہ نہیں"
یہ سن کر رشو بھیا سوچ مین پڑ گئے کچھ سمجھ میں نہیں آیا تو اپنی ممی کے پاس چلے ائے اب ان سے پوچھ تاچھ تھی
"ممی کیا کرونا چڑیل کی وجہ سے اس بار بکرے نہیں آئیں گے"
"مجھے کیا معلوم اپنے پاپا سے معلوم کرو میرا دماغ مت چاٹو"انکی ممی نے انھیں جواب دیاوہ پتہ نہیں کس الجھن میں تھیں
"ارے ممی پاپا تو باہر گئے ہیں میں کس سے پوچھوں " انھون نے بڑے جھنجھلاکر اپنی ممی سے کہا اور سیدھے دادا کے کمرےمیں پہنچ گئے ان کے بیڈ پر چڑھے اور موبائل اٹھا لیا
"کیا بات ؟ بھیا موبائل کہاں لیکر جا رہئے ہو؟"
"دادا ایک منٹ پاپا کو فون کر رہا ہوں"
"ارے کیوں پاپا کو فون کر رہئے ہو"
"ارے رکئے دادا"یہ کہتے کہتے رشو نے پاپا کا نمبر ڈائل کر دیا فورا ہی اس پر ایک عورت کی آواز میں ریکارڈیڈ میسج انے لگا اب انھوں نے اس کوکان پر لگاکر غور سے سنا ان کا چہرہ خوشی سے کھل گیا انھون نے اس کو جو سمجھا وہ دادا کو بتایا
"دیکھا دادا یہ انٹی کیا کہہ رہی تھیں بکروں کی کرو دیکھ بھال کرونا سے جیتے گا ہر حال"
انکے دادا مسکراتے ہوئے بولے "ہاں تم نے اپنے مطلب کی خود اپنے آپ سمجھ لی "
"ہاں دادا سچی یہی کہہ رہی تھیں آنٹی"وہ دادا سے بحث کر رہے تھےاتنے میں ان کے کانوں میں بکروں کے میں میں کی آواز پڑی
" ارے دادا یہ بکرے کہاں میں میں کر رہے ہیں" فورا چونکتے ہوئے رشو نے دادا سے پوچھا تبھی دو بارہ بکروں کے بولنے کی آواز آئ