کیا پسند کرتا ہے تم میں سے کوئ کہ ہو اس کا ایک باغ کھجوروں اور انگوروں کا بہ رہی ہوں اس میں نہریں، اس کے لئے ہوں اس باغ میں، ہر قسم کے پھل اور آلیا ہو اسے بڑھاپے نے اور ہو اُس کی اولاد ناتواں پھر آپڑے باغ پر ایک بگولا آگ کا بھرا ہوا اور وہ جل کر رہ جائے۔ اس طرح بیان کرتا ہے اللّلہ تمھارے لئے اپنی آیات تاکہ تم غور و فکر کرو
سورہ آلِ عمران کی آیت 118 میں بھی ایک صورتحال بتا کر عقل سے کام لینے کی تلقین کی جارہی ہے۔ یہ بات سمجھنے کی ہے کہ قرآن میں انسانی زندگی میں پیش آنے والے سارے حالات کے حوالے سے تفصیلی ہدایات نہیں دی جاسکتی تھیں اس لئے کسی بھی مسئلے کی بنیاد یعنی جڑ پر ساری توجہ دی گئی اور اس سے آگے انسان کو کہا گیا کہ وہ اپنی عقل لڑائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الْآيَاتِ ۖ إِن كُنتُمْ تَعْقِلُونَ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بے شک کھول کھول کر بیان کردی ہیں ہم نے تمھارے لئے نشانیاں اگر تم عقل رکھتے ہو۔
اسی بات کو آگے چل کر ایک اور انداز میں کہا جارہا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔قَدْ جَاءَكُم مِّنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتَابٌ مُّبِينٌ ( سورة المائدہ 15)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بے شک آگئ ہے تمھارے پاس اللّلہ کی طرف سے روشنی اور کھلی کتاب
يَهْدِي بِهِ اللَّهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهُ سُبُلَ السَّلَامِ وَيُخْرِجُهُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ بِإِذْنِهِ وَيَهْدِيهِمْ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ ( سورة المائدہ 16)
دکھاتا ہے اُس کے ذریعے سے اللّلہ ہر اُس شخص کو جو طالب ہو اُس کی رضا کا، سلامتی کی راہیں اور نکالتا ہے اُن کو اندھیروں سے روشنی کی طرف اپنے اذن سے اور چلاتا ہے اُن کو سیدھی راہ پر
تو قُرآن ایک روشن اور کھلی ہوئ کتاب ہے، اور اگر انسان (خاص کر مسلمان) اللّلہ کی رضا اور سلامتی کا طالب ہے اور اندھیروں سے نکل کر روشنی میں آنا چاہتا ہے تو قُرآن سے رہنمائ حاصل کرنا بہت ضروری ہے۔
اب اگر ایسے میں کسی کی توجہ قُرآن کی طرف ہوتی ہے اور وہ قُرآن کو اُس کی روح کے مطابق سمجھنا شروع کرتا ہے تو اُس کو یہ خیال بھی گھیر لیتا ہے کہ وہ روشنی جو قُرآن کی شکل میں اُس کو نظر آرہی ہے وہ اُسے دوسروں میں بھی تقسیم کرے لیکن ایسے میں مختلف لوگوں کا جواب مختلف ہوتا ہے، کچھ لوگ نصیحت کو قبول کرتے ہیں تو کچھ لوگ نصیحت کا مذاق اُڑاتے ہیں۔ تو اُس کے لئے بھی قُرآن رہنمائ فراہم کر رہا ہے کہ قُرآن کی تعلیمات کو پھیلانا تو فرض ہے لیکن ایسے میں اگر لوگ تعاون نہ کریں تو داعی اس صورتِ حال سے کس طرح نبرد آزما ہو۔
وَمَا عَلَى الَّذِينَ يَتَّقُونَ مِنْ حِسَابِهِم مِّن شَيْءٍ وَلَـٰكِن ذِكْرَىٰ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ (سورہ الانعام 69)
اور نہیں ہے پرہیزگاروں پر ان (بیہودہ بحث کرنے والوں) کے حساب میں سے ( کوئ ذمّہ داری) ذرا بھی البتّہ نصیحت کرنا (فرض) ہے تاکہ وہ بھی غلط روی سے بچ جائیں
وَذَرِ الَّذِينَ اتَّخَذُوا دِينَهُمْ لَعِبًا وَلَهْوًا وَغَرَّتْهُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا ۚ وَذَكِّرْ بِهِ أَن تُبْسَلَ نَفْسٌ بِمَا كَسَبَتْ لَيْسَ لَهَا مِن دُونِ اللَّهِ وَلِيٌّ وَلَا شَفِيعٌ وَإِن تَعْدِلْ كُلَّ عَدْلٍ لَّا يُؤْخَذْ مِنْهَا ۗ أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِمَا كَسَبُوا ۖ لَهُمْ شَرَابٌ مِّنْ حَمِيمٍ وَعَذَابٌ أَلِيمٌ بِمَا كَانُوا يَكْفُرُونَ ( سورہ الانعام 70)
اور چھوڑ دو ان لوگوں کو جنھوں نے بنا رکھا ہے اپنے دین کو کھیل اور تماشا اور فریب میں مبتلا کئے ہوئے ہے اُن کو دنیا کی زندگی۔ ہاں مگر نصیحت کرتے رہو اُن کو یہ قُرآن سنا کر تاکہ گرفتار (نہ) ہو جائے کوئ شخص اپنے کرتوتوں کے وبال میں کہ نہ ہو اس کو اللّلہ کے سوا (بچانے والا) کوئ دوست اور نہ کوئ سفارش کرنے والا اور اگر فدیہ میں دے وہ وہ ہر قسم کا معاوضہ تو قبول نہ کیا جائے اس سے، یہی لوگ ہیں جو پکڑے گئے ہیں اپنی کمائ کے نتیجہ میں اُن کے لئے ہے، پینے کو کھولتا ہُوا پانی اور دردناک عزاب بدلے میں اس انکارِ حق کے جو وہ کرتے تھے
کوشش کرکے موضوع کو دوبارہ اُن آیتوں تک محدود رکھتے ہیں جن میں انسانوں (بالخصوص مسلمانوں) کو سمجھ بوجھ سے کام لینے کا کہا گیا ہے
وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ النُّجُومَ لِتَهْتَدُوا بِهَا فِي ظُلُمَاتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ۗ قَدْ فَصَّلْنَا الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ ( سورہ الانعام 97)
اور وہی ہے جس نے بنائے تمھارے لئے ستارے تاکہ رہنمائ حاصل کرو اُن کے ذریعے بر و بحر کی تاریکیوں میں۔ بے شک بیان کردی ہیں ہم نے اپنی نشانیاں اُن کے لئے جو علم رکھتے ہیں
وَهُوَ الَّذِي أَنشَأَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ فَمُسْتَقَرٌّ وَمُسْتَوْدَعٌ ۗ قَدْ فَصَّلْنَا الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَفْقَهُونَ ( سورہ الانعام 98)
اور وہی ہے جس نے پیدا کیا تم (سب) کو ایک جان سے پھر ایک جائے قرار ہے اور ایک اس کے سونپے جانے کی جگہ ہے۔ بے شک بیان کردی ہیں ہم نے اپنی نشانیاں اُن کے لئے جو سمجھ بوجھ رکھتے ہیں
اسی طرح آیت 99 میں بھی آسمان سے نازل کئے گئے پانی، اور پانی کے ذریعے اُگنے والی نباتات، کھیت، کھجور کے درخت، انگور، زیتون، اور انار کے باغات اور اُن سے حاصل کئے جانے والے پھل اور اُن کے پکنے کی کیفیت کو ایمان والوں کے لئے نشانیاں قرار دیا گیا ہے۔
چونکہ قرآن اللّلہ تعالیٰ کی طرف سے کہے جانے والے الفاظ ہیں اور اللّلہ تعالیٰ کی ذات لامحدود ہے تو اُن آیات کے علاوہ جن کے احکامات حتمی ہیں باقی ساری آیات اپنے اندر معنی کا سمندر رکھتی ہیں۔ انسان نزولِ قُرآن کے بعد سے اُن پر غور و فکر کئے جارہا ہے اور اُس کو علم و دانش کے موتی ہاتھ آتے چلے جارہے ہیں، اس لئے انسان (بلخصوص مسلمان) سے کہا جارہا ہے کہ یہ ( قُرآن ) روشنی ہے اس پر اندھے نہ بنے رہو
قَدْ جَاءَكُم بَصَائِرُ مِن رَّبِّكُمْ ۖ فَمَنْ أَبْصَرَ فَلِنَفْسِهِ ۖ وَمَنْ عَمِيَ فَعَلَيْهَا ۚ وَمَا أَنَا عَلَيْكُم بِحَفِيظٍ ( سورہ الانعام 104)
بے شک آگئیں ہیں تمھارے پاس بصیرت کی روشنیاں تمھارے رب کی طرف سے پس جس نے بینائ سے کام لیا سو اُس کا فائدہ اُسی کے لئے ہے اور جو اندھا رہا سو اُس کا نقصان اُسی کو ہوگا۔ اور نہیں ہوں میں تم پر نگہبان۔
سورہ الانعام کی آیت 151, 152, اور 153ا میں بھی یہی دیکھنے میں آتا ہے کہ اللّلہ تعالیٰ انسان کو روز مرّہ کی زندگی کے حوالے سے احکامات تو دے رہے ہیں لیکن ساتھ ہی سات سمجھ بوجھ سے کام لینے کو بھی کہ رہے ہیں۔
قُلْ تَعَالَوْا أَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ ۖ أَلَّا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا ۖ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا ۖ وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُم مِّنْ إِمْلَاقٍ ۖ نَّحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَإِيَّاهُمْ ۖ وَلَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ ۖ وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ ۚ ذَٰلِكُمْ وَصَّاكُم بِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ
کہ دو کہ آؤ میں سناؤں کیا حرام کیا ہے تمھارے رب نے تم پر یہ کہ نہ شریک ٹھیراؤ تم اُس کا (کسی کو) ذرا بھی اور (حکم دیا ہے) کہ ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرو اور نہ قتل کرو اپنی اولاد کو مفلسی (کے ڈر) سے۔ ہم رزق دیتے ہیں تم کو بھی اور اُن کو بھی اور مت قریب جاؤ بے شرمی کی باتوں کے خواہ وہ کھلی ہوں یا چھپی اور مت قتل کرو کسی جان کو جس (کے قتل کو) حرام ٹھیرایا ہے اللّلہ نے مگر حق کے ساتھ۔ یہ وہ باتیں ہیں کہ حکم دیا ہے اُس نے تم کو اُن کا تاکہ تم عقل (سمجھ بوجھ) سے کام لو۔
وَلَا تَقْرَبُوا مَالَ الْيَتِيمِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ حَتَّىٰ يَبْلُغَ أَشُدَّهُ ۖ وَأَوْفُوا الْكَيْلَ وَالْمِيزَانَ بِالْقِسْطِ ۖ لَا نُكَلِّفُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ۖ وَإِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوا وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَىٰ ۖ وَبِعَهْدِ اللَّهِ أَوْفُوا ۚ ذَٰلِكُمْ وَصَّاكُم بِهِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ
اور نہ قریب جاؤ مالِ یتیم کے مگر ایسے طریقے سے جو بہترین ہو۔ حتیٰ کہ پہنچ جائے وہ سنِ رشد کو اور پورا کرو ناپ تول انصاف کے ساتھ۔ نہیں ذمّہ داری کا بوجھ ڈالتے ہم کسی جان پر مگر اُس کی طاقت کے مطابق اور جب بات کہو تو انصاف کی کہو اگرچہ ہو تمھارا رشتہ دار اور اللّلہ کے ساتھ کیا ہوا عہد پورا کرو یہ باتیں ہیں کہ حکم دیا ہے اللّلہ نے تم کو ان کا تاکہ تم نصیحت قبول کرو۔
وَأَنَّ هَـٰذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ ۖ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَن سَبِيلِهِ ۚ ذَٰلِكُمْ وَصَّاكُم بِهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ
اور یہ کہ یہی ہے میری راہ جو سیدھی ہے سو اسی پر چلو اور مت چلو (دوسرے) راستوں پر کہ پراگندہ کریں گے تم کو ہٹا کر اللّلہ کی راہ سے یہ وہ باتیں ہیں کہ حکم دیا ہے تم کو اللّلہ نے اُن کا تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو
اوپر بیان کی گئ آیات بھی اس قابل ہیں کہ ہم ان کا روز مطالعہ کریں اور رہنمائ حاصل کرنے کی کوشش کریں۔
شرک کرنے سے منع فرمایا جارہا ہے
ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک:
اس میں کوئ دوسری رائے نہیں ہوسکتی کہ ہمارے والدین ہمارے بہترین سلوک کے مستحق ہیں۔
اور مت قتل کرو کسی جان کو جس (کے قتل کو) حرام ٹھیرایا ہے اللّلہ نے مگر حق کے ساتھ (یعنی قانونی چارہ جوئ کے ساتھ)
آیت کے اس حصے کو تو سارے مسلمانوں کو بہت زیادہ پڑھنا چاہئے۔ کسی بھی انسان کی جان لینے کا حق کسی دوسرے انسان یا گرہ یا جتھے کو نہیں دیا جاسکتا۔ یہ مسلمانوں کی اجتماعی ذمّہ داری ہے کہ وہ انصاف کا شفّاف نظام قائم کریں اور انصاف کا نظام (یعنی عدالت) کسی بھی انسان کے مجرم ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں فیصلہ کرے
بے شرمی اور بے حیائ کی باتوں سے اجتناب کرنے کا کہا جارہا ہے
یتیم کے معاملے میں احتیاط سے کام لینے کا حکم دیا جارہا ہے
ناپ تول کے معاملے میں انصاف سے کام لینے کا کہا جا رہا ہے
بات انصاف سے کرنے کا کہا جا رہا ہے چاہے اس کا نقصان اپنے رشتہ دار ہی کو ہو رہا ہو
اوپر کی آیات میں واضح طور پر تعقّل، تذکر اور تَتَّقُونَ کی ترتیب دیکھی جاسکتی ہے۔ کسی بھی انسان کا قُرآن پر عمل اسی صورت میں بہترین ہوگا جب وہ اچھی طرح سوچ سمجھ کر کیا جائے گا۔ اللّلہ تعالیٰ انسان کی توجہ اس جانب مبزول کروانا چاہ رہے ہیں کہ انسان (بلخصوص مسلمان) قُرآن کی طرف بے لاپرواہی نہیں برتیں۔ اس کے علاوہ جن جن چیزوں کو اللّلہ تعالیٰ اپنی نشانیاں کہ رہے ہیں کہ اُن سے نصیحت حاصل اور شکر ادا کرنے کے لئے کہ رہے ہیں اور ایسا غور و فکر کے بغیر ممکن نہیں مثال کے طور پر سورة الاعراف 26
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وَلِبَاسُ التَّقْوَىٰ ذَٰلِكَ خَيْرٌ ۚ ذَٰلِكَ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُونَ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور تقویٰ کا لباس یہ سب سے بہتر ہے۔ یہ نشانیوں میں سے ہے اللّلہ کی شائد کے لوگ نصیحت پکڑیں
آیت 57 اور 58 میں بھی نشانیوں کا ذکر ہے کہ اگر انسان ان کو سمجھے تو انسان نصیحت حاصل کرے اور اللّلہ کا شکر ادا کرے
وَهُوَ الَّذِي يُرْسِلُ الرِّيَاحَ بُشْرًا بَيْنَ يَدَيْ رَحْمَتِهِ ۖ حَتَّىٰ إِذَا أَقَلَّتْ سَحَابًا ثِقَالًا سُقْنَاهُ لِبَلَدٍ مَّيِّتٍ فَأَنزَلْنَا بِهِ الْمَاءَ فَأَخْرَجْنَا بِهِ مِن كُلِّ الثَّمَرَاتِ ۚ كَذَٰلِكَ نُخْرِجُ الْمَوْتَىٰ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ (57)
اور وہی ہے جو بھیجتا ہے ہوائوں کو خوشخبری لئے ہوئے آگے آگے اپنی رحمت کے حتّیٰ کہ جب وہ (ہوائیں) اُٹھا لیتی ہیں (پانی سے) بوجھل بادلوں کو تو ہانک دیتے ہیں ہم اُن کو مردہ زمین کی طرف پھر برساتے ہیں ہم وہاں پانی پھر نکالتے ہیں ہم اس پانی سے ہر طرح کی پیداوار۔ اس طرح ہم نکالیں گے مُردوں کو (قبروں سے) شائد کہ تم (اس مشاہدہ) سے سبق حاصل کرو۔
وَالْبَلَدُ الطَّيِّبُ يَخْرُجُ نَبَاتُهُ بِإِذْنِ رَبِّهِ ۖ وَالَّذِي خَبُثَ لَا يَخْرُجُ إِلَّا نَكِدًا ۚ كَذَٰلِكَ نُصَرِّفُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَشْكُرُونَ(58)
اور اچھی زمین سے اُگتے ہیں اُس کے پھل پھول اس کے رب کے حکم سے اور جو زمین خراب ہوتی ہے، نہیں نکلتا ( اس میں سے سوائے) ناقص پیداوار کے۔ اس طرح بار بار پیش کرتے ہیں ہم اپنی نشانیاں ان لوگوں کے لئے جو شکر گزار بننا چاہیں۔
اب سیدھی سی بات ہے کہ انسان (یا مسلمان) نصیحت اُس وقت پکڑے گا اور شکر گزار اُس وقت بنے گا جب وہ ان آیات کو غور سے پڑھے گا، سمجھنے کی تگ و دو کرے گا، یہ بات معلوم کرنے کی کوشش کرے گا کہ ان آیات سے کیا مطالب نکلتے ہیں۔ جب پڑھا ہی نہیں تو سمجھا کیا، جب سمجھا ہی نہیں تو جانا کیا، اور جب جانا ہی نہیں تو مانا کیا۔ یہ تو ایک تدریجی عمل ہے یعنی پڑھ کر سمجھنے کی کوشش کرنا، سمجھ میں آجائے تو جان لینا اور پھر اس بات کا فیصلہ کرنا کہ ان ہدایات کو ماننا ہے یا رد کردینا ہے۔
مضمون کو لکھتے ہوئے جب تحقیق کی خاطر قرانِ کریم کا مطالعہ کیا جارہا تھا تو ایک لفظ "بَيِّنَةٌ" نظر سے گزرا۔ اس لفظ کا براہِ راست تعلق تو موضوع سے نہیں نظر آتا لیکن اگر اس لفظ کے معنی پر غور کیا جائے تو بات سمجھ میں آتی ہے۔ لفظ " بَيِّنَةٌ" کا مطلب
۔ کھلی ہوئ نشانی
۔ ثبوت
کے ہیں۔ یعنی ایک ایسی بات جو اس طرح سے کھلی ہوئ ہو کہ اُس کو مزید بیان کرنے کی ضرورت نہ باقی رہے تو لفظ "بَيِّنَةٌ" ہم قرانِ کریم میں ایسی جگہوں پر دیکھیں گے جہاں موضوع اتنا واضح ہو کہ اُس کو صرف پڑھ کر ہی بات سمجھ میں آجائے یا اگر واقعات کی طرف اشارہ ہو تو وہ واقعات جب وقوع پزیر ہوئے تو لوگوں کے لئے انتہائ واضح تھے۔ جیسے سورة الاعراف کی آیت 73 میں حضرت صالح علیہ السلام کا اپنی قوم سے خطاب بتایا گیا ہے جن کے لئے اونٹنی ایک کھلی ہوئ نشانی کے طور پر آئ تھی لیکن اُنھوں نے پھر بھی سرکشی کی۔ حضرت صالح علیہ السلام کی فرمائش کے مطابق اونٹنی اللّلہ تعالیٰ نے نازل کردی تھی اس لئے یہاں لفظ "بَيِّنَةٌ" استعمال کیا گیا ہے۔
وَإِلَىٰ ثَمُودَ أَخَاهُمْ صَالِحًا ۗ قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَـٰهٍ غَيْرُهُ ۖ قَدْ جَاءَتْكُم بَيِّنَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ ۖ هَـٰذِهِ نَاقَةُ اللَّهِ لَكُمْ آيَةً ۖ فَذَرُوهَا تَأْكُلْ فِي أَرْضِ اللَّهِ ۖ وَلَا تَمَسُّوهَا بِسُوءٍ فَيَأْخُذَكُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
اور (بھیجا ہم نے) ثمود کی طرف اُن کے بھائ صالح (علیہ السلام) کو۔ کہا اے میری قوم! بندگی کرو اللّلہ کی، نہیں ہے تمھارا کوئ معبود، اُس کے سوا بے شک آگئ ہے تمھارے پاس کھلی دلیل تمھارے رب کی طرف سے۔ یہ ہے اونٹنی اللّلہ کی، تمھارے لئے ایک معجزہ، سو اسے کھلا چھوڑ دو تاکہ چرتی پھرے زمین میں اللّلہ کی اور نہ ہاتھ لگائو اُسے تم برے ارادے سے ورنہ آلے گا تمھیں ایک دردناک عزاب۔
اس سے آگے چل کر آیت 85 میں بھی لفظ "بَيِّنَةٌ" کا استعمال کیا گیا ہے
وَإِلَىٰ مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًا ۗ قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَـٰهٍ غَيْرُهُ ۖ قَدْ جَاءَتْكُم بَيِّنَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ ۖ فَأَوْفُوا الْكَيْلَ وَالْمِيزَانَ وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْيَاءَهُمْ وَلَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ بَعْدَ إِصْلَاحِهَا ۚ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ
اور مدین والوں کی طرف (بھیجا ہم نے) اُن کے بھائ شعیب ( علیہ السلام) کو اس نے کہا اے میری قوم! بندگی کرو اللّلہ کی۔ نہیں ہے تمھارا کوئ معبود سوائے اُس کے۔ یقیناً آچُکی ہے تمھارے پاس کھلی رہنمائ تمھارے رب کی طرف سے لہٰزا پورا کرو ناپ اور تول کو اور نہ گھاٹا دو لوگوں کو اُن کی چیزوں میں اور مت فساد مچائو تم زمین میں بعد اُس کی اصلاح کے۔ یہ بات بہتر ہے، تمھارے حق میں اگر ہو تم مومن۔
اس آیت پر ہم اگر غور کریں تو صحیح ناپنا اور تولنا ایسے عمل ہیں جن کو سمجھنے کے لئے زیادہ سوچ و بچار کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہر شخص جو بازار میں سودا لینے جائے گا اُسے یہی توقع ہوگی کہ اُسے قیمت ادا کرنے پر چیز پوری ملے گی تو اگر قومِ شعیب کو ناپ اور تول میں کمی کرنے پر سرزنش کی جارہی تھی تو اُن کے لئے یہ نصیحت باعثِ حیرت نہیں ہونی چاہئے تھی لیکن ناپ اور تول میں کمی کرنے کو وہ اپنا حق سمجھتے تھے (بلکل اُسی طرح جیسے آج کل پاکستان میں اکثر سرکاری محکموں کے اہلکار رشوت لینا اپنا حق سمجھتے ہیں)
سورة الاعراف میں ہی آگے چل کر آیت 175 اور 176 میں وہ انسان جو اللّلہ تعالیٰ کے احکامات کی طرف سے منہ موڑ رہا ہے اُس کی کیفیت کو کتے کی مثال سے سمجھایا گیا ہے۔
وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ الَّذِي آتَيْنَاهُ آيَاتِنَا فَانسَلَخَ مِنْهَا فَأَتْبَعَهُ الشّ
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...