قلقلے، مخارج اور ہم دیسی لوگ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج جب میں عید کی نماز پڑھ کر گھر داخل ہوا تو میں نے عیدمبارک سے بھی پہلے گھروالوں سے یہ کہا کہ، ’’میں اگر زندہ رہا تو اگلی عید کی نماز بریلویوں کی مسجد میں پڑھونگا‘‘ میری بات سن کر اسد نے ترنت جواب دیا، ’’بریلویوں کے مولوی آج کل اس سے بھی زیادہ لمبی دعا مانگتے ہیں‘‘ میں نے کہا، ’’بات دعا کی نہیں، قلقلے اور مخارج کی ہے‘‘ پھر میں نے اسے سمجھایا۔
جب سے مولانا طارق جمیل بطور فیشن ہمارے معاشرے کا حصہ بنے ہیں زیادہ ترخطیب حضرات ان کے لہجے کی نقل کرنے لگے ہیں۔ مولانا طارق جمیل کا لہجہ تو اب ہرایک نے سناہواہے۔ وہ ’’ڑ‘‘ کو بھی ایسے پُرکرکے ادا کرتے ہیں جیسے ’’ڑ‘‘ بھی عربی قرأت کا لفظ ہو۔
مثلاً ’’اے اللہ تیرے دربار میں کوئی ’بڑا‘ نہیں‘‘۔ اب یہاں جو لفظ ’’بڑا‘‘ آیا ہے۔ یہ نہ تو عربی کا لفظ ہے اور نہ سبع میں سے کسی قرأت میں سکھایا جاتاہے لیکن مولانا کا مخرج اِس ’’بڑے‘‘ میں ایسا بھرپور ہے کہ گویا اگر ’’بڑے‘‘ کی ’’ڑ‘‘ کو پُر کرکے گلے سےنہ نکالا تو بلاسفیمی ہوجائےگی۔
مولانا طارق جمیل سے پہلے ہمارے بزرگ قران کی تلاوت بھی پنجابی اور سرائیکی لہجے میں کیا کرتے تھے۔ پھر ضیاالحق آیا۔ پھر مولانا طارق جمیل آئے اور اب ذرا سی اَمچوسی داڑھی کا اضافہ ہوتے ہی نوجوان کی ’’عین‘‘، ’’قاف‘‘ حتیٰ کہ ’’ڑ‘‘ بھی عربیت زدہ ہوگئی ہے۔ اردوبولتے ہوئے عین، قاف اور ضاد کے مخرج کی اتنی فکر کس شرعی مسئلے کے تقاضے پوری کرتی ہے؟
اس پر مستزاد مولانا طارق جمیل کی یہ قلقلے اور مخارج سے لبریز اردو کی دعا اب موبائل کی ٹون کےطور پر بھی یارلوگوں نے لگا رکھی ہوتی ہے۔ میں نے تنگ آکر اپنے چھوٹے بھائی کو کال کرنا ہی ترک کردیا۔ ایک دن شکوہ فرمانے لگے تو میں نے عرض کی،
’’فیصل! تم نے مولانا طارق جمیل کی ایسی دعا بطور ٹون لگا رکھی ہے کہ بیلbell جاتے ہی، گناہوں کے بوجھ سے میرا سرجھک جاتاہے‘‘
فیصل نے کہا،
’’ھاھاھا! بھیا! تو ہم ہیں نا گناہ گار! اللہ معاف کرے! اگر وہ ہمیں یاد دلاتے ہیں تو حرج ہی کیا ہے؟ اسی بہانے معافی مانگ لیا کریں!‘‘‘
میں نے چیں بہ جبیں ہوتے ہوئے کہا،
’’سبحان اللہ! ٹون تم نے لگائی ہوئی ہے اور گناہوں کا احساس ہمیں دلاتے رہتے ہو؟ کیا تمہیں سنائی دیتی ہے؟ خود بھی سنا کرو نا! یہ تلقین تو فقط کال ملانے والے کو سننا پڑتی ہے میرے بھائی!‘‘
اس پر مستزاد مولانا کی دعا کا وہ حصہ جو بطور ٹون لگایا جاتاہے، وللہ اتنا شدید ہے کہ خوف سے رُوح کانپ کانپ جاتی ہے۔ بھئی! ہم گناہ گار ضرور ہیں لیکن یہ ہمارا اور ہمارے اللہ کا معاملہ ہے۔ ہم پہلے ہی بہت ڈرے ہوئے ہیں۔ ہمیں ہمارے کالے کرتوت اس طرح مت یاددلاؤ ورنہ اصلاح سے زیادہ ہمارے بگڑجانے اور دل کالا ہوجانے کی اُمید ہے کیونکہ ہم آپ کے بقول گناہ گار تو ہوسکتے ہیں لیکن جتنا بے وقوف آپ ہمیں سمجھتے ہیں، ہم اتنے بے وقوف ہیں نہیں۔
ربنا ظلمنا انفسنا وان لم تغفرلنا وترحمنا لنکونن من الخٰسرین
اے ہمارے رب ہم نے اپنے نفسوں کے ساتھ ظلم کیا۔ اور اگر تو نے ہمیں معاف نہ کیا اور ہم پر رحم نہ فرمایا تو ہم خسارہ پانے والوں میں سے ہوجائینگے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔