[ فلم انٹی کرائسٹ ( Antichrist,2009 ) پر ایک یادداشتی نوٹ ]
یہ فرانس کا ساحلی شہر ’ کان ‘ ( Cannes ) ہے اور مئی 2009 ء کا ایک خوشگوار دن بھی ؛ اتوار ہے اور تاریخ سترہ ۔ موسم بہار اپنے جوبن پر ہے ۔ ایک روز قبل ہی بارش نے شہر کے سارے سبزے کو اجال دیا ہے اورسمندر کی طرف سے آنے والی ہوا میں ہلکی سی خنکی بھی ہے ۔ یہاں 62 واں عالمی ' فلم فیسٹیول ' اپنے عروج پر ہے ۔ تعطیل کی وجہ سے مقامی باسی بھی بڑی تعداد میں گھروں سے باہر ہیں ۔ میرے جیسے فلموں کے بدیسی شائقین تو خیر ان سینماﺅں کے گرد موجود ہیں ہی ۔ میں کچھ دیر پہلے ہی ڈینش ہدایتکار ’ لارز وان ٹریر ‘ ( Lars von Trier ) کی فلم ’ انٹی کرائسٹ ‘ ( Antichrist ) دیکھ کر سینما ہال سے باہر نکلا ہوں ۔ میں نے یہ فلم پوری دیکھی ہے لیکن مجھے اندازہ ہے کہ کئی اسے پورا نہ دیکھ پائے اور سینما ہال سے باہر نکل گئے تھے ؛ ان میں کچھ تو فلم کے ابتدائی مناظر دیکھ کر ہی باہر نکل گئے تھے جبکہ کچھ بچے کی موت اور اس کے جنازے کے وقت اٹھ کھڑے ہوئے ، باقی تب نکل بھاگے تھے جب ’ وہ ‘ ( شارلٹ گینزبرگ ) اپنے پارٹنر ( ولیم ڈےفو) کی ٹانگ میں ڈِرل مشین سے سوراخ کرکے اس کے ساتھ بھاری ’ سان ‘ باندھ کر نٹ کستی ہے ۔ اِس وقت فلم کو کچھ دیر کے لئے روکنا بھی پڑا تھا تاکہ ان لوگوں کو ہال سے باہر لے جایا جا سکے جو اپنی اپنی نششتوں پر ہی بیہوش ہو گئے تھے ۔ چار کو تو میں نے سٹریچر پر لے جاتے خود دیکھا ۔ اُس سمے مجھے اپنے بچپن کا ایک واقعہ یاد آیا تھا ۔ یہ 1960 ء کی بات تھی ۔ لاہور کے ریگل سینما ( جس کا ٹھیکہ اس وقت میرے والد صاحب کے پاس تھا ) میں ’ ہارر آف ڈریکولا ، 1958ء ‘ نامی فلم پہلی بار لگی تھی ۔ اس میں ڈریکولا کا کردار ’ کرسٹوفر لی ‘ نے ادا کیا تھا ۔ اس فلم میں بھی دیگر خوفزدہ کر دینے والے مناظر کے علاوہ ایک ایسا منظر تھا جب ڈاکٹر ' وین ہیلسنگ ' لوسی کو ڈریکولا کے اثر سے نجات دلانے اور اس کے’ ویمپائر پنے‘ کو ختم کرنے کے لئے اس کی چھاتی میں لکڑی کا موٹا کیل گاڑتا ہے اور لوسی کے سینے سے خون کے فوارے چھوٹتے ہیں ۔ اس فلم کو بھی کئی لوگ پورا نہ دیکھ پائے تھے؛ کچھ اس وقت ہی ہال چھوڑ جاتے جب ' جوناتھن ہارکر ' پہلی ویمپائر کے سینے میں لکڑی کا کیل گاڑتا ، کچھ تب ، جب جوناتھن ڈریکولا کا شکار بنتا ہے اور باقی کئی ڈاکٹر وین ہیلسنگ اورلوسی والے سین پر اٹھ جاتے ۔ روز ایک نہ ایک بندہ کسی نہ کسی شو میں بیہوش بھی ہوتا ۔ یہ وہ زمانہ تھا جب فلموں کا آخری شو سینما گھروں میں نو بجے شروع ہو کر بارہ بجے ختم ہوتا تھا ۔ ریگل سینما میں اس فلم کا یہ شو دیکھ کر نکلنے والے چوک میں کھڑے ہو جاتے وہ اکیلے جانے سے گریزاں ہوتے اور اپنے اپنے راستوں پر ٹولیاں بنا کر آگے بڑھتے ۔
میں اس وقت ایک ایسے سٹال پر کھڑا ہوں جہاں فیسٹیول میں پیش کی جانے والی فلموں کے پرنٹ شائقین کی خریداری کے لئے رکھے گئے ہیں ۔ فلم ’ انٹی کرائسٹ ‘ بھی وہاں موجود ہے لیکن اس کی دو ’ ورژنز‘ وہاں پڑی ہیں ؛ ایک ڈھیری پر ’ برائے کیتھولکس ‘ لکھا ہے جبکہ دوسری پر ’ برائے پروٹیسٹنٹس ‘ درج ہے ۔ میرے پوچھنے پر کاﺅنٹر کے پیچھے موجود درمیانی عمر کی ایک جاذب نظر بلونڈ عورت جس نے سادہ لباس زیب تن کر رکھا ہے ، اپنی بڑی و تنومند چھاتیوں کے نیچے ہاتھ باندھے ایک ڈھیری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ’ کٹ ‘ اور دوسری کی طرف ’ اَن کٹ ‘ کہتی ہے ؛ اس کے گلے میں سونے کی ایک چین ہے جس میں موجود ایک ننھی صلیب ، جس پر کرائسٹ ٹنگا ہے ، اس کی چھاتیوں کی وادی میں لٹک رہی ہے ۔ مجھے مسیحت کے ان دونوں فرقوں کی اخلاقی قدروں کا اندازہ ہے اور مجھے اس کی بات بھی سمجھ آ گئی ہے ۔ میں اس سے ازراہ ِتفنن کہتا ہوں ؛
” یہودی اور مسلمان کونسی دیکھیں ؟ “
یہ سن کر وہ گڑبڑا جاتی ہے ، اسے میرا مذاق سمجھ نہیں آتا ۔ میں ایک اور سوال جڑ دیتا ہوں؛
” اگر تمہیں خریدنی پڑے تو تم کونسی لو گی ؟ “
” کوئی بھی نہیں ، ’ ٹریر ‘ ایک گندہ فلم میکر ہے ۔ “
میں ' اَن کٹ ‘ ورژن کا ایک پرنٹ اٹھاتا ہوں ، اُسے پیسے دے کر مڑتا ہوں اور وہاں سے اُس ہال کی طرف چل دیتا ہوں جس میں آسٹرین ہدایت کار ’مشل ہانکا ' (Michael Haneke ) کی جرمن فلم ’سفید فیتہ ‘ ( The White Ribbon ) کا شو شروع ہونے والا ہے ۔ مجھے اس کی حیران زدہ نظریں کافی دیر تک اپنی پشت پر محسوس ہوتی رہتی ہیں ۔
جب تک ’ سفید فیتہ‘ شروع نہیں ہوتی میرے دماغ میں ’ انٹی کرائسٹ ‘ کا الوہی تصور ِمسیحت اور اسلام کے حوالے سے کروٹیں لیتا رہتا ہے اور ساتھ میں مجھے 1974 ء کی اطالوی فلم ’ انٹی کرائسٹ‘ ( L'anticristo ) بھی یاد آتی ہے ، جس کی نوجوان ، مفلوج اورماں کی موت کے بعد ذہنی طور صدمے کا شکار ہوئی مرکزی کردار ’ اِپولیٹا ‘ اس جانکاری کے بعد کہ وہ اپنے پچھلے جنم میں جادوگرنی تھی ، مردوں کو جنسی طور پر شہوت دلاتی ہے تاکہ انہیں قتل کر سکے ۔ فلم ’ سفید فیتہ ‘ شروع ہوتی ہے تو میں اس میں کھو کر ’ انٹی کرائسٹ ‘ کے بارے میں سب بھول جاتا ہوں ۔ مجھے اس بارے میں دوبارہ تب خیال آتا ہے جب 23 مئی 2009 ء کو کان فیسٹیول میں مقابلے کی مرکزی دوڑ میں شامل بیس فلموں میں سے ’ سفید فیتہ ‘ بہترین قرار پاتی ہے جبکہ لارز وان ٹریر کی فلم ’ انٹی کرائسٹ ‘ کے حوالے سے’ شارلٹ گینزبرگ ‘ کو بہترین اداکارہ کا ایوارڈ دیا جاتا ہے ۔
اس بات کو نو برس ہو چکے ہیں ۔ میں آج کل ڈِیپریشن کا شکار ہوں اور میں اس سے ، کسی ماہر نفسیات کے ذریعے ، نکلنے کی کوشش نہیں کر رہا بلکہ فنون لطیفہ سے جڑے ایسے لوگوں کی حیاتی داستانیں اور کام کو سمجھنے کی کوشش کر رہا ہوں جو انہوں نے اپنی نفسیاتی پیچیدگیوں کی حالتوں میں تخلیق کیا ۔ میرا ایسا کرنا مجھے ڈِیپریشن سے باہر لے آتا ہے ۔ میرا خیال ہے کہ فنون لطیفہ کے ایسے کئی فن پارے بندے کو تب ہی سمجھ آتے ہیں جب وہ خود ویسی ہی ذہنی کیفیت میں ہو جس میں تخلیق کار نے گرفتار رہتے ہوئے اپنا وہ مخصوص فن پارہ تخلیق کیا ہوتا ہے ۔ منٹو ’ ٹوبہ ٹیک سنگھ ‘ لکھ ہی نہ پاتا اگر وہ خود ذہنی امراض کے ہسپتال ( لاہور کے پاگل خانے ) میں خود داخل نہ رہا ہوتا ۔ میں نے وان گاف کا ایک سیلف پورٹریٹ جو اس نے 1889ء میں بنایا تھا ، پیرس کے میوزیم ’ Musée d'Orsay ‘ میں دیکھا تھا ۔ اسے عام طور پر ’ پورٹریٹ اِن میڈ نیس ‘ کہا جاتا ہے اور یہ بھی مشہور ہے کہ بندہ اس پر تیس سیکنڈ سے زیادہ نظریں نہیں جما سکتا ؛ میں اسے کئی منٹوں تک دیکھتا رہا تھا لیکن اسی پورٹریٹ کا جو پرنٹ میری لائبریری میں موجود ہے ، میں نے جب بھی ڈِیپریشن کی حالت میں دیکھا تو میں اس پر چند سیکنڈ سے زیادہ نظریں نہ جما سکا اور ہر بار مجھے وین گاف کی خودکشی اور 1967ء کی فلم ’ دی نائٹ آف دی جنرلز‘ یاد آئی جس میں جنرل ویلہم ٹانز کا کردار ’پیٹر او ٹول ‘ نے ادا کیا تھا اور وہ اسی پورٹریٹ کے سامنے اسے گھورتے گھورتے پسینے سے شرابور ہو جاتا ہے ۔
’لارز وان ٹریر‘ بھی ایک ایسا ہی فلم میکر ہے جو ایسی ذہنی حالتوں سے کئی بار گزر چکا ہے اور اس نے ’ ڈِیپریشن ٹرائلوجی ‘ کی پہلی فلم یعنی ’ انٹی کرائسٹ ‘ تب لکھی تھی جب وہ 2006 ء میں ’ ایم ڈی ڈی‘ ( Major depressive disorder ) کا شکارہو کرہسپتال میں زیر علاج اور اپنے ڈِیپریشن اور اضطراب پر قابو پانے کی جدوجہد میں مصروف تھا ۔
یہ ایک ایسے بے نام جوڑے کی کہانی ہے جو ایک رات ’ سیاٹل ‘ میں اپنے فلیٹ کے بیڈ روم میں ولولے اورپُرجوش طریقے سے ہم بستری میں مصروف ہیں جبکہ ان کا بچہ ،جس نے ابھی نیا نیا چلنا سیکھا ہے ، اپنے کھٹولے میں سویا ہوا ہے ، وہ جاگتا ہے اور چلتے ہوئے کھڑکی تک پہنچتا ہے اور اس سے گر کرموت کے منہ میں چلا جاتا ہے ۔ ماں اسے کھڑکی کی طرف بڑھتے ہوئے دیکھتی ہے لیکن وہ اپنی شہوت کے عروج پر ہے اس لئے اس کو نیچے کودنے سے روک نہیں پاتی ۔ اس کے جنازے سے واپسی پر وہ ' صدمے' سے ڈھہ جاتی ہے اور ہسپتال میں زیر علاج رہتی ہے ۔ بچے کا باپ جو خود ایک نفسیاتی معالج ہے ، ہسپتال میں اس کے علاج پر مطمئن نہیں ۔ جب بچے کی ماں اسے یہ بتاتی ہے کہ اسے دوسرا بڑا خوف ’ قدرت‘ سے ہے تو وہ یہ فیصلہ کرتا ہے وہ اسے اُسی عدن نامی جنگل میں لے جائے جہاں سال پہلے گرمیوں میں ایک کیبن میں رہتے ہوئے عورت نے ’ فیمی سائیڈ ‘ ( Femicide ) پر اپنے تھیسس پر کام کیا تھا ۔ جنگل کے راستے میں بندے کو ایک ہرنی نظر آتی ہے جس کا مرا نوزائیدہ بچہ اس کے جسم سے آدھا باہر ہے ۔ ہرنی اسے دیکھ کر خوفزدہ نہیں ہوتی ۔ اس کیبن میں رہنے کے دوران اس کی پارٹنرکی ذہنی حالت مزید بگڑتی ہے ، ' صدمہ ' اس پر اور زیادہ حاوی ہوتا ہے اور وہ اس سے پُرتشدد جنسی عمل کا تقاضا کرتی ہے ۔ جنگل کا ماحول دن بدن بندے کے لئے تکلیف دہ ہوتا جاتا ہے اور ایسے میں اسے ایک لومڑی ملتی ہے جو اپنے آپ میں گلتی سڑتی اسے کہتی ہے کہ وہاں انتشار کا راج ہے ۔ اس کیبن کی ایٹِک میں بندے کو اپنی پارٹنر کا وہ مواد ملتا ہے جو اس نے اپنے تھیسس کے لئے جمع کیا ہوتا ہے ۔ اسے وہیں اس کے تھیسس کا قلمی نسخہ بھی ملتا ہے جو اس پر یہ ظاہر کرتا ہے کہ اس کی پارٹنر اپنے تھیسس میں اس نتیجے پر پہنچتی ہے کہ سب عورتیں جبلی طور پر بدکار ہوتی ہیں ۔ اسے اس بات کا بھی پتہ چلتا ہے کہ وہ بچے کو ہمیشہ الٹے جوتے پہناتی تھی ۔ پھر ایک مردہ درخت کی جڑوں میں لیٹ کرکئے گئے پُرتشدد جنسی عمل کے دوران اسے یہ بھی لگتا ہے کہ اس کی پارٹنر کو سب سے زیاد ہ خوف ' خدا ' کا نہیں بلکہ ' شیطان ' کا ہے ۔ عورت اس پر یہ الزام لگا کر ، کہ وہ اسے چھوڑ کر وہاں سے بھاگنا چاہتا ہے ، اس پر حملہ کرکے اس کی ٹانگ میں سوراخ کرتی ہے اور اس سے بھاری سان باندھ دیتی ہے ۔ وہ بھاگنے کی کوشش میں لومڑی کی کھوہ میں چھپ جاتا ہے لیکن ایک کوے کی آوازعورت کی مددگار بنتی ہے اوروہ اسے کھوج کرکیبن میں واپس لے آتی ہے اور اسے بتاتی ہے کہ جب تک ’ تین فقیر ‘ نہیں آتے اس جگہ پر کوئی موت واقع نہیں ہو گی ۔ مرد خود کو سان کے وزن سے آزاد کرتا ہے اور عورت کو گلا گھونٹ کر مار دیتا ہے اور کی لاش کو جلا دیتا ہے ۔ جب وہ لنگڑاتا اورجنگلی پھل کھاتا ہوا پہاڑی کی چوٹی کی طرف بڑھتا ہے تو اسے ’ تین فقیر‘ دکھائی دیتے ہیں اوربوسیدہ و پھٹے پرانے کپڑے پہنے سینکڑوں عورتیں ، جن کے چہرے واضح نہیں ہیں ، اس کے پیچھے لپکتی ہیں ۔
میں نے یہاں فلم کا گرافک خاکہ مختصراً بیان کیا ہے لیکن بہت سی اہم گرافک تفصیل سے گریز کیا ہے اس لئے کہ فلم کا تجسس برقرار رہے اوراسے دیکھنے کا شوق آپ کے دل میں مچلتا رہے ۔
کچھ نقادوں کا خیال ہے کہ ' ٹریر' نے ' ہارر ' فلموں کی صنف میں ایک تجرباتی فلم بنائی ہے جبکہ دیگر اسے اور طرح سے دیکھتے ہیں ۔ ان کا خیال ہے کہ اس فلم میں چونکہ جنگل کو عدن کا نام دیا گیا ہے اورجوڑا بے نام ہے ، اس لئے ’ ٹریر‘ نے الوہی ابراہیمی’ پیدائش‘ ( Genesis ) کی مِتھ ( Myth ) کو ایک نئے رنگ سے پیش کیا ہے ۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ عورت چونکہ اپنے ساتھی کو یہ کہتی ہے کہ ’ قدرت‘ ( Nature ) شیطان کی عبادت گاہ ہے ، تو اس کا یہ کہا، اس بات کی چنوتی دیتا ہے کہ یہ قدرت ، شیطانی طاقت اور بچے کی موت کی مثلث ہے جس کے اندر نئی نسل کے مر جانے ، اس پر رنجیدہ ہونے اور ان سے پیدا ہوئے انتشار کی تکونی کہانی پوشیدہ ہے ۔
مجھے ان سب نقادوں کا یہ کہنا کچھ عجیب سا لگتا ہے ۔ جیسا کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ ’ ٹریر‘ نے اس فلم کا سکرپٹ تب لکھا تھا جب وہ 2006 ء میں اپنے ڈِیپریشن اور اضطراب پر قابو پانے کی جدوجہد میں مصروف تھا ۔ جب بندہ کسی نفسیاتی ڈِس آرڈر ( Disorder ) کا شکار ہو تو وہ اس طرح چیزوں کو ’ ریشنلئز‘ (Rationalize ) نہیں کرتا جیسے عام حالت میں کرتا ہے ۔ ڈِیپریشن کی صورت میں مجھ پر بھی کبھی کبھی کچھ ایسا ہی بیتتا ہے ۔ ہیگل ، کارل مارکس ، سارتر ، سگمنڈ فرائڈ ، آئن سٹائن ، سائنسی ترقی سب گڈ مڈ ہو جاتے ہیں اور لاشعور میں دور کہیں نیچے چھپا مذہب ، موت و حیات بعد از موت کا تصور( میرے کیس میں’ الوہی‘ کہ میں ایک مسلم گھرانے میں پیدا ہوا ہوں ) پر پھڑپھڑاتا شعورپر حاوی ہو جاتا ہے اور اس سے تمام تر روشن خیالات کو سوکھے پتوں کی طرح کونوں کُدروں میں ایسے دھکیل دیتا ہے کہ یہ تب تک پھر سے اپنی جگہ نہیں لے پاتے جب تک میں اپنے ڈِیپریشن سے باہر نہیں آ جاتا ۔ مجھے یقین ہے کہ میں ’ ایم ڈی ڈی‘ کی حالت میں اگر کچھ لکھوں گا تو یہ تحریر کچھ ایسی ہو گی جس میں وحدانیت ، خدا و شیطان ، آدم و حوا ، ہابیل و قابیل ، الوہی مذاہب ، ان کی کتھائیں ، انسانی جبلتیں ، خصوصاً بھوک ، جنس اور تشدد ہی حاوی ہوں گے اور اس تحریر میں ابہام اپنی انتہا پر ہو گا اور ہو سکتا ہے کہ اس میں ایک یا دو اشیاء قدرے حاوی ہوں ۔ ایسی حالت میں لکھی گئی تحریر میں کُل عالم کے بے معانی ہونے پر بھی زور ہو گا ۔
ڈِیپریشن کے عالم میں ، اب ، اس فلم کو دوبارہ دیکھنے پر مجھے ’ تین فقیروں ‘ کی علامت کچھ اور طرح سے ہی نظر آئی ہے ؛ پہلے میں اسے روسی لوک کہانی کے حوالے سے ہی دیکھتا تھا ۔ اس بار مجھے یہ فقیر فرائڈ کے’ تحت الشعور‘ میں موجود ’ اِڈ ‘ ( Id ) ، ’ ایگو‘ ( Ego ) اور ’ سپر ایگو‘ ( Super Ego ) کے طور بھی نظر آئے ۔ مجھے یہ تینوں بادشاہ بھی لگے ویسے ہی جیسے مسیحا کی پیدائش پرمریم کے پاس گئے تھے ، اس فلم میں البتہ یہ موت کا اعلان کرنے آتے ہیں ۔
مجھے یہ بھی لگا جیسے ’ تین فقیر‘ ہی نہیں اس فلم میں سب کچھ علامتی ہے ، کچھ ایسی علامتیں ، جو ٹریر کی سائیکی میں کہیں دور گہرائی میں موجود ہیں جن کا نہ تو وہ تجزیہ کر رہا ہے اور نہ ہی ان کا ریشنیل ( Rationale ) پیش کر رہا ہے بلکہ وہ تو بس اپنے فن کے ذریعے انہیں فلم بینوں کے سامنے رکھ رہا ہے اور اپنے تجربے میں حصہ دار بنا رہا ہے ۔
ایسے میں مجھے لارز وان ٹریر کا ایک انٹرویو بھی یاد آیا ہے جس میں اس نے کہا تھا ؛
”۔ ۔ ۔ سچ پوچھیں تو مجھے ، میرے’ اندر‘ نے اس فلم کو بنانے پر مجبور کیا تھا ۔ یہ سارے مناظر میرے دماغ میں آئے اور میں نے ان پر کوئی سوال نہ اٹھایا ۔ مجھے اس بات کے لئے معاف کر دیں کہ مجھے معلوم ہی نہیں کہ میں نے کیا کیا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ سچ میں ، مجھ سے یہ سوال پوچھنا بنتا ہی نہیں کہ فلم کے کیا معانی ہیں اور یہ ایسی کیوں ہے جیسی آپ نے دیکھی ہے ۔ ۔ ۔ مجھ سے سوال کرنا کچھ ایسا ہی ہے جیسے مرغی سے یہ پوچھا جائے کہ چکن سوپ کیسے بنتا ہے ۔ ۔ ۔ “
’ ٹریر‘ کی ’ انٹی کرائسٹ ‘ کچھ ایسی ہی ہے جس میں جنس ، تشدد ( انسانی جبلتیں) اور مذہب ( انٹی کرائسٹ یا ایک آنکھ والے دجال کی مِتھ ) اُس نئی ہیت میں حاوی ہیں جیسے وہ ٹریر کو حالتِ ڈِیپریشن میں نظر آئے ۔ ’ ٹریر‘ کی شخصیت کا کمال یہ ہے کہ اسے اپنی عمومی ذہنی حالت کا تو ادراک رہتا ہی ہے لیکن وہ اس وقت بھی غافل نہیں رہتا جب اس پر ’ ایم ڈی ڈی‘ کا دورہ پڑا ہو ، اس کا شعور بدلی حالت میں موجود ہو اورایسے میں وہ ’ ژونگ ‘ کی سائیکو تھراپی کے عمل سے گزر رہا ہو ۔
اس فلم میں موسیقی کے حوالے سے ’ ٹریر‘ نے یقیناً تب ہی سوچا ہو گا جب اس نے فلم کو پروڈکشن میں ڈالا ہو گا یعنی 2008ء میں لیکن یہاں بھی اس نے اٹھارویں صدی کے موسیقار جارج فریڈرک ہینڈل کے اوپیرا ’ رینالڈو ‘ کے گیت ’ Lascia ch'io pianga‘ کو فلم کی مرکزی تھیم بنایا جو فلم کے سکرپٹ کے ساتھ ایک اچھے توازن کے ساتھ امتزاج بناتی نظر آتی ہے ۔ اس فلم کے سینماٹوگرافر نے’ ہینڈ ہیلڈ ‘ (Hand Held )کیمروں سے عمدہ فوٹوگرافی کرکے فلم کو ہفت رنگ بنایا ہے ۔
’ٹریر‘ نے اس فلم کوسوویت ادیب ، تدوین کار اورفلم ساز ’ آندرے تارکوفسکی ‘ کے نام کیا ہے ۔ یہ سوویت فلم ساز اپنی فلموں ’ ایوان کا بچپن ‘ 1962 ء‘ ، ’ آندرے رُبلیف ، 1966 ء ‘ ، ' سولیرس ، 1972 ء' ، ’ آئینہ ، 1975 ء ‘ ، ’ شکاری ، 1979 ء ‘ ،’ نوسٹیلجیا ، 1983 ء ‘ اور ’ قربانی ، 1986 ء ' کے لئے جانا جاتا ہے ۔ اس کی تمام فلمیں غیر روایتی کہانی کی بُنت اور فلم سازی کا عمدہ نمونہ ہیں ۔ اس کی فلم بندی نے بھی سینماٹوگرافی کے لئے نئے در وا کئے اور جس کے بارے میں سویڈش ہدایتکار’ انگمار برگمین ‘ کا کہنا تھا ؛ ” ۔ ۔ ۔ تارکوفسکی میرے لئے عظیم ہے جس نے ’ فلم ‘ کو ایک نئی زبان دی جو اس میڈیم کی ہیت کی درست ترجمانی کرتی ہے ۔ وہ زندگی نہیں اس کے عکس کو قابو کرتا ہے ، کچھ ایسے جیسے یہ ایک خواب ہو ۔ “
تارکوفسکی 1986ء میں 54 برس کی عمر میں اٹلی میں کینسر کے ہاتھوں فوت ہوا تھا ( اس کی موت متنازع گردانی جاتی ہے کہ’ کے جی بی ‘ نے اس کے جسم میں ایسا کیمیاوی مادہ داخل کیا تھا جو سرطان کا موجب بنا ۔) اسے 1990 ء میں لینن انعام سے نوازا گیا تھا ۔
جب میں ’ انٹی کرائسٹ ‘پر نقادوں کے تبصرے پڑھ رہا تھا تو مجھے ایک تبصرہ اچھوتا لگا ۔ میں اس نوٹ کا اختتام اسی تبصرے پر کرتا ہوں : امریکی اداکار ، کامیڈین ، سکرپٹ رائٹراور فلم ڈائریکٹر ’ جان واٹرز‘ نے اس فلم پر اپنے تبصرے میں لکھا ؛
”۔ ۔ ۔ ۔ اگر انگمار برگمین نے خودکشی کر لی ہوتی ۔ اسے جہنم میں ڈال دیا جاتا اور پھر اسے واپس دنیا میں بھیجتے ہوئے یہ کہا جاتا کہ وہ جہنم میں آنے والوں کی تفریح کے لئے ایک آرٹ فلم بنائے تو وہ ایسی ہی فلم بناتا جیسی کہ ’ انٹی کرائسٹ ‘ ہے ۔ ۔ ۔ ۔ “
اب اس نے یہ تبصرہ کرکے فلم اور ٹریر کا مذاق اڑایا یا اس کی تعریف کی ، اس کا فیصلہ میں آپ پر چھوڑتا ہوں ۔