قدرت کا نظام انصاف پر مبنی ہے ۔
کل ایک عجیب خبر میری نظر سے گزری کہ امریکہ کی وہ ریاستیں جنہوں نے ٹرمپ کو ووٹ دیے وہیں وہ فیکٹریاں ہیں اور وہ اشیاء بنتی ہیں جن پر چین نے ٹیریف لگا دیا ۔ کیونکہ امریکہ نے پوری دنیا کے ساتھ ٹیریف کی جنگ شروع کر دی اب امریکہ کو بھی اس کا نقصان بھگتنا پڑے گا گو کہ امریکی اکانومی ، ٹیکنالوجی اور ہیومن ریسورس اتنی زیادہ بلند سطح پر ہے کہ چھوٹی موٹی مداخلتیں نسبتا کم اثر ڈالیں گیں ۔ خیر بات ہو رہی تھی قدرت کے انصاف کی ، کہ اب ٹرمپ کو صدر چن کر بُگھتو ۔ اسی سے مجھے پاکستان کے ووٹر بھی یاد آتے ہیں کہ نواز شریف کو تیسری بار وزیر اعظم بنا کر اب بُگھتو ۔
پوری کائنات کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے ایک نیچے زمینی اور دوسرا ہوائ یا آسمانی ۔ نیچے والی دنیا میں تو انسان تبدیلیاں لا سکتا ہے ایٹمی ایکسلیریٹر ز یا کیمیاوی ردوبدل سے درخت کاٹنے سے ، ہرن مارنے سے ۔ مگر آسمان والی میں کوئ تبدیلی نہیں لائ جا سکتی ۔ وہ Aeons بہت سپیریر ہیں ۔ infinity وہاں ہے ۔ اور spirits وہاں رہتی ہیں ۔ یا جسے آپ خدا بھی کہ سکتے ہیں ۔
زمینی Aeons کو manipulate کیا جا سکتا ہے ۔ Soul یا روح کے لیے ایک دفعہ جسم میں آ کر بہت مشکل ہو جاتا ہے اوپر والے Aeons سے رابطہ میں آنا ۔ اسی لیے سادھو لوگ گوشہ نشینی یا تنہائ میں چلے گئے ۔ روحیں دنیا کے گند سے پلیت ضرور ہوتی ہیں اور ہندو فلسفہ reincarnation کی بنیاد یہی ہے ۔اس کے با وجود حوصلہ نہ ہاریں ، یہاں بھی پورے اختیارات انسان کے بس میں ہیں ۔ یا کسی ایک کے بس میں نہیں ۔ دونوں چیزیں ساتھ ساتھ ہیں ۔
ڈیوڈ آئیک جس کی کتاب کا میں اگلے دن تزکرہ کر رہا تھا اس کا کہنا ہے جب زمیں اور Saturn کا دور تھا وہ بہترین تھا ۔ موسم بھی بہت خوشگوار ۔ حواس خمسہ سے باہر کے معاملات نظر آتے تھے لیکن جب سے چاند اور سورج اس نظام میں فٹ ہوئے کشش ثقل نے انسانوں کی زندگیوں میں ہیجانی کیفیت پیدا کر دی ۔ gravity نے شیطانی قوتوں کو آپریٹ کرنے کا موقع دیا ۔ چونکہ اب انسان حواس خمسہ میں گرفتار ہو گیا ہے لہٰزا وہ ماضی اور مستقبل کے جھنجھنٹوں میں پڑ گیا ۔ Now میں دراصل کائنات کا راز ہے ۔ Now میں ہی time اور space ختم ہو جاتے ہیں اور کائنات کا نور عیاں ہو جاتا ہے ۔ڈیوڈ کے مطابق اگر شاید انسان چاند کی گرفت سے نکل سکے تو زندگی قدرے بہتر ہو جائے ۔
یہ تو بہت ہی مختصر کائناتی حقائق کا بیانیہ ہے جس پر بہت سارے روحانی محقق متفق ہیں ۔ اب آتے ہیں موجودہ وقت کی طرف ۔ اس وقت پھر ہمارے ہاتھ میں کیا ہے ؟ ہم کیا کر سکتے ہیں ؟ اسی طرح کھا پی کر ایک دن دنیا سے رخصت ہو جائیں گے ؟
ہمارے پاس بہت کچھ ہے ۔ ہماری سچائ ، کوشش ، نیت ، جزبہ ، پیار ، محبت ، شکر گزاری ، وغیرہ وغیرہ ۔ اس سے ہم اپنے حالات اس دنیا میں تمام آفتوں کے باوجود بھی ٹھیک رکھ سکتے ہیں ۔ سکون کی زندگی بسر کر سکتے ہیں ۔
اپنے آپ کو firewall کریں ، لالچ ، جھوٹ ، حسد ، بد دیانتی اور فراڈ سے ۔ بہت خوش و خرم رہیں گے ۔
کل میرے دوست کلاسرا صاحب بہت افسردہ تھے چیف جسٹس کی dual nationals کی معافی پر ۔ حضور آپ اپنے کام پر لگے رہیں ۔ میں نے جب چوہدری افتخار کے وقت اپنی فیس بک پر اس ایشو کو بہت زور و شور سے اٹھایا تھا تب بھی تمام دوست اور دنیا پیچھے پڑ گئ تھی ۔ نیک اور سچے انسان کی پہلی کوشش یہ ہونی چاہیے کہ وہ اس بات کی کہ دنیا یا رشتہ دار کیا کہیں گے پرواہ کیے بغیر اپنے من اور دل کی کر گزرے۔ اور امر ہو جائے اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ۔آپ اپنا کام زور و شور سے جاری رکھیں ۔
جیسے میرے سے شاید رب نے صرف بلاگ ہی لکھوانے ہیں لکھی جا رہا ہوں ۔ آپ سے جو رب نے کام لینا ہے لے رہا ہے جاری رکھیں ۔ کم از کم آپ نے تیل اور گیس کے tycoon بالی کی نیندیں تو حرام کی ہوئ ہیں ۔
خوش رہیں سب ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔