قدرت کا نظام عدل ۔ Divine Justice
کل میں امریکہ میں ہی مقیم اپنے استاد ، پاکستانی پروفیسر سے نگران سیٹ اپ پر گفتگو کر رہا تھا ۔ انہوں نے کہا کہ صاحب ، قدرت ان کو گندا کرنے کے لیے اوپر لائ ہے ۔ وگرنہ یہ بچ جاتے ۔ یہی بات میں نے خود ۲۰۱۳ میں اپنے دوست کو کہی تھی جب اس نے نواز شریف کو تیسری دفعہ وزیراعظم بننے پر مجھ سے پوچھا تھا کہ قدرت ان شریفوں پر مہربان کیوں ؟ میرا جواب تھا کہ ‘یہ بچ گئے تھے ، ان کو زلیل و خوار کرنے لائ ہے ‘ ۔ آج وہ ثابت ہو رہا ہے ۔ آنے والے دنوں میں آپ ان نگرانوں کو بھی زلیل و خوار ہوتا دیکھیں گے ۔ کل ہی پاکستانی میڈیا نے کوئ کسر تو نہیں چھوڑی ان کو گند کا ڈھیر ڈیکلیر کرنے میں ۔ سوشل میڈیا پر تو ان کو گالیاں بھی دی گئیں ۔ ناصر کھوسہ صاحب کہ امریکہ میں گھر کی تصویریں لگائ گئیں ۔ ان کے امریکی پاسپورٹ کا راز افشا کیا گیا ۔ آنے والے دنوں میں امید ہے نیب پنجاب میں وہ شہباز شریف کے ساتھ پیشیاں بھی بَھگتیں گے ۔ کھوسہ کے چیف سیکریٹری کے دور میں ہی یہ کمپنیاں تھوک کہ حساب سے بننی شروع ہوئ تھیں اور سلمان بٹ کی لاء کمپنی کو ان کی رجسٹریشن کا ٹھیکہ دیا گیا تھا ۔ بلکہ idea بھی سلمی بٹ کا تھا ۔ ناصر کھوسہ اور طارق باجوہ نے ہی ان کو گورنمنٹ آڈٹ سے مستثنی کیا تھا ۔ اور کھوسہ نے اپنے ہی ایک سگہ بھائ کو ایک کمپنی کا CEO بنوایا ۔ کیا کھوسہ صاحب نیب کیس میں سارا ملبہ شہباز شریف پر ڈال دیں گے یا اپنے پر لیں گے ؟ دونوں صورتوں میں وہ نون لیگ کو الیکشن نہیں جتوا سکیں گے ۔ کل امریکہ میں ہی مقیم میرے ایک دانشور دوست نے قرآن شریف کی اس سورہ کا تزکرہ کیا ، جس میں رب تعالی فرماتے ہیں ‘میں جب تک تمہیں موت نہیں دیتا جب تک تمہارا باطن ظاہر نہیں کر تا ‘ ۔ وقت آ گیا ان منافقوں اور لُٹیروں کے باطن ظاہر ہو نے کا اور زلت کی موت کا ۔
میرے کل کہ بلاگ سے کافی سارے میرے پڑھنے والوں کو مایوسی ہوئ ۔ میں دراصل ایک بات واضح کرنا چاہتا ہوں ۔ کل کا بلاگ میں زمینی حقائق بتا رہا تھا ، آج میں اُس کے روحانی رُخ پر لکھنا چاہوں گا۔ جیسا کہ اوپر والے پیرا میں بتایا گیا کہ یہ Divine Justice ہے ۔ آپ لوگوں کے لیے ہی میں نے ایک انگریزی میں ۲۰۱۳ میں لکھا ہوا مضمون دوبارہ فیس بُک پر پوسٹ کیا ۔ ضرور پڑھیں ، آپ بہت خوش ہوں گے کہ اصل کامیابی کسے کہتے ہیں ؟۔ ہو سکے آپ لوگوں کو چھٹیاں ہیں اور روزے ہیں ، Ayn Rand کی Fountain Head ضرور پڑھیں ۔ میں کبھی کبھی کراچی میں اتوار بازار پر ضرور جاتا تھا پرانی کتابیں دیکھنے ۔ ایک دن ایک لڑکی کو والدہ کے ساتھ اس کتاب خریدنے کے لیے التجا کرتے پایا ، والدہ انکاری تھیں ۔ میں نے اس کی والدہ کو کہا اگر اجازت دیں تو اس کے ہیسے میں دیتا ہوں ۔ کمال کی چوائس ہے آپ کی بیٹی کی ۔ موجودہ عہدوں اور پیسے کی کامیابی illusion ہے ، دھوکہ ہے ، فریب ہے ، زلالت ہے ۔ بہت سارے ناصر کھوسہ جیسے اس کا شکار ہیں ۔ آپ بچیں اس سے ۔
پاکستان ہماری روحانی اسٹڈی میں دنیا کہ دس power points پر ہے روحانیت کہ اعتبار سے ۔ اس کو گندا ہم نے خود کیا ، قدرت کے اُلٹ جا کے ۔ صوفیا کے مزاروں پر پُوجا پاٹ تو کی ان کو follow نہیں کیا ۔ ایک یہاں امریکہ سے ہی تائیوانی خاتون ہاورڈ سے شاہ لطیف بھٹائ کے کلام پر PhD کر رہی ہیں ۔ اس کے ساتھ کافی دفعہ شاہ صاحب کا کلام سننے اور پڑھنے کا موقع ملا ۔ اسی طرح لاہور میں شاہ حسین کے کلام پر نیو یارک یونیورسٹی سے ایک امریکی PhD کر رہا ہے ۔ پھر ہمارے پنجابی کے صوفی شاعر میاں محمد بخش ، بلھے شاہ وغیرہ ۔ انہوں نے زندگی کا راز پا لیا تھا ۔ وہ راز جو اسی فریکوینسی پر آ کر میری ایک امریکہ میں ہی خاتون نے گھر چھوڑ کر ان چاندنی راتوں میں San Diego کے beach پر پایا ۔ بہت سادہ ۔ کل اس نے مجھے اپنے journal کا صفح بھیجا جس میں میرا غائبانہ تزکرہ تھا بہت خوشی ہوئ ۔ میں وہ راز روز رُوزویلٹ پارک میں پاتا ہوں ۔ پاکستان کی بگاڑ artificial اور دھوکہ والی زندگی نے کی ۔ نیپال غیر مسلم یاتریوں کا مکہ ہے لیکن اس کے حالات پاکستان سے بھی ہزار گنا بد تر ہیں ۔ وہی حکمرانوں کے گند ۔ لاکھوں میگا واٹ بجلی بن سکتی ہے ، پیسہ نہیں ماحول نہیں ۔ ساتھ والے ملک بھوٹان میں ملکہ انقلاب لے آئ ۔ Gross National Happiness کی بات کر دی ۔ ہندوستان کی جھنڈی کروا دی ۔ جناب ہندوستان کی طبعیت اچھے کردار اور کام سے کروائ جا سکتی ہے درانی کی طرح غداری کر کے نہیں ۔ آپ بکے نہ ، جُھکے نہ ، اور ہمت دکھائیں دیکھیں قدرت کے سارے راز کیسے نہیں عیاں ہوتے ۔ زندگی جنت کیسے نہیں بنتی ۔ اس کتاب کے مرکزی کردار کو ایک دن اس کا بدترین نقاد ایک کلب میں مل جاتا ہے ، نقاد کو بڑا شوق ہوتا ہے کہ وہ اس سے بات کرے ، نوٹس کرے ، چاپلوسی کرے ، جب ناکامی ہوتی ہے ، تو خود اس کے پاس جا کر کہتا ہے تمہے پتہ ہے میں ہوں وہ جو دن رات تمہیں رگیدتا ہوں ، اُس نے پھر نہ صرف کہ اس کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہیں کیا بلکہ ایک زبردست جملہ کس دیا ‘ I don’t think about you ‘ میں تمہارے بارے میں سوچتا بھی نہیں ۔ میں چاہتا ہوں ہم سب اسی طرح کی اصل زندگیاں گزارنی شروع کر دیں ۔ اس اشرافیہ اور بدمعاشیہ کا ڈٹ کر مقابلہ کریں ۔ قدرت ہمارے ساتھ ہے، پھر گبھرانا کیوں ۔ آئیے مل کر پاکستان کو سنبھالیں اور ان کے نرغے سے چُھڑائیں ۔ قائد اعظم نے پہلی کابینہ کی میٹنگ میں کہا تھا کہ میری جیب میں زیادہ تر کھوٹے سکہ ہیں ۔ ابھی بھی مسئلہ صرف اُن کا ہے ۔ اصل لوگ ناپید ۔
وہ دل کہاں سے لاؤں ، تیری یاد جو بُھلا دے مجھے ۔
بہت خوش رہیں ۔ پاکستان پائیندہ باد ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔