تالیف: افق نجات
ایسے وقت میں جبکہ کورونا وائرس نے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لےلیا ہے،آئیے ہم ابن سینا کی سائنسی دریافتوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
طب اور فلکیات سے لیکر ریاضیات اور الہیات تک بہت سارے شعبوں میں مہارت اور ید طولیٰ رکھنے والے ابن سینا ایک مسلم ،ہمہ جہت شخصیت اور جدید طب کے بانی تھے۔ مغرب میں(Avicenna) کے نام سے معروف ہیں ، وہ ایک عظیم سائنس داں تھے جنہوں نے ایک ہزار سال قبل ایک انتہائی خوفناک متعدی وبا کو روکنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔
ایسے وقت میں جب جدید دنیا کورونا وائرس جیسے وبائی مرض سے دوچار ہے ، عالمی ادارۂ صحت نے کورونا وائرس کےتیزی سے پھیلتے انفیکشن میں کمی لانے کے لئے جو پہلا قدم اٹھایا، وہ ہے قرنطینہ کو سختی سے نافذ کرنا۔اس مخصوص طریقۂ کار کو ابن سینا نے ایجاد کیا تھا تاکہ مرض کو ایک انسان سے دوسرے انسان میں منتقل ہونے سے روکا جائے۔
1025 میں شائع اپنی شاہکار کتاب "القانون فی الطب" میں ابن سینا نےیہ تجویز پیش کی ہے کہ متعدی بیماریوں کےتیزی سے پھیلتے انفیکشن کو روکنے کے لئے کم از کم 40 دن کا قرنطینہ ضروری ہے، جس میں مشتبہ مریض کو آبادی سے دور کسی جگہ رکھا جائے تاکہ اگر اس میں کسی قسم کی کوئی بیماری ہو،تو وہ کسی دوسرے کو متاثر نہ کر سکے۔
بعد کے ادوار میں حتی کہ آج تک ابن سینا کی کتاب‘‘القانون فی الطب‘‘ جدید طب کی اساس اور سنگ بنیاد مانی جاتی ہے، یہاں تک کہ عالمی طبی طبقے نے اسے تقریبا 600 سالوں تک طب سے متعلق لیکچرزکےلئے مرکزی کتاب کے طور پر استعمال کیاہے۔
ابن سینا جیسے نابغۂ روزگار شخصیت نے قرون وسطی اور جدید دور کے سائنس دانوں کو ایک حوصلہ دیا، مختلف ادوار میں سائنس دانوں نے انہیں مسلم جالینوس، پرنس اور چیف آف فزیشنز ، ارسطو ثانی اور عربوں کے ارسطو جیسےالقاب سے نوازاہے۔
ایسا کہا جاتا ہے کہ ابن سینا کی لکھی ہوئی 450 کتابوں میں سے 240 کتابیں محفوظ ہیں۔ جن میں سے تقریبا 40 تصنیفات طب سے متعلق ہیں۔ ’’ القانون فی الطب‘‘ کے علاوہ ان کی دوسری کتاب ’’ کتاب الشفا‘‘ ہے جو ایک آدمی کی لکھی ہوئی سب سے بڑی انسائیکلوپیڈیا سمجھی جاتی ہے، یہ کتاب سائنس ، مذہب اور فلسفے جیسے موضوعات پر ایک عظیم شاہکار ہے۔
سب سے پہلے ابن سینا نے ہی یہ دریافت کیا کہ جراثیم سے بیماریاں پیدا ہوتی ہیں اور یہ بھی بتایا کہ کیسے انسان کوربون جیسے سنگین بیکٹیریل اور یرقان جیسے امراض اپنے اندر پیدا کرلیتا ہے۔
انہوں نے مہلک داخلی امراض کے معالجے میں بے ہوشی کی تکنیک کا استعمال کیا اور ابن سینا ہی نے پیشاب کے نمونے میں شوگر کی شرح کی پیمائش کرکے ذیابیطس کی تشخیص کرنے کا طریقہ ایجاد کیا۔ مورخین کا کہنا ہے کہ ان کے حیرت انگیز علاج اور اس میں حیران کن شفا کے باوجود انہوں نے کبھی بھی اپنی طبی خدمات کا معاوضہ نہیں لیا۔
ابن سینا ایک سرسری نظر میں:
ابو علی ابن سینا حالیہ ازبکستان کے ایک گاؤں میں سن980 میں پیدا ہو ئے، ایک خوش حال گھرانے میں نشوو نما ہوئی، آپ کے والد اس خطے کے ایک مشہور گورنر اور اسکالر تھے۔ آپ نے سائنس اور فلسفہ کے میدان میں اعلی تعلیم حاصل کی۔ اپنی حیرت انگیز یادداشت اور ذہانت کی وجہ سے بچپن ہی سے خاصے معروف تھے۔
10 سال کی عمر میں ہی انہوں نے قرآن پاک مکمل حفظ کر لیا تھا۔ اس کے فورا بعد ہی انہوں نے ارسطو کا مطالعہ کرنا شروع کیا،جس کی وجہ سے ان کے اندر فلسفے سے گہری دلچسپی پیدا ہوگئی۔جہاں ابن سینا نے ارسطو کی جوہری دریافت سے اتفاق کیا، وہیں انہیں اس میں ایک بڑی خامی بھی ملی، ابن سینا نے کہا کہ ایک ذرہ (ایٹم) مستحکم نہیں ہوسکتا ہے ، بلکہ اسے بھی بہت سے ذیلی ذروں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے یہاں تک کہ اس کا وجود ہی ناپید ہو جائے۔ ریاضیات میں ان کی مضبوط گرفت نے ارسطو کے جوہری نظر یے کے خلاف جانے میں ان کی مدد کی۔
16 سال کی عمر میں طب کی جانب ان کا میلان ہوا اور محض دو سال کی قلیل مدت میں وہ ایک معالج بن گئے، ان کا کہنا تھا کہ ریاضیات کے ایک مجرب عالم ہونے کی وجہ سے ادویات کو سمجھنا ان کے لئے بہت دشوار نہیں تھا۔
معالج بننے کے بعد منظم سرکولیشن اور مائکرو سرکولیشن جیسے مضامین میں نمایاں خدمات انجام دیں اور انہوں نے دونوں افکار کو ایک دوسرے سے علیحدہ کر دیا ، جس کے بعد وہ اس نتیجے پہ پہنچے کہ جراثیم بیماری کے بنیادی اسباب ہیں ،جو مرض کو ایک انسان سے دوسرے انسان میں منتقل کرتے ہیں، یہ انکشاف ایک ہزار سال بعد لوئس پاسچر کے نظریۂ جراثیم میں بہت معاون ثابت ہوا۔
ابن سینا کی کتاب ’القانون فی الطب‘ نے دنیا کو اسلام کی سنہری دور کا راستہ دکھایا ، 8 ویں صدی سے 14 ویں صدی کے درمیان کا یہ دور ثقافتی ، معاشی اور سائنسی ترقی کے عروج کا دور تھا۔ اس دور میں شہرت یافتہ سائنس د انوں نے اہم سائنسی دریافتیں کیں، جن کا فائدہ دور جدید کی سائنسی برادری نے خوب اٹھایا۔
ابن سینا کی کتاب "کتاب الشفا"کی تالیف کے تقریبا500سال بعداس کے مخصوص حصے کا لاطینی ترجمہ بعنوان “Sufficientia” یوروپ میں دستیاب ہو سکا تھا۔ان کی نفسیات اور نظریۂ علم نے مغربی دنیا کے ولیم آف اوورگن ، پیرس کے بشپ اور البرٹس میگنس کو کافی متاثر کیا ، اورتھامس ایکناس کی فکر بھی ان کے نظریۂ مابعدالطبیعات سےمتاثر ہو ئے بغیر نہیں رہ سکی۔
ساتھ ہی ایک متقی مسلمان کی حیثیت سے انہوں نے عقلی فلسفے کو اسلامی الہیات کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی۔ ابن سینا کا بنیادی مقصد معقول اور منطقی دالائل کے ساتھ سائنسی لحاظ سے اللہ تعالیٰ کے وجود اور کائنات کی تخلیق کو ثابت کرنا تھا۔ ان کی سائنسی اور فلسفیانہ خدمات انیسویں صدی تک اسلامی مکاتب فکر میں کافی مؤثر طور پر رائج رہیں۔
ابن سینا کے مطابق روح اور جسم دو مختلف دھات ہیں اور ان کی خصوصیات کے اعتبار سےانہیں امراض لاحق ہو سکتے ہیں۔ وہ اپنے مریضوں کی عمر ، جسمانی نوعیت ، مزاج ، غذا کی قسم اور طرز زندگی جیسی تفصیلات کا گہری نظروں سے جائزہ لیتے تھے۔ مریض کا جگر یا تلی معمول پہ ہے یا نہیں یہ جاننے کے لئے انہیں ایسے طریقے معلوم تھے کہ وہ مریض کو چھو کر یا محض اس پر اپنا ہاتھ رکھ کر بتا سکتے تھے۔
32 سال کی عمر میں انہوں نے آل بویہ کے بادشاہ کا علاج کیا، بادشاہ نے اپنی صحت یابی کے بعد ابن سینا کو اپنا وزیر نامزد کر دیا، لیکن بادشاہ کی وفات کے بعد انہوں نے وزارت کے عہدے سے استعفا دے دیا اور ان کے بیٹے کی پیشکش کو قبول نہیں کیا۔ اس بات سے خفا ہوکر شہزادہ نے ابن سینا کو چار مہینے قید کی سزا سنائی، لیکن وہ اپنے معاون جرجانی کی مدد سے وہان سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔
معروف اطالوی شاعر دانتے نے اپنے ڈرامے میں ابن سینا کا تذکرہ کیا ہے، ابن سینا کی پوٹریٹس اب بھی یوروپ کے بہت سارے طبی شعبوں میں آویزاں ہیں،چاند میں موجود ایک آتش فشان کا نام بھی ابن سینا کے نام پر رکھا گیا ، بہت سارے ممالک نے بطور خراج تحسین ان کے نام سے سکے، مہر اور تمغے بھی جاری کئے۔
ابن سینا نے زندگی کے آخرکے بارہ سال اپنے شاگرد ابو جعفر کے ساتھ گزارے اور 1037 میں اس دار فانی سے ہمیشہ کے لئے کوچ کر گئے۔
امیر خسرو کی فارسی غزل کے کھوار تراجم کا تجزیاتی مطالعہ
حضرت امیر خسرو کا شمار فارسی کے چند چیدہ چیدہ شعرا میں ہوتا ہے۔ ان کی ایک غزل کافی مشہور...