دنیا بھر سے جو تصاویر اور ویڈیوز موصول ہو رہی تھیں وہ دل دہلا دینے کو کافی تھیں. چین سے شروع ہونے والا متعدی وائرس اب ایک سو اسّی سے زائد ممالک میں پھیل چکا تھا. پنجاب بھر میں دو دن کے لاک ڈاؤن کا اعلان کیا گیا تھا. مجھے یہ خبر سنگھ پورہ کے دوکاندار نے دی تھی. مجھے سنگھ پورہ اور پھر باغبان پورہ میں سپلائی دینی تھی اور پیسے وصول کرنے تھے. مگر کہیں سے ایک روپیہ بھی نہ ملا. جب میں باغبان پورہ بازار سے نکل رہا تھا عین اس وقت پولیس داخل ہو رہی تھی. آدھی دوکانیں بند ہو چکی تھیں. باقی کے آدھے دوکاندار سامان سمیٹ رہے تھے. آج نو بجے دوکانیں بند کرنے کا الٹی میٹم تھا. یہ اطلاع بھی مجھے سنگھ پورہ ہی سے ملی تھی. پچھلی رات جب میں جوہر ٹاؤن کے ایک چائے خانے پر دوستوں کے ساتھ بیٹھا تھا تب دس بجے انہوں نے کرسیاں اکٹھی کر لی تھیں.
"تمہیں کون سی زبان سمجھ آتی ہے؟"
اس آواز پر ہم سب دوستوں نے مُڑ کر دیکھا تو پولیس کی گاڑی میں بیٹھا افسر چائے والے کو گُھور رہا تھا. اور پھر ہم سب دوست چوہان کے دفتر میں جا کر بیٹھ گئے. دفعہ 144 نافذ ہو چکی تھی اور پھر بھی ہم پانچ لوگ رات ایک بجے تک بیٹھے رہے. وجہ یہ تھی کہ چوہان کا دفتر ایک غیر معروف پلازے کی نچلی منزل میں تھا.
پچھلی رات کو یاد کر کے میں پھر دوستوں کے ساتھ بیٹھنا چاہتا تھا. اسی لئے میں نے باغبان پورہ بازار سے نکل کر موٹر سائیکل ایک طرف روکی اور شاہد کو کال ملائی. شاہد کی طرف سے جواب نہ پا کر میں نے عرفان لوگوں سے ملنے کا سوچا. میرے دوستوں کے بہت سے ٹولے تھے. سبھی کے ساتھ الگ الگ نشستیں تھیں. شاہد اور حسن میرے ملازمت کے دنوں کے دوست تھے. ان سے کوئی پندرہ سال پرانی دوستی تھی. ان سے جب بھی ملاقات ہوتی تو ہم پرانے دنوں کو یاد کرتے. چوہان لوگوں کے ساتھ میرا کوئی چار سال سے تعلق تھا. خاص کر چوہان سے. چوہان اور دیگر کے ساتھ فلموں اور کہانیوں پر باتیں ہوتیں. عرفان میرا منہ بولا بھتیجا تھا. اس کے اور باقی دوستوں کے ساتھ لُڈو اور تاش کی بازیاں لگتیں. دوکانداران سے میرا تعلق صرف کام کی حد تک تھا. بیجنگ انڈر پاس سے گزرتے ہوئے خیال آیا کہ دھرم پورہ رک کر لالہ جی سے بقایا جات وصول کر لوں. مگر اگلے ہی لمحے یاد آیا کہ لالہ جی ہفتے کی رات کو پیسے ادا نہیں کرتے. پچھلی بار جب میں لالہ جی کی دوکان پر گیا تو معلوم ہوا تھا کہ سکولوں کو پانچ مارچ تک چھٹیاں دے دی گئی ہیں. دوکان پر کھڑے بچوں کے چہرے یہ سُن کر کِھل اُٹھے تھے.
"کس بات کی چھٹیاں؟" بچوں کے والد نے پوچھا تھا.
"یہ کورونا اینڈ کمپنی…" لالہ جی نے تمسخر بھرے انداز میں سر مارا اور میری طرف بقایا جات کا بِل لینے کے لئے ہاتھ بڑھایا تھا.
"کورونا اینڈ کمپنی." چھوٹی بچی نے سرگوشی کے انداز میں اپنے بھائی سے کہا تھا اور منہ پر ہاتھ رکھ لیا تھا.
بچوں کی خوشی دیدنی تھی. لالہ جی نے بِل پر دس ہزار کا اندراج کیا اور پانچ پانچ ہزار کے دو نوٹ کاؤنٹر پر پھینکے تھے.
"میں آج بھی پھینکے ہوئے روپے نہیں اُٹھاتا."
میں نے دل میں اس ڈائیلاگ کو یاد کیا اور بخوشی دس ہزار لے کر دوکان سے نکل گیا تھا.
ایف سی کالج سے ذرا پہلے رک کر میں نے عرفان کو کال کی. عرفان پہلے ہی بتا چکا تھا کہ وہ لوگ لبرٹی مارکیٹ جا رہے ہیں. کال پر میں نے ایک بار پھر پوچھا اور لبرٹی کی راہ لی. ساری مارکیٹ بند پڑی تھی. جو دوکانیں کُھلی تھیں وہ بھی پولیس بند کروا رہی تھی. میں نے اس بار وکی شاہ کو کال کی اور لبرٹی میں ان کی موجودگی کی صحیح جگہ معلوم کی. پتہ چلا کہ وہ لوگ تو برکت مارکیٹ میں ہیں. در حقیقت عرفان لاہور کی جگہوں سے بہت کم واقف ہے. جس وقت میں برکت مارکیٹ پہنچا تو کارپوریشن والے دکانداروں کا سامان اُٹھا کر گاڑی میں رکھ رہے تھے. ہر طرف ایک افرا تفری تھی. کورونا وائرس سے بچاؤ کے لئے ہجوم کے جمع ہونے پر پابندی تھی. ایک دوسرے سے فاصلہ اختیار کرنے کے احکامات تھے. مصافحہ کرنا متروک ٹھہرا تھا. کورونا ایک ایسا وائرس تھا جو چُھونے سے پھیلتا تھا. میں, عرفان, وکی شاہ اور میاں, ایک دوسرے سے دو دو گز کے فاصلے پر شغلاً کھڑے تھے. اگرچہ کورونا پاکستان میں داخل ہو چکا تھا مگر ہم سے ابھی بہت دُور تھا. میں نے موبائل دیکھا تو شاہد کی کال آ رہی تھی. "کورونا ملنے سے پھیلتا ہے فون پر بات کرنے سے نہیں." میں نے فون اُٹھاتے ہی شاہد سے کہا.
"میں ایک جگہ کام کرنے آیا تھا. اس لئے پتہ نہیں چلا." شاہد نے جواب دیا.
"تب میں تمہارے گھر کے قریب تھا. سوچا مل بیٹھتے ہیں. مگر اب تو میں وہاں سے آ چکا ہوں." میں نے فون کرنے کی وجہ بتائی.
"میں تو گھر سے کافی دُور ہوں." شاہد نے معذرت بھرے لہجے میں کہا.
"کوئی نہیں, پھر کسی دن رکھتے ہیں ملاقات." میں نے جواب دیا.
"اللہ حافظ" کہہ کر میں نے فون بند کیا تو وکی شاہ چلنے کا کہہ رہا تھا. جب ہم مارکیٹ سے نکلنے لگے تو عرفان بولا.
"چاچے کے ساتھ کون بیٹھے گا؟"
"تم." وکی شاہ اور میاں بیک وقت بولے.
دراصل میری ڈرائیونگ پر کسی کو اعتبار نہیں تھا.
"کیچ." میں نے عرفان کی جانب موٹر سائیکل کی چابیاں اچھالتے ہوئے کہا.
عرفان نے چابیاں ہوا میں دبوچ لیں.
"یہ کورونا زدہ چابیاں ہیں." میں نے ہنستے ہوئے کہا.
سب نے ایک ساتھ قہقہہ لگایا اور ہم سب وہاں سے نکل پڑے. تیسری موٹر سائیکل پر وکی شاہ کے دو دوست بھی ہمارے ساتھ روانہ ہوئے. سید پور پہنچے تو زیادہ تر دوکانیں بند ہو چکی تھیں. سید پور پہنچ کر سب لوگ سیمی کے دفتر کی سیڑھیاں چڑھ گئے اور میں شیخ صاحب کے پاس کھڑا ہو گیا.
"کیا نئی تازی ہے؟" شیخ صاحب نے اپنا روایتی جملہ کہا.
"نئی تازی کیا ہونی ہے؟ خوار ہو کر آ رہا ہوں." میں نے پیکٹ میں سے سگریٹ نکالتے ہوئے کہا.
شیخ صاحب نے جواب میں پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ منہ بسورا.
"دو دن کے لئے مارکیٹیں بند پھر؟" اب کی بار میں نے سوال کیا.
"ہاں جی." شیخ صاحب کے چہرے پر افسردگی نمایاں تھی.
"ہر طرف کورونا کورونا ہو رہی ہے." میں نے کہا.
"آج وکی شاہ نے بڑی خوف ناک بات کہی." شیخ صاحب بولے.
"وکی شاہ کی بات بعد میں سنتا ہوں پہلے ذرا میں سگریٹ لے آؤں." میں نے سامنے دوکان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا اور جلدی سے سڑک کی دوسری جانب چل دیا.
مجھے ڈر تھا کہ کہیں یہ آخری سگریٹ کی دوکان بھی بند نہ ہو جائے. دراصل میں اسمگل شدہ برانڈ پینے کا عادی تھا جو ہر کسی سے نہیں ملتا تھا. اور اگر کسی سے ملتا تھا بھی تو وہ صرف اپنی پہچان کے گاہکوں کو بیچتا تھا. اس لئے عموماً میں پیکٹ ختم ہونے سے پہلے دوسرا پیکٹ خرید لیتا تھا.
"جی شیخ صاحب؟" واپس آ کر میں نے بات وہیں سے شروع کرنا چاہی.
"وکی شاہ نے آج جو بات کہی وہ بڑی خوف ناک ہے." شیخ صاحب نے دوبارہ وہی بات دوہرائی.
شیخ صاحب کی عادت تھی کہ جب وہ کسی بات پر توجہ دلانا چاہتے تو اسے بار بار دوہراتے.
"کیا کہہ دیا وکی شاہ نے؟" میں نے اطمینان سے پوچھا.
"جو شخص کورونا سے ہلاک ہوگا اسے غسل کون دے گا؟" شیخ صاحب کے چہرے پر پہلی بار اتنی تشویش تھی.
"او شیخ صاحب! اب ایسی بھی کوئی بات نہیں. کوئی نا کوئی غسل دے ہی دے گا." میں نے بڑے آرام سے کہا.
"یہ تو آپ کہہ رہے ہو. میں اکثریت کی بات کر رہا ہوں." شیخ صاحب نے جواب دیا.
"دنیا بھری پڑی ہے شیخ صاحب ایسے لوگوں سے. بڑے اللہ کے بندے آگے ہو جائیں گے ایسے موقع پر."
مجھے شیخ صاحب اور وکی شاہ کی سوچ پر حیرت ہونے لگی. یہاں تک کہ شیخ صاحب کے جانے کے بعد میں عظیم اور عامر کے ساتھ مل کر اس سوچ کا تمسخر اڑانے لگا. پولیس کی ایک گاڑی ہمارے قریب سے گزری. فرنٹ سیٹ پر بیٹھے افسر نے اوپر سیمی کے دفتر کی جانب دیکھا. دفتر کی لائٹ جل رہی تھی. گاڑی بغیر رکے گزر گئی. ہم تینوں دیر تک کورونا پر بات کرتے رہے. عامر کو حکومت کے لائحہ عمل پر اعتراض تھا. میں اور عظیم شانت تھے. میں مذاق مذاق میں دونوں کو چُھو رہا تھا. جانے سے پہلے عامر کہنے لگا.
"میرے گھر والے سب چلے گئے ہیں. میں قرنطینہ میں رہوں گا. اگر دو دن میری کال نہ آئے تو آ کر لاش نکال لینا."
ہم دونوں عامر کی بات پر ہنس دیے.
ایک ہراس تھا جو سب کے دلوں میں تھا. اوپر سے سب مطمئن تھے کہ یہ وائرس ہم سے بہت دور ہے. لوگ سیلف آئسولیشن اختیار کر رہے تھے. حال ہی میں وسیم اکرم نے اپنے ویڈیو پیغام میں سیلف آئسولیشن کا اعلان کیا تھا. یورپی ممالک, خاص کر اٹلی سے لوگوں کے تنبیہی پیغام موصول ہو رہے تھے. جہاں ہلاکتوں کی تعداد بڑی تیزی سے بڑھ رہی تھی. قریب تھا کہ اٹلی میں ہلاکتیں چین سے بھی تجاوز کر جائیں. دنیا چیخ چیخ کر کہہ رہی تھی کہ خود کو اور اپنے پیاروں کو اس وائرس سے محفوظ رکھیں. منہ پر ماسک اور ہاتھوں پر دستانے استعمال کریں. بار بار صابن سے ہاتھ دھوئیں. سینیٹائزر کا استعمال زیادہ سے زیادہ کریں. ایک دوسرے کو چُھونے سے گریز کریں اور حتی الامکان گھر میں رہیں.
لاک ڈاؤن کی دوسری صبح اسّی واں یومِ پاکستان تھا. میں لاک ڈاؤن کی ممکنہ توسیع کے پیش نظر سگریٹ لینے نکل پڑا. ملتان روڈ پر لوگوں کا رش کم تھا. کئی میرے جیسے گھر سے باہر نکل آئے تھے. جو گھروں میں بیٹھے تھے وہ کورونا سے کم اور پولیس کے خوف سے زیادہ ٹِکے ہوئے تھے. میں خود پچھلی رات دوستوں کے ساتھ لُڈو کھیلتا رہا تھا. واپسی پر بس اس بات کا خوف تھا کہ پولیس کے ہتھے نہ چڑھ جاؤں. عظیم نے گھر میں قرنطینہ اختیار کر لیا تھا. میں ابھی اس بارے بس سوچ رہا تھا.
میرے اسمگل شدہ سگریٹ ملنے کی بس ایک ہی دوکان سے امید تھی اور وہ بھی بند تھی. میں نے حافظ صاحب کو ملک صاحب کی دکان کے باہر بیٹھے دیکھا. ان کی دوکان کے باہر ہر وقت دو کرسیاں پڑی رہتی تھیں. میں نے جا کر بآواز بلند سلام کیا تو ملک صاحب نے مصافحے کے لئے ہاتھ آگے بڑھا دیا. میں نے خاموشی سے ہاتھ ملا لیا. پھر حافظ صاحب سے ہاتھ ملاتے ہوئے میں کرسی پر بیٹھ گیا. یہ آخری مصافحہ تھا جو میں نے کیا.
"ویسے بہتر ہے ہاتھ نہیں ملانا چاہئے." میں نے جیب میں سے سگریٹ نکالتے ہوئے کہا.
"کچھ بھی نہیں ہوتا." ملک صاحب نے سر مارا.
"نہیں ملانا چاہئے ویسے. احتیاط اچھی ہوتی ہے." حافظ صاحب بولے.
"حاجی صاحب نہیں آئے؟" میں نے حافظ صاحب سے پوچھا.
"بس آنے والے ہیں." حافظ صاحب نے جواب دیا.
"میں نے سوچا سگریٹ لے آؤں. بعد میں کہیں یہ بھی نہ ملیں." میں نے یہ کہہ کر ایک چھوٹا سا کش لیا.
ملک صاحب کورونا کے متعلق اپنی رائے دینے لگے. ان کے نزدیک یہ کسی چینی تجربے کی خرابی کے باعث پھیلا تھا. میں نے بھی اپنی معلومات کے مطابق رائے دی. ملک صاحب میری رائے کو رد کر کے اپنی رائے پر مُصر رہے. میں نے ملک صاحب کی بات کا رخ موڑنے کے لئے ایک راہ چلتے شخص کے ماسک کی جانب توجہ دلائی. لوگوں کی اکثریت نے ماسک الٹا پہن رکھا تھا. نہ پتہ چلتا تھا کون مریض ہے اور نہ پتہ چلتا تھا کس نے حفاظتی طور پر پہن رکھا ہے. اکثریت کا ماسک ان کے مریض ہونے کا اشارہ دے رہا تھا. جبکہ بہت سے لوگوں نے سادہ کپڑے کا ماسک پہن رکھا تھا.
حاجی صاحب کی دوکان کھلی تو میں نے پانچ پیکٹ سگریٹ کے لئے.
"تم زیادہ چوڑ نہیں ہو گئے؟" حافظ صاحب نے پوچھا.
"حافظ صاحب اللہ نے رزق کا وعدہ کیا ہے, سگریٹ کا نہیں." میں نے مسکرا کر جواب دیا.
میری بات سُن کر حافظ صاحب ہنسنے لگے.
ہیرا, جو اپنی دوکان کا شٹر گرا کر اندر سے دوکانداری کر رہا تھا, باہر آ گیا. ہم حافظ صاحب کے گھر چائے پینے چلے گئے.
حکومت کی طرف سے اکٹھے ہونے پر پابندی تھی. ہم نے گھروں میں اکٹھ شروع کر دیا. کبھی کسی کے گھر, کبھی کسی کے دفتر میں, کبھی کسی دوست کے کارخانے میں. دن بھر ہم گھروں میں نام نہاد قرنطینہ اختیار کرتے اور جب کسی دوست کی کال آتی تو فوراً لبیک کہتے.
لاک ڈاؤن میں توسیع ہو چکی تھی. میں نے سگریٹ, چائے, کافی اور بسکٹ کا اسٹاک خرید لیا تھا. سارا دن گھر میں رہتا. جب موقع ملتا تو دوستوں کے ساتھ تاش کھیلنے نکل پڑتا. دنیا میں متاثرہ ممالک اور جزائر کی تعداد دو سو کے قریب پہنچ چکی تھی. لاکھوں لوگ کورونا کا شکار ہو چکے تھے. ہزاروں لقمۂ اجل بن چکے تھے. میں سارا سارا دن موبائل پر کورونا متاثرین کی تعداد کا جائزہ لیتا رہتا. چین نے کافی حد تک مریضوں کی بڑھتی تعداد پر قابو پا لیا تھا. جن کے خیال میں چین بہت دور تھا, ان ممالک میں مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا. اٹلی اور اسپین میں چین سے زیادہ ہلاکتیں ہو چکی تھیں. امریکہ میں یہ وائرس بڑی تیزی سے پھیل رہا تھا. میں سب اعداد و شمار دیکھ کر اللہ سے رحم کی دعا کرتا اور دل کو یہ تسلی دیتا کہ مرنے والوں کی تعداد محض چودہ فیصد اور صحت یاب ہونے والوں کی چھیاسی فیصد ہے. اور دوسری طرف جو لاکھوں مریض ابھی اس بیماری سے لڑ رہے ہیں ان میں سے صرف پانچ فیصد کی حالت تشویش ناک ہے.
سوشل میڈیا پر تصاویر, ویڈیوز اور خبروں کی بھرمار تھی. ہر کوئی دانش ور, طبیب اور ناصح تھا. ٹوٹکوں, نسخوں اور وظائف کی بھرمار تھی. عملی طور پر سب میرے جیسے تھے. کورونا پر لطیفے, گانے اور شاعری تخلیق ہو رہی تھی. ہر کوئی اس متعدی وائرس کی اصل وجہ پر رائے دے رہا تھا. کوئی اسے اللہ کا عذاب کہہ رہا تھا اور کوئی اسے حضرت انسان کی شرارت گردان رہا تھا. کسی کا خیال تھا کہ اسے خود چین نے پھیلایا ہے اور کسی کے نزدیک یہ امریکیوں کی حرکت تھی. کوئی اسے چمگادڑ کا سُوپ پینے سے جوڑ رہا تھا اور کوئی کتے, بلی, چوہے سے جو چینی قوم کی خوراک تھے. اصل وجہ جو بھی ہو لیکن حقیقت یہ تھی کہ کورونا وائرس تیزی سے پھیل رہا تھا. کورونا کے علاج سے متعلق بھی بہت سے مفروضے تھے. کوئی اس کا علاج پیاز کا کثرت سے استعمال بتا رہا تھا اور کوئی کلونجی یا زیتون. ہندو گاؤ موتر اور گوبر کو اس کا حتمی علاج سمجھتے تھے اور عیسائی الکوحل کو. امریکیوں نے کلوروکوئین اور ہائڈروکسی کلوروکوئین کو اس کا واحد علاج بتایا. مجھے بھی ایک فون کال پر احتیاطاً ایک پیکٹ ایچ سی کیو خریدنے کا مشورہ دیا گیا. پتہ کرنے پر معلوم ہوا کہ میڈیکل اسٹوروں پر یہ دوا ہی ختم ہو گئی ہے. مگر سچائی بس یہ تھی کہ میڈیکل سائنس ابھی اس کا علاج دریافت نہیں کر پائی تھی.
یہ ایک ایسا وائرس تھا جو ایک انسان سے دوسرے تک منتقل ہوتا تھا. اس کی علامات میں بخار, خشک کھانسی اور نزلہ زکام شامل تھے. خطرناک بات یہ تھی کہ اس کی علامات جلد ظاہر نہ ہوتیں. جب تک اس کی تشخیص ہوتی تب تک مریض کے آدھے سے زیادہ پھیپھڑے متاثر ہو چکتے. اس سے بچاؤ کا بس ایک ہی حل تھا کہ ایک دوسرے سے فاصلہ رکھا جائے. یہ متعدی وائرس چُھونے سے پھیلتا تھا. یہاں تک کہ اگر متاثرہ شخص کسی چیز کو بھی چُھو لیتا تو اس پر یہ وائرس زندہ رہتا. یہی وجہ تھی کہ دنیا بھر کے ممالک میں جزوی یا کُلی لاک ڈاؤن تھا. کئی ممالک میں تو کرفیو لگ چکا تھا. مساجد, کلیسا, مندر, گوردوارے بند تھے. حتٰی کہ طوافِ کعبہ بھی بند کر دیا گیا تھا. لوگ گھروں کی چھتوں پر اذانیں دے رہے تھے. ہر کوئی اپنے اپنے خدا سے رحم کی بھیک مانگ رہا تھا. یہی نہیں بلکہ اسلام دشمن ممالک میں بھی اذانوں اور تلاوتِ قرآن کی آوازیں گونجنے لگی تھیں. شاید کسی طرح خدا راضی ہو جائے. اگر کسی کی توجہ نہیں جا رہی تھی تو ان مظلوموں کی طرف جن پر دہائیوں سے زندگی تنگ کر رکھی تھی.
حکومت ملک میں بڑھتے ہوئے مریضوں کی تعداد کے پیشِ نظر اقدامات کر رہی تھی. ہر شہر میں قرنطینہ مراکز قائم کئے جا رہے تھے. ایکسپو سنٹر کو تیزی سے ہسپتال میں بدلا جا رہا تھا. لوگوں کو گھروں میں راشن پہنچانے کے منصوبے بنائے جا رہے تھے.
لوگ کورونا سے خوف زدہ تھے مگر موت کو بھولے ہوئے تھے. ہر وہ دوا جس کے متعلق خیال ہوتا کہ کورونا کے علاج میں فائدہ مند ہو سکتی ہے مارکیٹ سے غائب ہو جاتی. آٹے, چینی کا بحران پیدا کیا جا رہا تھا. صابن, سینیٹائزر اور ماسک کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ ہو گیا تھا. سیاستیے اپنی سیاست چمکا رہے تھے. مُلا اپنی دکان چلا رہے تھے.
دنیا بھر سے بس ایک ہی آواز آ رہی تھی "اپنے گھر میں رہیں". مگر ہم لوگ تھے کہ عبرت حاصل نہیں کر رہے تھے. ترقی یافتہ ممالک بھی کورونا کے آگے بے بس دکھائی دے رہے تھے. اگر کسی ملک یا شہر میں کورونا کا کوئی مریض داخل ہونے لگتا تو اسے واپس بھیج دیا جاتا. جہاں کہیں لوگ اس متعدی وائرس سے ہلاک ہوتے انہیں وہیں پھینک دیا جاتا. لاشوں کو کوڑے کے ڈھیر کی طرح پھینک دیا جاتا. مسلم ممالک میں میّتوں کو اجتماعی قبروں میں دفن کر دیا جاتا. اور تو اور مریضوں کی بڑھتی تعداد کے سبب دنیا کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کس کی دیکھ بھال کریں اور کسے مرنے کے لیے چھوڑ دیں.
پڑوسی ملک بھارت میں پولیس لوگوں کو گھروں سے نکلنے پر ڈنڈے مار رہی تھی. جبکہ پاکستان میں ابھی تک پولیس باقاعدہ ہاتھ جوڑ کر التجائیں کر رہی تھی کہ خدارا گھروں میں رہیں. ملک بھر میں مریضوں کی تعداد ایک ہزار سے اوپر ہو چکی تھی. اگرچہ ہلاکتوں کی تعداد ابھی دنیا کے مقابلے میں بہت ہی کم تھی. مگر ہم لوگوں کا برتاؤ ایسا تھا کہ ہمیں اٹلی بننے میں زیادہ سے زیادہ شاید دو ماہ لگیں. میرا خیال ہے اگر ہم طوفانِ نوح کے وقت ہوتے اور نوح ہم سے کہتے کہ وہی بچے گا جو کشتی میں سوار ہوگا تو ہم غرق ہونے والوں میں ہوتے.
میں روزانہ خود کو گھر میں محدود رکھنے کا ارادہ کرتا. مگر روزانہ تھوڑی دیر کے لئے تاش کھیلنے چلا جاتا. کورونا کے کیس لاہور میں بھی بڑھ چکے تھے. مجھے ایک پیغام موصول ہوا جس میں بتایا گیا کہ شاہدرہ, علامہ اقبال ٹاؤن کے عمر بلاک اور ڈیفنس کے فیز چار اور پانچ کو ریڈ زون قرار دے دیا گیا ہے. اس کے علاوہ ماڈل ٹاؤن, بحریہ ٹاؤن, ٹاؤن شپ, مغل پورہ اور گڑھی شاہو میں کورونا کے کافی کیس درج ہو چکے ہیں. سید پور سے اطلاع ملی کہ وہاں بھی ایک مریض نکل آیا ہے. میں نے پکا ارادہ کر لیا کہ اب میں مکمل قرنطینہ میں رہوں گا اور گھر سے باہر نہیں نکلوں گا. لیکن ایک بار پھر میں شام کو دوستوں کے ساتھ علامہ اقبال ٹاؤن میں بیٹھا تاش کھیل رہا تھا.
"یہ عمر بلاک ہے؟" شہروز نے قینچی مارتے ہوئے سوال کیا.
"اوئے اللہ سے رحم مانگو." وکی شاہ نے کہا.
"عمر بلاک یہ ساتھ والا ہے." میں نے سامنے بیٹھے میاں کی جانب اشارہ کر کے جواب دیا.