کوانٹم فزکس کائنات کی سب سے چھوٹے سکیل کی وضاحت کرتی ہے۔ اگر ہم چھوٹی سے چھوٹی چیزوں کو دیکھتے جائیں، خلیوں تک پہنچ جائیں اس کے بعد مالیکول تک، پھر ایٹم تک اور پھر ان چیزوں سے جن سے ایٹم بنے ہیں یعنی پروٹون، نیوٹرون اور الیکٹران۔ یہاں پر کوانٹم اثرات واضح تر ہوتے جائیں گے۔ کوانٹم فزکس سے ہمیں پتا لگتا ہے کہ یہ سب کیسے کام کرتے ہیں، روشنی کے ساتھ کیسے انٹرایکٹ کرتے ہیں۔ یہ اس کائنات کے سب سے بنیادی اصول ہیں۔ لیکن اس سکیل پر مظاہر ہماری سمجھ کے مطابق خاصے عجیب ہو جاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے چونکہ چھوٹے سکیل کے مظاہر ہماری روزمرہ زندگی کا حصہ نہیں، اس لئے یہ ہمارے عام وجدان کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتے۔
ایک نظر اس سکیل کے چند مظاہر پر۔
موج اور ذرے کا دہرا پن
پروٹون، نیوٹرون، الیکٹرون، ایٹم کیسے ہیں؟ ویسے بالکل بھی نہیں، جیسی کوئی بھی چیز ہمارے مشاہدے میں کبھی آئی ہو۔ اس لئے استعارے اور مثالیں ساتھ چھوڑ جاتے ہیں۔ اچھلتی گیندوں کی طرح؟ ہاں لیکن کبھی ان کو پھیلی ہوئی لہروں کی طرح ٹریٹ کرنا پڑتا ہے۔ (اس لئے نہیں کہ یہ حالت بدل لیتے ہیں، بلکہ اس لئے کہ یہ ہیں ہی ایسے)۔ تصور کریں کہ آپ ایک گیند کو ایک پانی کے تالاب میں پھینک رہے ہیں۔ گیند غائب ہو جاتی ہے اور آپ تہہ پر لہریں بنی دیکھتے ہیں۔ اس لہر میں سے ایک حصہ پانی میں گڑی ایک شاخ سے ٹکراتا ہے اور ساتھ ہی تمام کی تمام لہریں غائب ہو جاتی ہیں۔ اس شاخ کے قریب سے ایک گیند واپس نکل آتی ہے۔ سوچنے میں کچھ عجیب لگے، لیکن سب ایٹامک سکیل میں یہی ہر وقت ہو رہا ہے۔
کوانٹم ٹنلنگ
فرض کیجئے کہ آپ ایک کھڑکی پر گیند کو ٹکرا رہے ہیں۔ گیند کو پھینکا، وہ اچھل کو واپس آئی، آپ نے پکڑ لیا۔ پھینکا، اچھلی، پکڑ لیا۔ پھینکا، اچھلی، پکڑ لیا۔۔۔۔ پھینکا اور وہ کھڑکی کی دوسری طرف نکل گئی۔ اس نے کھڑکی کو توڑا نہیں، اس کو کچھ بھی نہیں کہا، بس دوسری طرف پہنچ گئی اور آپ اس کو کھڑکی سے دوسری طرف اچھلتا اور دور جاتا دیکھ رہے ہیں۔
یہ خواہ جتنا بھی حیرت انگیز لگے، سب ایٹامک سکیل پر نہ صرف یہ ہوتا رہتا ہے بلکہ یہ نہ ہوتا تو ہم بھی نہ ہوتے کیونکہ سورج روشن نہ ہو سکتا۔ سورج میں توانائی نیوکلئیر فیوژن کا نتیجہ ہے۔ جب دو ہائیڈروجن ایٹم ایک دوسرے کے قریب آتے ہیں تو ٹپہ کھا کر پلٹ جاتے ہیں۔ اگر ٹنلنگ کا مظہر نہ ہوتا تو یہ ہمیشہ ہی پلٹ جاتے، کبھی بھی نہ مل پاتے اور کچھ بھی نہ ہوتا، لیکن کئی بار یہ ٹنل کر کے ایک دوسرے کے ساتھ ضم ہو جاتے ہیں۔ ایک نیوکلئیس بنا لیتے ہیں۔ نکلنے والی توانائی سورج کی روشنی ہے۔ اس کے بغیر تاریک کائنات ہوتی۔ اسی طرح دوسری طرف پودے جب اس سورج کی روشنی سے توانائی حاصل کرتے ہیں تو فوٹوسنتھیسز میں اس مظہر کا استعمال ہوتا ہے۔ فوٹوسنتھیسز کے بغیر نہ پودے ہوتے اور نہ ہی جانور۔
سپرپوزیشن
اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی چیز بیک وقت مخالف کام رہی ہو۔ مثلا، آپ ایک وقت میں ایک سمت میں گھوم سکتے ہیں یا پھر اس کی مخالف سمت میں۔ ایک ہی وقت میں دونوں سمتوں میں نہیں۔ یہ بھی تصور کرنا محال ہے لیکن سب ایٹامک پارٹیکل ہر وقت اس حالت میں رہتے ہیں۔ اور ویسے، ہم بھی ایسا کر سکتے ہیں یا یوں کہہ لیں ہمارے اندر کے پارٹیکل ایسا کرتے رہتے ہیں۔ ایک ایم آر آئی مشین اسی اصول کے تحت کام کرتی ہے۔ یہ جسم کے ہائیڈروجن کے ایٹموں کو بیک وقت دونوں طرف سپین کرواتی ہے۔ اسی سپرپوزیشن کی وجہ سے ہم دوسروں کے جسم کے اندر جھانک لیتے ہیں۔
اور کوانٹم فزکس کا فائدہ ہم صرف ایم آر آئی مشین میں ہی نہیں اٹھاتے۔ بہت سی ٹیکنالوجیز اسی بنیاد پر ہیں۔ سلیکون سے بننے والے سلیکون چپ دنیا کی ہر کمپیوٹنگ مشین میں ہیں۔ دنیا کا کمپیوٹنگ انفراسٹرکچر اس بنیاد پر ہے اور یہ کوانٹم فزکس کی سمجھ کی وجہ سے ممکن ہوا۔ اسی طرح لیزر، نیوکلئیر پاور پلانٹس کی بنیاد بھی کوانٹم فزکس پر ہے۔
یہاں پر ایک اور بات جو دلچسپ ہے، وہ یہ کہ ایسی فزکس جو اس قدر ایبسٹریکٹ لگتی ہے اور روزمرہ کے مشاہدے سے اس قدر مختلف ہے، ہمارے اپنے اندر بھی ہر وقت جاری ہے کیونکہ ہم بھی بالآخر کوانٹم میٹیریل سے بنے ہیں۔ کچھ دہائیوں تک اس میں ہونے والی دریافتوں کو قبول کرنے پر بھی کچھ مزاحمت رہی۔ شواہد اکٹھے ہوتے ہوتے کوانٹم بائیولوجی بھی اکیسویں صدی میں مین سٹریم سائنس کا حصہ بن گئی۔ ابتدائی مزاحمت کی وجہ ہماری اپنی انا رہی لیکن عجیب لگنا ہمارے اپنے ذہن کا مسئلہ ہے۔ زندگی فزکس کی ہر خاصیت سے فائدہ اٹھاتی رہی ہے، ہمارا سمجھ آنا یا نہ آنا اس کے لئے رکاوٹ نہیں رہا۔ کوانٹم فزکس اس بات کا ایک اور ثبوت ہے کہ ذہن کا ڈیزائن زندہ رہنے کے لئے فائن ٹیونڈ ہے، نہ کہ دنیا کو سمجھنے کے لئے۔
شاید آپ نے سنا ہو کہ “دنیا میں کوئی کوانٹم فزکس کو نہیں سمجھتا”۔ ایسا نہیں۔ ہم نہ صرف اس کو سمجھتے ہیں بلکہ اس کی بنیاد پر بڑے عرصے سے ٹیکنالوجیز ڈویلپ کر رہے ہیں۔ اس فقرے کا مطلب یہ ہے کہ جب ہم ان مظاہر کا تصور اپنے ذہن میں بنانے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ کام کرنا ہمارے لئے ناممکن سا ہو جاتا ہے۔ لیکن جب ہم اس کو ریاضی کی زبان میں بیان کرتے ہیں تو بہت آسانی سے اس سب مظاہر کی اور ان سے نکلنے والے نتائج پیشگوئی کی جا سکتی ہے اور اس کی بنیاد پر ہر طرح کی چیز بنائی جا سکتی ہے۔ کوانٹم فزکس سائنس کی کامیاب ترین تھیوری ہے۔
جب آپ ایک سیلفی کھینچ کر اپنے کسی دوست کو بھیج رہے ہیں تو کائنات کے ان پرسرار لگنے والے مظاہر کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔ یعنی آپ کا یہ ہنستا مسکراتا، خوبصورت اور دلکش چہرہ تمام دنیا کے ساتھ شئیر کرنے کے پیچھے بھی کوانٹم فزکس کارفرما ہے۔