پارٹیکل فزکس میں جب بھی کوئی سے دو پارٹیکلز ایک دوسرے کے نزدیک آتے ہیں تو ان کے درمیان انرجی کا تبادلہ ہوتاہے۔ اس قسم کی فزکس کو کوانٹم الیکٹروڈائنامکس کہاجاتاہے۔ جو پارٹیکلز ایک دوسرے کے نزدیک آتے ہیں، وہ مادے کے پارٹیکلز ہوتے ہیں لیکن جب وہ آپس میں انرجی کا تبادلہ کرتے ہیں تو انرجی کے پارٹیکلز کے ذریعے کرتے ہیں۔ یہ بالکل ایسا ہے جیسے اُن مادی پارٹیکلز کے لیے انرجی کے پارٹیکلز گویا کوئی کرنسی ہوں۔ فرض کریں دو الیکٹران ایک دوسرے کے نزدیک آئے ہیں تو کیا ہوگا؟ عام زبان میں ہم یہ کہتے ہیں کہ وہ ایک دوسرے سے ٹکرانے کے بعد ایک دوسرے کو دھکا ماردینگے کیونکہ ان کا چارج ایک جیسا ہے اور ایک جیسے چارج والے پارٹیکلز ایک دوسرے کو دھکا ماردیتے ہیں۔ لیکن یہ دھکا حقیقت میں دھکا نہیں ہوتا بلکہ وہ دونوں آپس میں ایک خاص قسم کی کرنسی کا تبادلہ کرتے ہیں۔
اس بات کو سمجھنے کے لیے یوں سوچیں کہ دوکشتیاں ہیں جن پر دو لڑکے کھڑے ہیں اور والی بال کھیل رہے ہیں۔ ایک کشتی سے ایک لڑکا جب والی بال دوسری کشتی میں کھڑے لڑکے کی طرف پھینکتاہے تو وہ توانائی جس توانائی سے اس نے بال پھینکی ، اُسی توانائی سے کشتی پانی میں تھوڑا سا پیچھے کو سرک جاتی ہے۔ کیونکہ نیوٹن کے تیسرے قانون کے مطابق ہرعمل کا ردعمل برابر اور مخالف سمت میں ہوتاہے اس لیے جس سمت میں بال اُڑ کر جائےگی، اس کے مخالف سمت میں کشتی پیچھے کو ہٹےگی۔ دونوں لڑکے اگر والی بال کھیلتے رہیں تو بہت جلد ان کی کشتیاں ایک دوسرے سے اتنی دور ہٹ جائیں گی کہ وہ ایک دوسرے کی طرف بال پھینک ہی نہ سکیں۔
چنانچہ جب دو الیکٹران ایک دوسرے کے نزدیک آتے ہیں تو وہ ایک دوسرے کو دھکا نہیں دیتے بلکہ وہ دونوں دراصل اُن لڑکوں کی طرح کشتیوں پر سوار ہیں اور ان میں سے کوئی ایک، دوسرے کی طرف بال پھینکتاہے۔ یہ بال وہی کرنسی ہے جس کا میں نے ذکر کیا۔ اور یہ کرنسی ہے ایک فوٹان۔
سٹینڈرڈ ماڈل میں بارہ قسم کےمادی ذرات یعنی فرمیانز ہیں۔ ان بارہ میں سے چھ کو کوارکس کہاجاتاہے اور چھ کو لیپٹانز کہا جاتاہے۔ چھ کوارکس کو علی الترتیب اپ ڈاؤن، چارم سٹرینج اور ٹاپ باٹم کوارکس کہا جاتاہے۔ یاد رہے کہ یہ چھ کوارکس ایٹم کے نیوکلیس میں موجود پروٹانوں اور نیوٹرانوں کے اندر پائے جاتے ہیں۔ یعنی اصل مادی ذرّے یہ ہیں اورپروٹان یا نیوٹران تو دراصل تین تین کوارکس کے کنٹینر ہیں۔ اس لیے سٹینڈرڈ ماڈل میں پروٹانوں اور نیوٹرانوں کا ذکر نہیں بلکہ چھ قسم کے کوارکس کا ذکرہے۔
جبکہ چھ لیپٹانوں کو علی الترتیب الیکٹران، میوآن، تاؤ، الیکٹران نیوٹرینو، میوآن نیوٹرینو اور تاؤنیوٹرینو کہاجاتاہے۔ یہ بارہ کے بارہ مادی ذرات ہیں۔ اسی سٹینڈرڈ ماڈل میں چار انرجی کے پارٹیکلز بھی لکھے جاتے ہیں۔ گلیوآنز، فوٹانز، زیڈ بوزانز اور ڈبیلوپلس مائنس بوزانز۔ یاد رہے کہ سٹینڈرڈ ماڈل کی صورت میں کائنات کی تین بڑی اہم فورسز کو یونفائی کرنے کا یہ کارنامہ پاکستانی سائنسدان ڈاکٹرعبدالسلام، شیلڈن لی گلاشو اور سٹیون وائنبرگ کا کارنامہ ہے۔ اور یہ بھی یاد رہے کہ اس ماڈل کے بغیرجدید دور کی کوانٹم فزکس اور پارٹیکلز فزکس کوئی معنی نہیں رکھتی۔ یہاں تک کہ جدید ترین تھیوری یعنی سٹرنگ تھیوری اور میمبرین (برین) تھیوری بھی دراصل انہیں سولہ پارٹیکلز کے سپیسٹائم کا نام ہے۔
سٹینڈرڈ ماڈل میں جن تین فورسز کو یونفائی کیا گیاہے ان کے نام ہیں۔ سٹرانگ نیوکلیئر فورس، الیکٹرومیگانیٹک فورس اور وِیک نیوکلیئر فورس۔ یہ جو گلیوآن والا بوزان ہے، جس کا ذکرہم نے ابھی کیا کہ سٹینڈرڈ ماڈل میں مادے کے بارہ پارٹیکلز کے ساتھ ساتھ انرجی کے چار پارٹیکلز بھی ہوتے ہیں، یہ گلیوآنز انہی چاروں میں سے ایک ہے، یہ سٹرانگ نیوکلیئر فورس کی کرنسی ہے، اور جو فوٹان ہے یہ الیکٹرومیگانیٹک فورس کی کرنسی ہے اور جو زیڈ بوزان اور ڈبیلوپلس مائنس بوزان ہے یہ وِیک نیوکلیئر فورس کی کرنسی ہے۔ ان میں سے کوئی ایک فورس بھی نہ ہوتی تو آج ہماری یہ کائنات نہ ہوتی۔ یا کم ازکم کوئی ایسی کائنات ہوتی جس کے قوانینِ فزکس ہی کچھ اور ہوتے۔
خیر! تو واپس ذرات کے ملاپ اور بچھڑنے کی کہانی کی طرف آتے ہیں۔ تمام کے تمام مادی ذرات جب آپس میں ملتے ہیں یا ایک دوسرے سے بچھڑتے ہیں یا اپنی جنس تبدیل کرتے ہیں تو ہر ایسے رشتے کے وقت ان کے درمیان انرجی کی کرنسی کا تبادلہ لازمی ہوتا ہے۔ اوپر ہم نے دوالیکٹرانوں کے ایک دوسرے کے نزدیک آنے کی مثال دیکھی۔ الیکٹران تو ایک جیسے چارج کے مالک ہیں اس لیے ایک دوسرے کو فوٹان کی کرنسی کے تبادلے سے پرے دھکیل دیتے ہیں۔ ہمیں اس کے برعکس وہ مثال دیکھنی چاہیے جس میں دو مخالف چارجز والے پارٹیکلز ایک دوسرے کے نزدیک آتے ہیں۔ کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ دو مخالف چارجز والے پارٹیکلز جب ایک دوسرے کے نزدیک آتے ہیں تو وہ ایک دوسرے کو کشش کرتے ہیں۔ تو کشش کی صورت میں انرجی کی کرنسی کس طرح استعمال ہوتی ہے اس کی مثال یہ ہے کہ فرض کریں ایک پروٹان جو کہ مثبت چارج والا ذرہ ہے اور ایک الیکٹران جو کہ منفی چارج والا ذرہ ہے جب ایک دوسرے کے نزدیک آتے ہیں تو ان کے درمیان جس کرنسی کا تبادلہ ہوتاہے اسے ڈبلیوپلس بوزانز کہا جاتا ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ ہم نے ابھی کہا کہ ڈبلیو پلس مائنس بوزان اور زیڈ بوزانز وِیک نیوکلیئر فورس کی کرنسی ہیں۔ عجیب و غریب بات یہ ہے کہ ایک پروٹان کو ایک نیوٹران بننے کے لیے بہت ہی بھاری رقم ادا کرنی پڑتی ہے۔ کیونکہ ایک پروٹان کا اپنا جتنا وزن ہے اس کے مقابلے میں ایک ڈبلیو پلس بوزان کا ورچول وزن (E=mc^2) اَسّی گنا زیادہ ہے۔ یعنی اپنی قیمت سے بھی اسّی گنا زیادہ قیمت دے کر اسے کیا ملتا ہے؟ نمبر ایک، وہ خود نیوٹران میں تبدیل ہوجا تا ہے۔ نمبردو، اس پیدائش کے ساتھ ایک عدد نیوٹرینو بھی پیدا ہوجاتاہے۔
آپ اگر تھوڑا سا ذہن دوڑائیں تو آپ کو معلوم ہوجائےگا کہ جب الیکٹران نزدیک آیا تو گویا ایک منفی چارج نزدیک آیا اورجب پروٹان بھی الیکٹران کی طرف بڑھا تو گویا ایک مثبت جارچ الیکٹران کی طرف بڑھا۔ منفی ایک اور مثبت ایک مل کر زیرو بن جاتے ہیں۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہین کہ پیدا ہونے والا نیوٹران بھی زیرو چارج کا مالک ہے اور نیوٹرینو بھی۔ یعنی فقط ماس ہی کنزرو نہیں رہتا بلکہ چارج بھی کنزرو رہتاہے۔
فائن مین نے ان رشتوں پر بے شمار ڈایا گرمز بنائے ہیں۔ اور فائن مین کے ڈایا گرام میں یہ گنجائش ہے کہ ذرات کے آپس کے رشتے معلوم کرنے کے لیے بے شمار آپشنز موجود ہیں۔ آپ یہ کام ایک کھیل، پہیلی یا پزل کی طرح فقط لطف لینے کے لیے بھی کرسکتے ہیں۔ اس کے بارے میں کہا جاتاہے کہ وٹ کین ہیپن ڈز ہیپن۔ یعنی آپ جب کوئی سے دو ذرات کے درمیان اپنے ذہن سے جو خیالی رشتہ بھی ڈرا کریں گے، ذرات کے درمیا ن وہ رشتہ اسی کائنات میں لازمی وجود رکھتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ آپ چارج، ماس اور انرجی کی کنزرویشن کو نہ ٹوٹنے دیں۔ اگر آپ ایسا کرسکتے ہیں تو کائنات کی تین بڑی اہم فورسز کے درمیان آپ کئی رشتے قائم کرسکتے ہیں اور ایک بڑے سائنسدان بن سکتے ہیں۔ صرف ایک سٹینڈرڈماڈل کے سولہ ذرات کے باہمی کاغذی ڈایاگراموں کی بنا پر۔ ان ڈایاگراموں کو سیکھنا ایک میٹرک پاس سائنس سٹوڈینٹ کے لیے بھی فی الحقیقت فقط دوتین دن کا کام ہے۔
سُورج میں ہمہ وقت کیا ہورہاہے؟ سُورج میں ہمہ وقت یہ ہورہا ہے کہ پروٹان، نیوٹرانوں میں تبدیل ہورہے ہیں لیکن یہ تبدیلی جس کرنسی کی وجہ سے ہورہی ہے وہ ڈبلیو پلس بوزانز ہیں۔ ایک ڈبلیو پلس بوزان بہت ہی مختصر وقت (دس کی طاقت منفی پچیس سیکنڈز) کے لیے پیدا ہوتا ہے لیکن پھر جب اس کا، ڈی کے، ہوتاہے تو ایک پازیٹران اور ایک نیوٹرینو وجود میں آجا تا ہے۔ پازیٹران اُسی وقت کسی پہلے سے موجود الیکٹران کے ساتھ مل کر انائہلیٹ ہوجاتا ہے اور بہت سی توانائی خارج ہوتی ہے۔ جبکہ نیوٹرینو باقی رہ جاتاہے۔
سوچ رہا ہوں جب تک بچے ویہلے پھر رہے ہیں، کیوں نہ انہیں ایک آن لائن کلاس میں اِنگیج کرلیا جائے؟ ایک رضاکارانہ کام یہ بھی تو ہوسکتاہے، کرونا سے پیدا ہوجانے والے اس عالمِ تنہائی میں ۔