کوانٹم فزکس کی تاریخ، زمان و مکان کی الیٰ غیرِ نہایت تقسیم کا راز
قدیم یونانی فلسفی زینو کے پیراڈاکسز مشہور ہیں۔زینو حرکت کا مُنکر ہے۔زینو کے نزدیک حرکت کا امکان نہیں کیونکہ ہمیں نقطہ اے سے نقطہ بی تک سفرکرنے کے لیے، پہلے اُن دونوں نقاط کا نصف فاصلہ طے کرنا ہوگا۔ اُن دونوں نقاط کا نصف فاصلہ طے کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اُس نصف کا نصف پہلے طے کریں، علی ھٰذالقیاس۔ یہاں تک کہ آخر ہمیں یہ کہنا پڑے گا کہ دو قریب ترین نقاط کے درمیان بھی چونکہ لامتناہی نقاط موجود ہیں اس لیے ہمارے لیے ممکن نہیں کہ ہم لامتناہیت کو عبور کرسکیں۔
کوانٹم والوں کو بلیّاں پسند ہیں اور غالباً فلسفے والوں کو کچھوے۔زینو بھی ایک کھچوے کا ذکر کرتاہے۔ یعنی اوپر پیش کیے گئے پیراڈاکس کو وہ ایک اور طریقے سے بھی بیان کرتاہے۔زینو کہتاہے کہ ہم ایک کچھوے سے کبھی بھی آگے نہیں جاسکتے اگر اس نے ہم سے پہلے سفر شروع کیا ہے۔کیونکہ اس سے آگے جانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم ان نقاط کوعبور کرنے کے اہل ہوں جنہیں کچھوا عبور کرچکاہے۔ہم جونہی کچھوے کی جانب ایک نقطہ آگے بڑھیں گے کچھوا بھی ایک نقطہ آگے بڑھ چکاہوگا۔ ضروری ہے کہ کچھوے تک پہنچنے او رپھر اس سے آگے نکلنے کے لیےہم سپیس کے وہ تمام نقاط عبور کریں جو کھچوا ہم سے پہلے عبور کرچکاہے۔ اس مقصد کے لیے سپیس کو بہت چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم کرنا پڑتاہے۔ہم سپیس کو جتنا چھوٹا کرتے چلے جاتے ہیں نقاط کی تعداد کم ہونے کی بجائے بڑھتی چلی جاتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہم فی الاصل کھچوے سے کبھی آگے نہیں جاسکتے۔
زینو کے اس پیراڈاکس میں جو سب سے بڑانقص ہے وہ یہ ہے کہ زینو سپیس یعنی مکان کو اِلٰی غیرِ نہایت قابلِ تقسیم سمجھتاہے۔یعنی مکان کو اگر تقسیم درتقسیم کے عمل سے گزارا جائے تو یہ سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوگا۔ یہ نقص بنیادی طور پر ’’خالص ریاضی‘‘ (Pure Math) کے تصورات سے برآمد ہورہاہے۔ خالص ریاضی میں ہم دو قریب ترین اعداد کو مزید تقسیم کے عمل سے اِس طرح گزارسکتے ہیں کہ یہ سلسلہ کبھی ختم نہ ہوگا۔ مثلاً ہم جانتے ہیں کہ ہندسہ ایک(1) اور ہندسہ دو(2) کے درمیان اِلیٰ غیرِ نہایت تقسیم کا سلسلہ موجود ہے۔اگرہم بہت گہرائی میں جاکر اِن دو ہندسوں کو تقسیم کرلیں تو نہایت نِچلی سطح پر بھی دوقریبی اعداد قابلِ تقسیم رہتے ہیں۔ مثلاً ہم اعشاریہ زیروزیروزیرو ایک (0.0001) اور اعشاریہ زیروزیروزیرو دو (0.0002)کے درمیان بھی غیرمختتم سلسلہ ٔ اعداد پیدا کرسکتے ہیں۔لیکن سوال یہ ہے کہ کیا خالص میتھ کی یہ مشق ہمارے سامنے موجود کائنات پر بھی ویسی ہی منطبق ہوتی ہے؟ مکان کے نقاط کو تقسیم درتقسیم کے عمل سے گزارا جائے تو کیا واقعی خالص ریاضی کی طرح مکان کبھی نہ ختم ہونے والے نقاط میں تقسیم کیاجاسکتاہے؟
کوانٹم کی پیدائش کے ساتھ ہی اِس سوال کا تسلی بخش جواب مل گیا تھا۔ اور وہ جواب یہ تھا کہ ، ’’نہیں! ہم کبھی نہ ختم ہونے والے نقاط کی شکل میں مکان کو تقسیم نہیں کرسکتے‘‘۔ یہ جواب اور پارٹیکل کے بارے میں کوانٹم کے دیگر تصورات پڑھ کر اِس بات پر شدید حیرت ہوتی ہے کہ مسلمان فلسفیوں نے کوانٹم فزکس سے لگ بھگ ایک ہزار سال پہلے بعینہ یہی نظریہ پیش کیا تھا۔ یہ تصور ہی کتنا حیران کُن ہے کہ آج سےایک ہزار سال پہلے موجودہ کوانٹم کے اسّی فیصد خیالات مسلمان فلسفیوں بالخصوص اشاعرہ نے بعینہ ایسے ہی لکھ دیے تھے جیسے آج لکھے جاچکے ہیں۔حق تو یہ ہے کہ اب وقت ہے اشاعرہ کی ’’تھیوری آف پارٹیکلز‘‘ پر ازسرِ نوغورکرنے کا۔لیکن نہایت افسوس سے کہناپڑتاہے کہ کم ازکم مسلمانوں میں اِس وقت ایسا کوئی شیردِل موجود نہیں جو ایسے اہم ترین موضوع پر تحقیق کا بِیڑا اُٹھائے اور موجودہ کوانٹم تھیوری کے ساتھ اشاعرہ کی کوانٹم تھیوری کا موازنہ پیش کرتے ہوئے کم ازکم اہلِ علم کو اس محیّرالعقول دنیا کے اصل خالقین سےمتعارف کروائے۔ یہی نہیں، ’’نیوٹن کا پہلا قانون،بوعلی سینا کا پروجیکٹائل موشن کا قانون ہے‘‘۔ اِسی طرح ابھی دنیا کو یہ بتانے کی بھی شدید ضرورت ہے کہ ’’کوآرڈی نیٹس ‘‘ کے تصور کا خالق ’’رینے ڈیکارٹ‘‘ نہیں بلکہ ’’ابن الیثم‘‘ ہے ۔ یا یہ کہ ’’سپیس خالی نہیں ہے‘‘ کے تصور کا خالق نوبل پرائز ہولڈر ’’پیٹرہِگز‘‘ نہیں بلکہ ’’الفارابی‘‘ ہے۔ یا روشنی کے پارٹیکلزکا تصور آئن سٹائن کا نہیں بلکہ’’بوعلی سینا‘‘ اور ’’ابن الیثم‘‘ کا ہے۔ غرض کتنے ہی ایسے کریڈٹس ہیں جو فقط اور فقط مسلمان سائنسدانوں کا حصہ ہیں لیکن اٹھارویں اور اُنیسویں صدی کے مستشرقین کی بدباطنی کی بدولت آج وہ مغربی فلسفیوں اور سائنسدانوں کا کریڈٹ ہیں۔
تقریباً تمام قارئین کی شدید خواہش ہوگی کہ اوپر پیش کیے گئے دعوں کی سند بھی فراہم کی جائے۔ باقی دعوے تو موضوعِ حاضر کا حصہ نہیں چنانچہ ان کی اسناد میں اُن سے متعلقہ مضامین کے لیےاُٹھا رکھتاہوں البتہ پہلا دعویٰ یعنی یہ دعویٰ کہ ’’کوانٹم تھیوری‘‘ کے اصل بانی اشاعرہ ہیں زیرِ نظر موضوع کا حصہ ہےچنانچہ میں پروفیسرمیکڈونلڈ کی کتاب، ’’ڈیولپمنٹ آف مسلم تھیالوجی، جُورِس پرُڈینس اینڈ کانسٹی ٹیوشنل تھیوری‘‘ (Development of Muslim Theology