کسی نے سچ کہا ہے کہ جب بیگ بینگ کا واقعہ رونما ہوا تو اس وقت کلاسیکل فزکس اور کوانٹم فزکس یکجا تھیں ، لیکن ستارے اور کہکشائیں وجود میں آنے کے بعد کلاسیکل فزکس اور کوانٹم فزکس کے راستے علیحدہ علیحدہ ہوگئے۔اب سپرپوزیشن کے تجربات کے بعد سائنسدان سپرپوزیشن کو استعمال کرتے ہوئے کوانٹم کمپیوٹرز بنانے پر غور کررہے ہیں، عام کمپیوٹر میں صفر یا پھر ایک کی صورت میں ڈیٹا سفر کرتا ہے، کوانٹم کمپیوٹرز میں صفر اور ایک دونوں صورتوں میں بیک وقت ڈیٹا سفر کرے گا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان میں اور عام کمپیوٹرز میں کیا فرق ہوگا ، اس کی مثال ادریس آزاد صاحب نے اپنے ایک مضمون میں ایسے دی کہ عام کمپیوٹر کو اگر
56456465123
12456876553
ان دو نمبروں کو جمع کرنے کے لئے کہا جائے گا تو وہ پلک جھپکنے میں ہمیں بتا دیں گے کہ ان دونوں نمبروں کو جمع کرنے سے 68913341676 آتا ہے مگر انہی کمپیوٹرز کو اگر یہ کہا جائے کہ معلوم کریں کہ کون کون سے ایسے نمبر ہیں جن کو جمع کریں تو 68913341676 آتا ہے تو اس کے لئے ہمارے کمپیوٹرز کو ایک لمبا عرصہ درکار ہوگا جبکہ یہی کام کوانٹم کمپیوٹرز ایک سیکنڈ سے بھی کم وقت میں کر لیں گے۔ شاید یہی وہ Artificial intelligence کا انقلاب آنے والا ہے جس سے ہمیں اسٹیفن ہاکنگ بارہا خبردار کرچکے ہیں۔ بہرحال کوانٹم فزکس کا ایک اور کرشمہ اینٹینگلمنٹ (entanglement) ہے ۔ 20ویں صدی کے اوائل میں کوانٹم اینٹینگلمنٹ کے موضوع پر آئن سٹائن اور نیل بوہر کے درمیان اختلاف رہا ۔ آئن سٹائن کا دعویٰ تھا کہ یہ ممکن نہیں کہ کائنات کے ایک کونے پر ایک ذرہ کائنات کے دوسرے کونے پر موجود کسی ذرے پر فوراًاثر انداز ہو کیونکہ انفارمیشن سمیت کسی بھی چیز کا روشنی سے زیادہ رفتار میں سفر کرنا ممکن نہیں، آئن سٹائن کے اس متعلق الفاظ آج تک مشہور ہیں جو انہوں نے نیل بوہر کے اس نظریے کے متعلق کہے تھے
"Entanglement is spooky, but not action at a distance"
اس ضمن میں نیل بوہر کا دعویٰ تھا کہ ایک دوسرے سے اُلجھے(entangled) پارٹیکلز ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتے ہیں خواہ کتنے ہی دُور کیوں نہ ہوں، اگر ایک کو چھیڑا جائے گا تو اس کا اثر دوسرے پر پڑے گا۔
بعد ازاں مختلف تجربات سے ثابت ہوا کہ نیل بوہر اس معاملے میں سچ کہہ رہے تھے۔ آج کوانٹم اینٹینگلمنٹ ایک حقیقت ہے ۔ یہ ممکن ہے کہ ستاروں، سیاروں کے متعلق قدرت کے قوانین کچھ اور ہوں اور کوانٹم سطح پر قوانین کچھ اور ہوں جس کی وجہ سے یہ مظاہر ہمیں دیکھنے کو ملتے ہیں۔ 2 سال پہلے نیدرلینڈ کی ایک یونیورسٹی نے 2 اینٹینگلڈ الیکٹرانز کو سوا کلومیٹر دور رکھ کر ان پر تجربات کرکے اینٹینگلمنٹ کو ثابت کیا۔اس کی مثال یوں سمجھ سکتے ہیں کہ ہمیں معلوم ہے کہ الیکٹران ہر وقت سپن کررہے ہوتے ہیں اور سپرپوزیشن کے باعث یہ بیک وقت کلاک وائز اور اینٹی کلاک وائز دونوں طرح سپن کرتے ہیں۔ جب ایسے 2 الیکٹرانز جو آپس میں اینٹینگلڈ یا جڑواں ہوں فرض کیجئے ان میں سے ایک کو ہماری کہکشاں سے باہر رکھا جائے جبکہ دوسرے کو زمین پر رکھ کر صرف observe کیا جائے گا تو اس عمل کی وجہ سے دونوں کی سپر پوزیشن کولیپس کرجائے گی (یاد رہے کہ اِن دونوں میں تقریباً 23 ہزار نوری سال کا فاصلہ ہے) اس کے علاوہ اگر زمین پر موجود الیکٹران کلاک وائز سپن کررہا ہوگا تو ہماری کہکشاں سے باہر موجود اس کا جڑواں الیکٹران اینٹی کلاک وائز سپن کررہا ہوگا۔ یہ بات سن کر اکثر لوگ کہتے ہیں کہ یہ تو ایک سادہ سی بات ہے کہ دونوں چونکہ جوڑے ہیں تو مشاہدہ کرنے پر ایک کی حقیقت معلوم ہوگئی تو دوسرا اس سے اُلٹ ہی ہوگا… لیکن اصل پرسراریت تب شروع ہوتی ہے جب ہم اس بات کو سمجھتے ہیں کہ سپرپوزیشن کے دوران دونوں پارٹیکلز ایک ہی وقت میں کلاک وائز اور اینٹی کلاک وائز دونوں طرح سپن کررہے ہوتے ہیں، اس کا یہ مطلب ہے کہ جیسے زمین والا پارٹیکل ہمارے مشاہدے میں آئے گا تو اس کی سپرپوزیشن کولیپس کرجائے گی اور اب 50، 50 چانس ہوگا یا تو وہ کلاک وائز سپن کرتا دکھائی دے گا یا پھر اینٹی کلاک وائز…. اس موقع پر زمین والا پارٹیکل جو behaviour دکھائے گا کہکشاں سے باہر موجود اس کا جڑواں پارٹیکل بالکل الٹ سپن کرنا شروع ہوجائے گا، جس کا مطلب ہے کہ ان دونوں کے درمیان کوئی رابطہ موجود ہے جس کے باعث ایک پر مشاہدے کا اثر دوسرے پر بھی اسی وقت پڑے گا چاہے وہ اربوں نوری سال دور موجود ہو، دو جڑواں پارٹیکلز کے درمیان اس پرسرار رابطے کو ہم کوانٹم اینٹینگلمنٹ کہتے ہیں، اس پر ماہرین تحقیق کررہے ہیں اور اس متعلق جاننے کی کوششوں میں مصروف ہیں کہ وہ کون سے عوامل ہیں جو جڑواں پارٹیکلز کو رابطے میں رکھتے ہیں اور فاصلہ ان کے درمیان دوریاں حائل نہیں کرپاتا. یاد رہے سپر پوزیشن اور کوانٹم اینٹینگلمنٹ ثابت شدہ حقیقتیں ہیں، ہماری کائنات ایسی ہی ہے۔ کوانٹم سطح پرحقائق ایسے پیچیدہ اور ناقابل بیان ہیں کہ عوام الناس تو دُور بہت بڑے بڑے ماہرین تک چکرا جاتے ہیں۔ ہماری کائنات کہکشاؤں سے لے کر الیکٹران اور کوارکس تک اس قدر پرسراریت سے بھری پڑی ہے اس کا ذرا بھر اندازہ ہمیں چند صدیاں پہلے تک بالکل نہیں تھا اور آگے کون سے راز ہمارے منتظر ہیں اس کا بھی اندازہ لگانا مُحال ہے!
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...