کوانٹم مکینکس عجیب ہے اور دماغ کو کچھ چکرا دیتی ہے۔ لیکن اس کی دریافت کے پیچھے کیا تھا؟ کیا ایٹم یا الیکٹران کا کوئی عجیب رویہ؟ کسی پارٹیکل ایکسیرلیٹر کا تجربہ؟ نہیں، اس کی ایجاد کے پیچھے اوون تھا۔
فزسٹ یہ سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے کہ گرم چیزیں آخر کیوں روشن ہوتی ہیں اور مختلف درجہ حرارت پر اپنا رنگ کیوں بدلتی ہیں؟ ایک لوہار کی بھٹی میں لوہا کیوں سرخ ہوتا ہے یا موم بتی کا شعلہ نیچے سے کیوں نیلا ہوتا ہے۔ ان سب سوالوں کے جواب لینے کا طریقہ ایک سوراخ والا اوون تھا۔ جب فزسٹ اپنی مساوات اس پر استعمال کرنا شروع ہوئے تو یہ اس قدر بری تھیں کہ اس کو الٹرا وائلٹ کیٹاسٹروفی کہا جاتا تھا۔ اوون نے اس وقت کی فزکس توڑ دی تھی۔
جس سائنسدان نے آخر کار اس کا حل تلاش کیا، ان کا خیال تھا کہ ان کا حل صرف ریاضی کا شعبدہ ہے۔ کئی سالوں بعد دوسروں کو یہ احساس ہوا تھا کہ یہ کوانٹم مکینکس تھی۔
یہ کہانی انیسویں صدی کے وسط میں شروع ہوتی ہے۔ ہمیں یہ پتہ تھا کہ گرم چیز سے الیکٹرومیگنیٹک ویوز نکلتی ہیں، روشنی، ریڈیو ویوز، الٹرا وائلٹ یا دوسری قسم کی شعاعوں کی صورت میں۔ چیلنج یہ تھا کہ یہ کتنی اور کس ویو لینتھ کی نکلیں گی۔ مشاہدہ یہ تھا کہ گرم چیزیں نیلے رنگ کی طرف جاتی ہیں یعنی ویولینتھ چھوٹی ہو جاتی ہے۔ لیکن ابھی تک کسی نے اس تعلق کو ریاضی کی مساوات میں نہیں بیان کیا تھا۔ 1860 میں جرمن فزسٹ گسٹاو کرشوف نے ایک ایسے آبجیکٹ کا تصور کیا جس میں تمام روشنی جذب ہو جائے۔ یہ جذب ہونے والی روشنی حرارت میں بدل جائے گی۔ حرارت سے واپس روشنی بن جائے گی۔ (اس آبجیکٹ بلیک باڈی کہا جاتا ہے)۔ کرشوف نے یہ سوال رکھا کہ بلیک باڈی ریڈی ایشن کا درجہ حرارت اور ویولینتھ کا تعلق نکالیں۔
اگلی کچھ دہائیوں میں سائنسدانوں نے کچھ اہم فیکٹ جمع کئے۔ پہلا یہ کہ حرارت سے کسی مادے کے ذرات ارتعاش کرنے لگتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ مادے میں مثبت اور منفی چارج والے بہت سے ذرات ہیں۔ تیسرا یہ کہ جب برقی چارج مرتعش ہوں تو الیکٹرومیگنیٹک شعاعوں کا اخراج کرتے ہیں۔ اس سے نتیجہ نکلا کہ مرتعش برقی چارج کو گرم کیا جائے تو وہ ریڈی ایشن خارج کرے گا۔ اس سے جہاں پر اہم بریک تھرو ہوئے وہاں پھر کئی سر کھجانے والے سوال بھی پیدا ہو گئے۔ ایک اہم بریک تھرو جرمن فزسٹ ولیم وین کا 1896 کا تھا جنہوں نے کہا کہ یہ ہلتے ذرات مالیکیول ہیں۔ (اس وقت تک مالیکیولر تھیوری مقبولِ عام نہ تھی)۔
تھرموڈائنمکس کے قونین کو استعمال کر کے جب ولیم وین نے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی کہ ہر ویولینتھ پر کتنی ریڈی ایشن نکلنی چاہیے۔ یہ تقریبا تمام ڈیٹا سے مطابقت رکھتا تھا۔ 1899 تک پہنچتے ہوئے وین کا قانون بڑا ٹھوس لگتا تھا۔ ان کو اپنے کام کے لئے 1911 میں نوبل انعام دیا گیا۔ تانبے یا گیس پر تو یہ ٹھیک کام کرتی تھی لیکن بلیک باڈی کیسے بنائی جائے جس پر تجربہ کیا جا سکے۔ اس کے لئے وہ ایک سوراخ والا اوون بنایا گیا۔ اس سوراخ کے ذرائعے اندرا جانے والی روشنی اندر ہی اچھلتی پھرے گی۔ جرمن سائنسدانوں کے لئے گئے تجربے نے اس طریقے سے اور ہائی پریسیژن پیمائش کے استعمال سے ایک بری خبر سنائی۔ وین کا قانون روشنی اور الٹراوائلٹ کے لئے تو ٹھیک تھا۔ انفراریڈ اور اس سے کم توانائی کی مساوات میں خراب ہوتا جاتا تھا۔
برطانیہ میں لارڈ ریلے اس سے پہلے بھی وین کے قانون پر سوال اٹھانا شروع کر چکے تھے۔ ان کے مطابق زیادہ درجہ حرارت پر نکلنے والی ریڈی ایشن ہر ویولینتھ میں یکساں زیادہ ہونی چاہیے۔ انہوں نے اپنی مساوات دیں جو اس جگہ پر کام کرتی تھیں جہاں پر وین کا قانون فیل ہو جاتا تھا۔ لیکن ریلے کو بھی یہ یپتہ تھا کہ ایک واضح مسئلہ ہے۔ چھوٹی ویولینتھ کو دیکھا جاتا، وہ اتنی آسانی سے مل جاتی۔ ریلے نے کہا کہ الٹرا وائلٹ میں انفراریڈ کے مقابلے میں زیادہ ویولینتھ ملتی ہے۔ اگر ایسا ہی رہے تو پھر الٹراوائلٹ سے بھی جتنا کم ویولینتھ کے سپیکٹرم میں چلے جائیں، اتنا انہیں زیادہ وہتے رہنا چاہیے۔ اس کا منطقی نتیجہ لامحدود توانائی کی صورت میں نکلتا ہے۔ جو کہ درست نہیں۔ (اوون کو آن کرنے سے لامحدود توانائی کا اخراج نہیں ہوتا)۔ اس وجہ سے اس مسئلے کا نام الٹراوائلٹ کاٹسٹروفی پڑا۔
فزسٹ پھنس گئے تھے (جو وقتا فوقتا ہوتا رہتا ہے)۔ ایک طرف وین کا قانون تھا جو تھیورٹیکلی ٹھیک لگتا تھا اور چھوٹی ویولینتھ پر ٹھیک کام کرتا تھا لیکن بڑی ویولینتھ پر تجربے کے خلاف نتیجہ دیتا تھا۔ دوسری طرف ریلے جینز کا قانون تھا جو بھی تھیوریٹیکلی ٹھیک لگتا تھا اور بڑی ویولینتھ پر ٹھیک کام کرتا تھا، لیکن چھوٹی ویولینتھ پر غلط نتیجہ۔ اور یہ ددونوں ٹھیک لگنے والی تھیوریز ایک دوسرے سے اختلاف کرتی تھیں۔ کہیں پر کوئی چیز بالکل غلط تھی۔
اب اس سٹوری کے ہیرو کی انٹڑی جو کہ میکس پلانک تھے اور فزکس کے نجات دہندہ۔ (یہ بھی جرمن سائنسدان تھے)۔ انہوں نے مساوات بنانے کا ایک طریقہ نکالا جس سے دونوں کرو آپس میں مل گئے۔ پلانک کے پاس ایسا کرنے کی کوئی توجیہہ نہیں تھی۔ انہوں نے بس ایسے ہی مساوات میں منفی ایک کا اضافہ کیا تھا اور اس مساوات سے چھوٹی ویولینتھ وین کے قانون کی طرح اور بڑی ویولینتھ ریلے کے قانون کی طرح ہو گئی تھیں۔ پلانک کا لگایا گیا تُکا ڈیٹا پر ٹھیک فٹ بیٹھتا تھا۔ سائنسدانوں نے کرشوف کا دیا گیا چیلنج آخر کار حل کر لیا تھا۔جس سے پلانک زیادہ خوش نہیں ہوئے۔ ان کی مساوات ڈیٹا پر تو ٹھیک فٹ ہو جاتی تھی لیکن کیوں؟ اس کا انہیں کچھ علم نہ تھا۔ اس پر دو مہینے تک سٹڈی کرنے پر انہیں پتہ لگا کہ اس کی تُک اس وقت بنتی ہے اگر مرتعش چارج توانائی کو پیکٹ کی صورت میں جذب کریں اور اس کا اخراج کریں۔ انہوں نے نوٹس کیا کہ ان کے قانون کا ایک دلچسپ نتیجہ نکلتا ہے۔ اس سے ایک اور مساوات نکلتی ہے جو بتاتی ہے کہ حرکی توانائی اوون میں کن طریقوں سے تقسیم ہو سکتی ہے اور صرف اس وقت چل سکتی ہے اگر انرجی مسلسل نہ ہو بلکہ ڈسکریٹ شکل میں ہو۔ اگر ایسا ہو تو پھر کچھ چیزیں فریکشن میں نہیں ہو سکتیں۔ یعنی ان کی مساوات اس مفروضے پر کام کرتی تھی کہ توانائی کے پیکٹ ہیں جن کو مزید تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔ توانائی کے یہ ناقابلِ تقسیم ٹکڑے کوانٹا کہلائے۔ (ویو پارٹیکل کی ڈویلیٹی یا مردہ بلیوں جیسی چیزوں کے پیچھے صرف یہی ایک بنیادی فیکٹ ہے)۔
پلانک نے کوانٹم مکینکس دریافت کر لی تھی!! لیکن کسی کو پتہ نہیں لگا، پلانک کو بھی نہیں کہ یہ کتنی بڑی تبدیلی تھی۔ یہاں تک کہ پلانک کو یقین بھی نہیں تھا کہ یہ سچ ہے۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے جو کیا وہ بس زبردستی اور مایوسی میں کیا گیا تھا۔ ان الگ مساوات کو کسی طریقے سے تو ملانا تھا۔
اس سے کچھ سال بعد آئن سٹائن نے ان کو ایک اور طریقے سے دیکھا تو معلوم کیا کہ توانائی واقعی پیکٹس کی شکل میں آتی ہے جن کو ہم اب ایک فوٹون کی توانائی کہتے ہیں،۔ یہ ایٹیم اور مالیکیول فوٹون جذب کرتے ہیں اور اس کا اخراج کرتے ہیں۔ تمام کوانٹم مکینکس اس میں سے نکلنا شروع ہوئی۔
سوچنے میں کچھ عجیب لگتا ہے کہ اوون جیسے عام سی چیز پوری فزکس اور ہماری دنیا کے بارے مں سمجھ کو بدل سکتی ہے لیکن سائنس ایسے کام کرتی یے۔ اگر مشاہدہ کسی بھی خوبصورت تھیوری کے خلاف ہے تو پھر بنیادی مفروضے میں کچھ کمی رہ گئی ہے۔
کوانٹم مکینکس نے فزکس کو اوون سے بچا لیا اور ہم اب یہ تسلیم کرتے ہیں کہ یہ کائنات اس سے زیادہ عجیب ہے جو ہمارا خیال تھا۔ اور اوون اس عجیب کائنات کا اہم حصہ ہیں۔ (ان کا ایک اور اچھا استعمال مزیدار کیک بنانے میں ہے)۔