ایک زمانے میں ذات و صفات کی بڑی بحث ہوا کرتی تھی۔ اگرچہ میدان تو زیادہ تر تصوف کا ہی ہوتا تھا لیکن یہ بحث اپنے موضوع کے اعتبار سے خاصی مقبولِ عام تھی۔ اہلِ تصوف کے نزدیک، بالخصوص ایسے اہل ِ تصوف جو کسی نہ کسی مذہب سے وابستہ تھے، اُن کے نزدیک بنیادی سوال یہ ہوا کرتا تھا، ’’کیا خدا کی ذات میں، اُس کی صفات بھی شریک ہیں؟ ‘‘ فلسفے کے لوگ اسے مزید گہرائی میں جاکر دیکھتے اور لفظ خدا کو معاملے سے الگ کردیتے۔ ’’کیا شئے کو اس کی صفات سے الگ کیا جاسکتاہے؟ یا اس کے برعکس کہا جاتا تھا؟ یعنی کیا صفات کو کسی شئے سے الگ کرنا ممکن ہے؟ تصوف میں دونوں طرح کے لوگ پائے جاتے تھے۔ یعنی وہ جو یہ مانتے کہ خدا اور اُس کی صفات کو الگ دیکھنا ضروری ہے اور وہ جو یہ مانتے کہ خدا اور اس کی صفات کو الگ کرنا ممکن نہیں۔ وحدت الشہود اور وحدت الوجود کا بنیادی فرق بھی یہی ہے۔ وحدت الشہود میں خدا اور صفات کو الگ الگ مانا جاتاہے اور وحدت الوجود میں خدا اوراس کی صفات میں دوئی کا تصور ناممکن ہے۔ وحدت الوجود کے لوگ ’’ہمہ اُوست‘‘ جبکہ وحدت الشہود کے لوگ ’’ہمہ از اُوست‘‘ کا نعرہ لگایا کرتے تھے۔ ہمہ اُوست کا معنی ہے ’’سب وہی ہے‘‘ اور ’’ہمہ از اُوست‘‘ کا معنی ہے، ’’سب اُسی سے ہے‘‘۔ علامہ اقبال نے بھی صفات کو بُتکدہ قرار دیا گویا ان کے نزدیک بھی صفات کو خدا کی ذات سے الگ کرنا شرک ہے بایں ہمہ اس مقام پر علامہ اقبال بھی وحدت الوجودی ہیں۔ میری نوائے شوق سے شور حریم ِ ذات میں غلغلۂ ہائے الاماں بُتکدہ ٔ صفات میں اَذراہِ تفنن عرض کرتاہوں کہ کوانٹم فزکس کے لوگ بھی ماہرین ِ طبیعات میں سے صوفیا کی نسل کے لوگ ہیں۔ نیلز بوھر اور آئن سٹائن کا طویل مناظرہ بہت مشہور ہے جس کا فیصلہ آخر تک نہ ہوپایا تھا۔ اور ہوا بھی تو آئن سٹائن کی موت کے بعد نیلز بوھر کے حق میں۔ میں نے اس مناظرے کی داستان ’’معرکۂ جزوکُل‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون کی صورت لکھی ہے جو گلوبل سائنس اور غالباً رونامہ دن میں شائع ہوچکی ہے۔ اس مناظرے میں آئن سٹائن ایسا شخص تھا جو مشکل کا شکار تھا نہ کہ نیلز بوھر۔ مشکل بھی ایسی کہ آئن سٹائن کی تعمیر کردہ فزکس کی نئی عمارت کے وجود کو ہی سرے سے خطرات لاحق ہوگئے تھے۔ نیلز بوھر کے پیش کردہ ثبوتوں کی موجودگی میں ’’ٹائم‘‘، ’’سپیس‘‘ اور ’’رفتار‘‘ کا تصور ہی غیر درست محسوس ہوتا تھا۔ نیلز بوھر کا ماننا تھا کہ ،
’’شئے کی کوئی تعریف ممکن نہیں۔ حقیقت کے حقیقت میں کوئی معنی نہیں ہیں‘‘۔ دراصل کوانٹم انٹینگلمنٹ فطرت کا ایسا مظہر ہے جس کے سامنے عقل عاجز ہوکر کان پکڑ لیتی ہے۔ کوانٹم انٹینگلمنٹ عہدِ حاضر کے انسانوں کے سامنے سائنس کا وہ معجزہ ہے کہ پوری تاریخ ِ مذہب میں اس کے برابر قوت کا معجزہ تلاش کرنا ممکن نہیں۔ کوانٹم انٹینگلمنٹ مادے کی دہری فطرت (ڈُوئل نیچر) کے ایسے مظاہرے کا نام ہے جس میں فاصلے اور رفتار حقیقی معنوں میں اپنے معانی کھو بیٹھتے ہیں۔ اگر مادے کے دو پارٹیکلز آپس میں اِنٹیگلڈ entangled ہوجائیں یعنی آپس میں بندھ جائیں، تو پھر بے شک درمیان میں لاکھوں نوری سال کا فاصلہ ہی کیوں نہ پڑجائے، ایک پارٹیکل کے ساتھ جو کچھ پیش آئے گا دوسرا ٹھیک اُسی وقت تبدیل ہوجائے گا۔ نہایت سادہ مثال یہ ہے کہ فرض کریں آپ کے پاس دو ’’لال مارکرز‘‘ ہیں جنہیں آپ نے اِس طرح پکڑا ہوا ہے کہ ایک کی کیپ(Cap) اُوپر کی طرف ہے تو دوسرے کی نیچے کی طرف۔ وہ ایک دوسرے کے مقابلے میں سر کے بل یعنی اَپ سائیڈ ڈاؤن شکل میں، آپ نے اپنی مُٹھی میں پکڑ رکھے ہیں۔ اب فرض کریں کہ ان میں سے ایک مارکر آپ دوسری کہکشاں کے کسی سیارے پر بھیج دیتے ہیں جو زمین سے لاکھوں نُوری سال دُور ہے۔ اور بعد میں آپ اپنے ہاتھ میں پکڑے مارکر کو اُلٹاتے ہیں۔ یعنی اس کی کیپ کو نیچے کردیتے ہیں تو دوسری کہکشاں پر موجود مارکر کی کیپ کا رُخ خود بخود اُوپرکی طرف ہوجائے گا، یعنی وہ مارکر زمین والے مارکر کے اُلٹ شکل اختیار کرلیگا۔ زمین پر موجود مارکر کے ساتھ جو کچھ بھی پیش آیا، دوسری کہکشاں کے سیارے پر موجود مارکر کے ساتھ بھی وہی کچھ پیش آئے گا۔ بالکل اسی طریقے سے۔ یعنی اگر کوئی تیسری چیز آکر ایک مارکر کے ساتھ انٹینگلڈ ہوگئی یعنی بَندھ گئی تو دوسری کہکشاں پر موجود مارکر بھی اس نئی چیز کے ساتھ بندھ جائیگا یعنی اِنٹینگلڈ (entangled) ہوجائے گا۔ اس بات کو یوں سمجھیں کہ مثلاً آپ کے ہاتھ میں پکڑے مارکر کے ساتھ اگر آپ کا سگریٹ لائٹر اِنٹینگلڈ (entangled) ہوگیا تو دوسری کہکشاں پر موجود مارکر بھی سگریٹ لائٹر کے ساتھ اِنٹینگلڈ ہوجائے گا۔ مزید آسانی کے لیے چشم ِ تصور میں اپنے ہاتھ میں پکڑے مارکر کو ٹرانسفارم ہوتاہوا دیکھیں! تصور کریں کہ مارکر اب سگریٹ لائٹر میں تبدیل ہوگیا ہے۔ تو اِنٹینگلڈ ہونے کی وجہ سے دوسری کہکشاں کے سیارے پر موجود مارکر بھی سگریٹ لائٹر میں تبدیل ہوجائے گا۔ اسی انٹینگلمنٹ کی بنا پر ٹیلی پورٹیشن کے تجربات کیے جارہے ہیں۔ ناسا کے زیراہتمام الیکٹرانوں کو کامیابی کے ساتھ ٹیلی پورٹ کیا گیاہے ۔ کوشش کی جارہی ہے کہ کبھی آبجیکٹس کو بھی ٹیلی پورٹ کیا جاسکے۔ خیر تو یہ تھی اِنٹینگلمنٹ اور یہ مادے اور توانائی کے ہر ذرّے میں ممکن ہے۔ پروٹان، نیوٹران، الیکٹران، فوٹان، سب کے سب اِنٹینگلڈ ہوجاتے ہیں۔ مارکر اور لائٹر کا ذکر فقط مثال کے طور پر ہے۔ فزکس کے ماہرین نے ہمیشہ صرف پارٹیکلز کی انٹینگلمنٹ کے مظاہرے دیکھے ہیں۔ مختصر یہ کہ اِنٹینگلمنٹ سائنس میں ایک ثابت شدہ حقیقت ہے۔
چیشائر کیٹ، فزکس میں بالکل تازہ تحقیق ہے، جس کے مطابق ہم کسی اِنٹینگلڈ آبجیکٹ سے اُس کی صفات کو الگ کرسکتے ہیں۔ ایگزسٹینشلسٹوں کی زبان میں گویا ہم جوہر کو وجود سے الگ کرسکتے ہیں۔ کوئی شئے، ’’ایک مخصوص‘‘ شئے کہلاتی ہی اپنی صفات کی وجہ سے ہے۔ ایک چاقُو کو ہم اس لیے چاقُو کہتے ہیں کیونکہ اس میں چیزوں کو کاٹنے والا ایک بلیڈ لگا ہوتاہے۔ اس کی دستی پلاسٹک کی ہو ، لوہے یا لکڑی کی ہو وہ چاقُو کہلائے گا تو اپنے بلیڈ کی وجہ سے کہلائے گا۔ کوانٹم چیشائر کیٹ کے نظریہ کے مطابق ایک چاقُو سے اس کا بلیڈ اس طرح علحیدہ کیا جاسکتاہے کہ وہاں کوئی چاقُو موجود نہ ہو۔ اس طرح کی باتیں عموماً مِراق کے مریض کیا کرتے ہیں یا ایسے لوگ جن پر جنّات کا سایہ ہو۔ یعنی ایسی باتیں جنہیں سمجھنے کےلیے عام زبان میں کوئی الفاظ موجود نہ ہوں دورِ حاضر کی کوانٹم میں عام پائی جاتی ہیں۔ ’’کوانٹم چیشائر کیٹ‘‘ فزکس کا ایسا ہی ایک مظہر ہے۔
کوانٹم فزکس کےماہرین کو بلّیوں سے بھی خاصا شغف ہے۔ شروڈنگر کی بلّی خاصی مشہور ہے۔ میں اپنے متعدد مضامین میں اس کا ذکر کرچکاہوں کہ کسی پارٹیکل کو جب تک کوئی پیمائش کرنے والا آلہ نہ چھیڑے وہ سُپر پوزیشن پر ہی رہتاہے۔ اگر ایک بکسے میں ایک ریڈیو ایکٹو ایٹم رکھ دیا جائے، جو ڈِی کے (Decay) کرنے کے بعد ایک بوتل سے جاٹکرائے جس میں زہر آلُود دُودھ ہے تو یہ بتانا ناممکن ہے کہ بلی مر گئی یا زندہ ہے۔ اگر یہ بَکسہ بند ہو تو اس ایٹم کا مشاہدہ کرنے والا کوئی آبزرور یا پیمائشی آلہ موجود نہیں ہوگا اور ریڈیو ایکٹو ایٹم سُپر پوزیشن پر ہوگا۔ جب تک کوئی اس ڈبے کو کھول کر نہیں دیکھے گا بلی زندہ بھی ہوگی اور مربھی گئی ہوگی۔ ہم یوں نہیں کہ سکتے کہ ’’بلی زندہ ہے یا مر گئی ہے‘‘ ہم فقط یوں کہہ سکتے ہیں کہ ’’بلی زندہ ہے اور مرگئی ہے‘‘ شروڈنگر کی بلی کی طرح ایک اور بلّی بھی کوانٹم فزکس کے ماہرین کے لیے آج کل خاصی دلچسپی کا باعث بنی ہوئی ہے۔ اِس دوسری بلی کا نام اس مضمون کے عنوان میں بھی دیا گیا ہے۔ یہ ہے، ’’چیشائر کیٹ‘‘۔ چیشائر انگلینڈ کا ایک پرانا گاؤں ہے اور یہ بلی اسی گاؤں کے ساتھ منسوب ہے۔ چیشائر کیٹ کا پہلا تعارف ہمیں لوئس کیرول Lewis Carroll کے ناول ’’ایلسِز ایڈونچرز اِن ونڈر لینڈ‘‘ (Alice’s adventures in wonderland) میں ملتاہے۔ یہ ناول 1865 میں لکھاگیا۔ ایلس (ایک بچی) جب ونڈر لینڈ جا پہنچتی ہے تو وہاں دیگر عجائب کے ساتھ ساتھ اُسے ایک بلّی بھی ملتی ہے۔ یہ بلی کسی جن بھوت کی طرح کا کردار ہے۔ یعنی کبھی غائب ہوجاتی ہے کبھی ظاہر ہوجاتی ہے۔ وہ جب غائب ہونے لگتی ہے تو ہمیشہ پہلے دھوئیں کی شکل اختیار کرتی چلی جاتی ہے اور سب سے آخر میں اس کی مسکراہٹ غائب ہوتی ہے۔ کئی مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ اس کا سارا جسم غائب ہوجاتاہے لیکن اُس کی مسکراہٹ آخر میں رہ جاتی ہے۔ایلس کو آخر کہنا پڑتاہے، “Well! I’ve often seen a cat without a grin but a grin without a cat! It’s the most curious thing I ever saw in my life!” اِس بلی کی یہی مسکراہٹ ہے جس کے ساتھ ہمیں سروکار ہے۔ چیشائر کیٹ کچھ نہیں بس ایک تصور ہے ، اور تصور یہ ہے کہ ایک بلّی جو ایسی ہے کہ جب چاہے خود تو غائب ہوجائے لیکن پیچھے اس کی مسکراہٹ باقی بچ جائے۔ کوانٹم اِنٹینگلمنٹ میں بھی ایک مظہر ایسا ہے جس میں ’’چیشائر کیٹ‘‘ جیسا ایفیکٹ پیدا ہوتاہے۔ یعنی بعض اوقات ایک کوانٹم آبجیکٹ چیشائر کیٹ بن جاتاہے۔ آبجیکٹ خود ایک طرف کو چلا جاتاہے اور اس کی صفات دوسری طرف کو نکل جاتی ہیں۔ کوانٹم فزکس عجیب ہے لیکن چیشائر کیٹ عجیب ترین ہے۔ کیا کسی شئے سے اُس کی صفات الگ کی جاسکتی ہیں؟ کوانٹم چیشائر کیٹ کے مطابق اس سوال کا جواب ہے، ’’ہاں‘‘۔ یہ گویا ایسی بات ہے جیسے کوئی کہے کہ رنگ کو شئے سے الگ کیاجاسکتاہے۔ ہم جانتے ہیں کہ کسی بھی رنگ کو ہمیشہ کسی نہ کسی شئے پر ہی دیکھا جاسکتاہے۔ رنگ کو بطور رنگ ، کبھی بھی الگ نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن جس طرح چیشائر کیٹ اپنے جسم سے اپنی مسکراہٹ الگ کرلیتی ہےبالکل اسی طرح ایک پارٹیکل اپنی پراپرٹیز (صفات) کو اُتار کر ایک طرف رکھ سکتاہے۔
2013 میں کوانٹم فزکس کے ماہر، کیلیفورنیا یونیورسٹی کے ایک اسرائیلی نژاد پروفیسر’’یاکِر اہاررونوف‘‘ (Yakir Aharonov) نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر ایک تجربہ کیا جس کے نتیجے میں انہوں نے بتایا کہ،
’’ایک فوٹان کو اُس کی قطبیت (پولرائزیشن) سے جُدا کیا جاسکتاہے‘‘
پولرائزیشن کیا ہے؟ پولرائزیشن ایک پراپرٹی یعنی صفت ہے جو ہمیں کسی موج (ویو) کی سمت یعنی ڈائریکشن بتاتی ہے۔ اہارونوف اور اس کے ساتھیوں کا کہنا ہے کہ اسی صفت کو فوٹان سے الگ کیا جاسکتاہے۔
اِسی سال ’’ویانا یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی‘‘ کے ایک پی ایچ ڈی کے طالب علم ’’ٹوبی اَس ڈین کمائر‘‘ (Tobias Denkmayr) اور اس کے ساتھیوں نے یہی تجربہ دہرایا اور انہوں نے بتایا کہ،
’’نیوٹرانوں کو اُن کی سپِن (Spin) یا اُس صفت سے جس کی وجہ سے ان میں اینگُولر مومینٹم ہوتاہے، الگ کیا جاسکتاہے‘‘
نیوٹرانوں کو ان کی سپِن سے الگ کرنا گویا یوں کہنا ہے کہ نیوٹرانوں میں سے ان کا مقناطیسی مومینٹم نکال کر الگ کیا جاسکتا ہے حالانکہ کسی نیوٹران کی پہچان اس کا وہی مقناطیسی مومینٹم ہی ہوتاہے کیونکہ نیوٹرانز، نیوٹرل ذرّات ہیں یعنی ان پر کوئی چارج نہیں۔
اہارونوف اور اُس کے ساتھیوں نے اس مظہرِ فطرت کو ’’چیشائرکیٹ ‘‘ کا نام دیا ہے۔ تاہم ’’نیو جرنل آف فزکس‘‘ کے ایک حالیہ پیپر میں ’’راؤل کوریا‘‘ اور اس کے ساتھیوں نے لکھا کہ، ’’کوانٹم فزکس نہایت عجب دنیا ہے۔ اہارونوف اور اس کےساتھیوں نے جس مظہر ِ فطرت کو چیشائر ایفکٹ کا نام دیا ہے وہ بھی دراصل کوانٹم رئلٹی کو سمجھنے کی ایک تشریح ہے۔ اہارونوف اور اُس کے ساتھیوں، اِسی طرح ’’ٹوبی اَس ڈین کمائر‘‘ اور اُس کے ساتھیوں نے جو تجربہ کیا وہ سوفیصد درست تھا۔ لیکن انہوں نے اپنے تجربے کی جو وضاحت شائع کی وہ اُن کی اپنی تشریح ہے ، اس کے علاوہ بھی تشریحات ممکن ہیں کیونکہ یہ کوانٹم فزکس ہے‘‘ ۔
القصہ! غیر سائنسی ذہن کے لیے اتنا جان لینا کافی ہے کہ کوانٹم چیشائر کیٹ کے مطابق اگر پارٹیکلز کے راستے میں ایک خاص قسم کا پیمائش کرنے والا آلہ رکھ دیا جائے تو پارٹیکلز سے ان کی صفات جُدا ہوکر سفر کرنے لگتی ہیں۔ یہ انسانی علوم کی تاریخ میں پہلا موقع ہے کہ کسی نے مادی اشیأ میں صفات کو شئے سے الگ دیکھنے کا دعویٰ کیا ہے جو کہ ایک ناممکن سی بات ہے۔
کوانٹم فزکس کو شروع ہوئے ابھی پوری ایک صدی نہیں گزری۔ بہت حیرت ہوتی ہے یہ سوچ کر کہ کل کو کیا ہوگا؟ کوانٹم فزکس کیا کرے گی؟ کوانٹم کمپیوٹر کیا کریگا؟ انسان کیا سے کیا بنتا جارہاہے۔
خیر! اب رہ گیاہے چیشائر کیٹ مظہر کو وضاحت کے ساتھ بیان کرنا۔ یعنی جب پیمائش کرنے والے آلات کی موجودگی میں انٹینگلمنٹ کا مظہرہ چیشائر ایفیکٹ کا مظاہر کرنے لگتاہے تو پارٹیکل کا سپن اور پولرائزیشن کس طرح پارٹیکل سے الگ ہوجاتے ہیں۔ میرا ارادہ ہے کہ آسان گرافس استعمال کرتے ہوئے اس کی حتی المقدور عام فہم زبان میں وضاحت کروں۔ وہی اگلا مرحلہ ہے۔ مزید برآں میں سمجھتاہوں کہ ایک تفصیلی بلکہ نہایت تفصیلی مضمون پہلے پارٹیکل کے سپِن پر بھی آنا چاہیے۔ جو الگ سے ہو۔ پارٹیکل کا سپِن جو فقط نام کا سپِن ہے سپِن کیونکر کہلاتاہے اور کسی پیمائش کرنے والے آلے میں سے کس طرح کے زاویے بناتا ہوا گزرتاہے اور یہ کہ کسی اینگل پر سپِن کی پیشگوئی کیونکر ممکن نہیں ہوتی۔
https://www.facebook.com/notes/idrees-azad/cheshire-cat/10207097823270860/
“