(Last Updated On: )
گھر میں ہفتے بھر سے مرگ جیسی خاموشی طاری ہے۔ جیسے یہاں کوئی ذی نفس نہیں بستا بلکہ سرگوشیاں کرتے گھٹتے بڑھتے سائے ایک دوسرے پر گِرے جاتے ہیں۔ اب سب اتنے خوش نصیب بھی کب کہ مرگ ہی ہو جاتی اور کُھل کے رو لیتے۔ کمبخت زندگی موت جتنی مہربان بھی تو نہیں کہ زندگی کی مار سہنے والا تو آہ و فغاں جوگا بھی نہیں رہتا۔ انسان بھی کیسا بے بس مختار ہے کہ نہ
ہی من مرادی موت پہ اختیار اور نہ ہی دل پسند زندگی پہ دسترس۔
یہ مؤذن تمیز الدین کا گھرانہ تھا، عشرت جس کی بیری اور عسرت گہری سہیلی تھی۔ اس گھرانے پر تواتر سے اللہ تعالیٰ کی رحمت کا نزول رہا اور اولاد نرینہ کی چاہ میں چھاتی پہ چار پہاڑ جیسا بوجھ اور کوکھ میں روگ پال کر بی بی مؤذن مزید بچہ جننے کے قابل نہ رہیں ۔ ککڑی کی بیلوں نے راتوں رات آنگن کی شکستہ دیوار سے قد نکال کر مؤذن تمیز الدین کی رات جاگ کر دی۔ گھر میں پھیلی افلاس کی پیلی پھیکی دھوپ میں مٹھی بھر تنخواہ چھ جانوں کا آدھا ادھورا پیٹ بھر کر ہی اڑنچھو ہو جاتی۔ نہ پیٹ کو پوری روٹی اور نہ ہی تن کو ڈھنگ کا کپڑا نصیب، سب کچھ کچی نیند میں دیکھے گئے سپنے جیسا ادھورا۔
اب جانے یہ بی بی مؤذن کی اوس میں بھیگی نیم شبوں کی مناجاتوں کا اثر تھا یا بڑے پیر کی کرامت کہ بڑی کے بھاگ کھلے اور قمر سلطانہ بتیس روپیہ سکہ رائج الوقت کے عوض ایک کھونٹے سے دوسرے کھونٹے پر باندھی گئی ۔ سراج معقول صورت اور جیب میں مناسب مال و منال بھی پر بلا کے متلون مزاج کہ ناراضی ہو یا محبت اسے جھیلنا قمر سلطانہ کے جسم ہی کو پڑتا تھا، چاہے وہ بدن پر نیل ہوں یا بنفشی داغ۔ دن بھر کی مشقت تو میکے میں بھی مقدر تھی مگر میاں کا گھر اور بھی دھنوان نکلا کہ اب مشقت ڈبل کہ دن کے ساتھ ساتھ نائٹ شفٹ بھی۔ میاں ٹھہرے سر کا تاج سو مزاج شاہانہ اور برتاؤ جاہلانہ اور قمر کے منہ پہ چپ کا تالا کہ اب وہ قمر سلطانہ نہیں بلکہ گھنی فقیرنی قمرن تھی، جیسے بات بے بات اس کی اوقات یاد دلائی جاتی۔ قمر سلطانہ کو باپ کے گھر کی پھیکی چائے اور روٹی کی یاد بہت کرلاتی کہ وہاں نہ جسم داغدار تھا اور نہ ہی روح پر آزار۔
قمر سلطانہ دو بار ہری ہوئی پر گائے تو نہ تھی کہ بچھیا جننے پر خوشی منائی جاتی سو ہر بار اللہ کی رحمت کی آمد کے ساتھ ہی سسرال والوں کے منہ کا زاویہ بگڑا اور ساتھ ہی قوام اپنی جنت کو خوش کرنے کے لیے اپنے تکمیل ایمان پر مزید ہاتھ چھٹ بھی ۔
جب آگے کنواں اور پیچھے کھائی ہو تو بہتری اسی میں ہے کہ رہٹ کے بیل کی طرح آنکھوں پہ کھوپا چڑھا کر گول گول گھومتے رہو۔ قمر سلطانہ جیسے پیدا ہوتے ہی مؤذن تمیز الدین کے گھر صبر کی گھٹی چٹائی گئی تھی اور جس کے پلو میں ابھی تک رخصتی کے سمے ماں کی باندھی گئی نصیحتیں بندھی تھیں، وہ ہزار جتن اور منت مرادوں سے اپنے گھر کو بسانے میں اپنا آپ بسرائے ہوئے تھی پر ہونی کب ٹلتی ہے اور بہانہ بنا نمک۔ اب جانے یہ قمرن کا پھوہڑ پن تھا یا سوئی دبی خواہش کہ شادی شدہ زندگی میں نمک نام کو بھی نہ تھا اور اس ڈھلتی شام ناشدنی سے سالن میں نمک تیز ہو گیا اور نازک مزاج سرتاج کی زبان سے ادا ہونے والے تین تیر عین نشانے پہ جا بیٹھے۔ قمر سلطانہ سود سمیت میکے واپس لوٹا دی گئی اور تمیز الدین جو چھاتی سے دوسرا بوجھ سرکانے کو ہاتھ پیر مار رہے تھے، یکایک سینے پر مزید تین سلیں لاد کر بالکل ہی گھٹ گئے۔ میکے میں پٹس تو پڑنی ہی تھی کہ جہاں چھاتی پہ دھری سلوں میں اضافہ ہوا وہیں خوراک کے شراکت دار بھی آ گئے تھے۔ ان دنوں منجھلی جلی بھنی پھرتی کہ قمر کے قضیے کے سبب اس کی شادی میں اڑنگا لگ گیا تھا۔
بند کمرے میں اماں نے قمر سلطانہ کو خوب کچوکے دیے کہ نامراد یہ سب تو شادی شدہ زندگی میں چلتا ہی رہتا ، میاں غصے میں کیا کچھ نہیں کہتا۔ بھئ یہ تو سیدھا سیدھا شیطان کا وار ہے پر تجھے کیا مار پڑی تھی بچیوں کو لیکر واپس میکے لوٹنے کی، وہیں مر رہتی۔
اماں نے اس کی چوٹی کو بل دیتے ہوئے اسے بری طرح جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔
اماں سراج نے سب کے سامنے مجھے تین طلاقیں دی ہیں !
اے ہے تو تین طلاق ہی دی تھی نا! کوئی بھالا تو نہیں مار دیا تھا، اور اکٹھی دی گئی تین طلاقیں تو ایک ہی شمار ہوتی ہیں۔
اماں نے اچانک ہی فقیہہ کا روپ دھار لیا۔
قمرن حق دق کھڑی کی کھڑی اماں کا منہ دیکھتی رہ گئی، کیا کہہ رہی ہو اماں؟
اتنے بنیادی مسئلے مسائل تو میں بھی جانتی ہوں۔
بڑی آئیں کہیں کی سیانی ملانی، ارے نامراد !اب ہم لوگ کیا کریں؟
یہ کہہ کر اماں نے ساری کے پلو سے منہ ڈھانپا اور پھپک کر رونا شروع ہو گئیں۔
قمر سلطانہ کی گھر واپسی کی خبر برادری میں کھل چکی تھی اور پُرسے کے لیے آنے والوں نے جہاں گھر کی وحشت میں اضافہ کیا وہیں ابا کی کمر کا خم بھی روز بروز نمایاں ہوتا گیا۔ آنے والے اپنی باعث آزار موجودگی کے ساتھ ساتھ نت نئے تبصرے و مشورے سے نوازنا اپنا حق جانتے تھے۔
ادھر سسرال میں چونکہ اب کوئی بے دام غلام نہیں رہا تھا سو وہاں بھی تھرتھلی مچ گئی اور معمولات زندگی بری طرح متاثر کہ مفت کی بیگار میں جتی خادمہ ہاتھوں سے نکل گئی ۔ معاملہ بھی چونکہ برادری کا تھا سو لوگوں کے سوالات سے بچنے کے لیے اب سسرال کی طرف سے بھی حبس بے جا کے قیدی کی واپسی کے اصرار نے زور پکڑا، اور ہیر پھیر کہ وہی کہانی کہ بھئ غصہ آ گیا تھا، مرد ہے، باہر کا غصہ جورو پر نہیں نکالے گا تو کیا پڑوسی کی لغائی کی چٹیا پکڑے گا؟ خلاصہ یہ کہ مورد الزام ٹھہرایا گیا مظلوم شیطان، مگر مسئلہ سارا ان بے خطا تیروں کا تھا جو اپنے مطلوبہ ہدف پر پیوست تھے۔ معاملہ شاید دین کا نہ ہوتا تو اتنا تردد بھی نہ ہوتا مگر سمدھی بھی مؤذن تمیز الدین سو مذہب نے بڑا پاکھنڈ مچایا اور مجازی خدا کے غصے کی ساری تاویلیں بے سند و مجاز ہی ٹھہریں۔
میکے سسرال دونوں جگہ سب نے ایک ہی نکتے پر اتفاق کیا اور وہ تھا حلالہ مگر اس تمام مشورے و فیصلے میں قمرن کہیں بھی نہیں تھی۔ وہ جسے ساری اذیت اپنی ذات پر جھیلنی تھی وہی فیصلہ لینے کی مجاز نہیں۔ وہ اس مکروہ فعل پر قطعاً راضی نہ تھی مگر اماں نے اسے صاف صاف جتا دیا کہ اس کے پاس دوسرا کوئی اور راستہ نہیں کہ ابھی اماں کو اپنی تین بن بیاہی بھی بیاہنی ہیں اور وہ مزید تین کا بوجھ ڈھونے کی متحمل نہیں۔ سو عافیت اسی میں ہے قمرن بی بی کہ تم چپ چپاتے یہ کڑوے گھونٹ پی لو۔
ابا اب اس مسئلہ کی تدبیر میں مسجد مسجد اور مدرسے مارے چلتے اور ہر دروازے سے ایک ہی لفظ حلالہ اور اس کا اونچا نرخ نامہ سن کر شرم سار شام ڈھلے تھکے ہارے گھر لوٹ آتے۔ آج اس قضیے کو چوتھا مہینہ لگنے کو ہے، اماں نے رشتے داروں کو قمر سلطانہ کی صرف دو ہی طلاقوں کا بتایا ہے اور لاوے جیسی دہکتی حقیقت چھپا گئی ہیں۔ اب اس کی سسرال بھی زور شور سے یہی راگ الاپ رہی تھی اور ان کی پوری کوشش ہے کہ مردہ قمرن ہی پر لاد دیا جائے ۔ ساس سب کو یہی دکھڑا سناتیں کہ بھئ تھکا ہارا مرد سکون سے دو نوالے بھی نہ کھا سکا سو غصہ میں زبان پھسل گئی ۔ سراج تو بسانا چاہ رہا ہے کہ دو ہی طلاقیں تو دیں تھیں مگر قرب قیامت کی نشانی دیکھو کہ بی بنوں کا دماغ ساتویں آسمان پر ہے اور وہ نہیں مانتی۔
کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا
وہ حرماں نصیب اس وقت کی دہشت و کلفت سے لرزاں و ترساں پیلی پھٹک ہو رہی ہے جو تیزی سے دانت نکوسے اس کی جانب بڑھتا چلا آ رہا ہے۔ گو کراچی بہت وسیع شہر ہے مگر ابا جی اس کام کے لیے کوئی دوسرا شہر چاہتے ہیں تا کہ کم سے کم چرچا ہو۔ سچ ہے جس پر کڑا وقت پڑتا ہے وہی اس کے مضمرات جانتا اور بھگتتا ہے۔ یہ تو اب جانا کہ یہ مکروہ فعل ایک منظم اور منافع بخش کاروبار ہے اور اس کے باقاعدہ ریٹ طے ہیں اور عمل کے لیے بندے بھی مقرر ۔ اس قبیح عمل کو مذہب کے ٹھیکیداروں ہی کی پشت پناہی حاصل ہے۔ بڑے شہروں میں لاکھ اور چھوٹے شہروں میں کم سے کم نرخ پچیس ہزار روپے ، پکے کاغذ کی یقین دہانی کے ساتھ۔
بڑی تگ و دو کے بعد حیدرآباد کی کچی آبادی کی مسجد کے امام نے ابا کی مشکل آسان کی اور بہت کہہ سن کر اور ابا کے مؤذن ہونے کے سبب، ابا کو خصوصی رعایت ملی اور قمر سلطانہ کی پائمالی کی قیمت ٹھہری چھتیس ہزار۔
وہ بد نصیب موت کے لیے شدت سے دعا گو مگر اس حقیقت سے بھی بخوبی آگاہ کہ قسمت اچھی ہوتی تو موت تبھی نہ آ جاتی۔
رات ڈھکارتا ہوا کمرے میں کون آیا، وہ نہیں جانتی پر یقینی طور پر وہ کوئی خون آشام بھیڑیا تھا کہ تمام رات وہ اپنی آنکھیں بھینچے لب پہ اپنے دانتوں کو سختی سے گڑائے اپنی کراہیں و سسکاریاں گھونٹتی رہی۔ اس کی روح تو شرم سار تھی ہی مگر صبح تک جسم کے ہر مسام سے درد رس رہا تھا۔ واپسی میں بس کا ہر ہچکولہ تازیانہ تھا، گویا بجلی کا جھٹکا۔ وہ برقعے کے دونوں نقاب گرائے، دونوں ہاتھوں سے بس کی سیٹ کے سامنے والے راڈ کو مضبوطی سے جکڑے اپنی چیخوں پر قابو رکھنے کی حتی المقدور کوششوں میں ہلکان تھی۔
میں اس کے کمرے کی شہتیر میں پلتی قمری ، اس کا دکھ جیسے میرے ننھے سے دل میں اتر گیا اور جو سچ پوچھو تو میں بدنصیب یہ سمجھنے سے قطعی قاصر کہ اللہ کے نائب نے اسی رب کی دی گئی سہولت کو توڑ موڑ کر اتنا قبیح و مکروہ کیسے بنا دیا ؟
مجھے تو قمر سلطانہ پر رحم آ رہا ہے، کیا کچھ بیت گئی اس غریب پر اور اب نہ جانے کیا کیا ستم سہنا باقی ہے۔ ہمیشہ عورت ہی کے مقدر میں اگنی پریکشا کیوں؟
بنت حوا کے الم کبھی کم ہوں گے بھی یا نہیں؟
میرا جی تو انسانوں کی اس وحشت ناکی سے تھرا گیا سو اب کہیں اور ہی ٹھکانہ ڈھونڈنا ہو گا ۔ کراچی میں اب ویسے بھی شہتیر والے گھر کم کم سو ہم قمریاں بھی خال خال۔ بس اب تو شہروں میں سیاہ پوش کائیں کائیں کرتے کوؤں کا راج ہے اور سچ ہے بھئ، انسانوں کو بس اب کوّے ہی راس۔