قائداعظم سے کپتان اعظم تک
آج سے جشن آزادی کا ہفتہ شروع ہوچکا ہے، ملک کے تمام ٹی وی چینلر نے اپنے لوگو کو سبز پرچم کے رنگ میں رنگ لیا ہے، یہ روایت صرف ہمارے ہاں ہی رائج ہے، دنیا کا شاید ہی کوئی اور ملک ہو جہاں اس طرز کی ڈرامہ بازی کی جاتی ہو۔
اس مرتبہ جشن آزادی پر شاید کچھ زیادہ ہی جوش و خروش دیکھنے کو ملے، کہ ملک کے نوجوانوں کی اکثریت عمران خان کی جیت کو لے کر کافی جذباتی دکھائی دیتی ہے۔
ابھی عمران خان کی جماعت کو پارلیمنٹ میں سادہ اکثریت بھی حاصل نہیں ہوئی تھی، لیکن ہمیشہ سے جلدبازی کا مظاہرہ کرنے والے عمران خان بحیثیت وزیراعظم کے امیدوار کے اپنا خطاب بھی کرچکے ہیں، اور اس خطاب میں بیان کیے گئے کئی ایک نکات سے اب تک یوٹرن بھی لے چکے ہیں۔
خان کے پیروکار، پرستار اور پجاری انہیں قائداعظم کے رتبے کا لیڈر ثابت کرتے آئے ہیں۔
ہمیں بھی اس دعوے پر کوئی اعتراض نہیں ہے، اس لیے کہ بانیٔ پاکستان محمد علی جناح کی شعوری سطح بھی عمران خان جتنی ہی تھی۔ جناح کے پجاریوں سے معذرت کے ساتھ یہ بھی ممکن ہے کہ عمران خان کی شعوری سطح اور اس کا وژن قائداعظم سے بڑا ہو۔
گاندھی اور برصغیر کے دیگر کئی رہنماؤں کی طرح ان کی آبیاری بھی ولایتی گملوں میں ہوئی تھی۔ ان کا طرز بود وباش، رہن سہن، لباس اور مزاج برطانوی تھا، جو کسی طور بھی برصغیر کے مقامی لوگوں سے مشابہت نہیں رکھتا تھا۔
حقیقت تو یہ ہے کہ انہوں نے کبھی بھی انگریزوں کے ساتھ اپنے روابط نہیں توڑے تھے۔
اپریل 1947ء میں قائداعظم نے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے ساتھ ایک اپنی بات چیت میں کہا تھا:
’’مجھے ابھی اس کی کوئی فکر نہیں کہ آپ مجھے (پاکستان کا رقبہ) کتنا کم دیتے ہو، جب تک کہ آپ مجھے پورے کا پورا (پاکستان) نہیں دے دیتے۔ میں آپ کو کوئی بھی نامعقول مشورہ نہیں دینا چاہتا لیکن آپ کو یہ خیال رکھنا ہوگا کہ نیاپاکستان برطانوی سلطنت سے اس کا زیرنگین رہنے کا خواہشمند رہے گا‘‘۔
اس وقت تقسیم کے حوالے سے ان کے جوش و جذبے کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے اگست 1946ء میں کہا تھا:
’’یا تو ہندوستان تقسیم ہوگا یا یہ تباہ ہو جائے گا‘‘۔
وہ لوگ جو تاریخی حقائق کا علم رکھتے ہیں، وہ اس بات کی تائید کریں گے کہ اس وقت قائداعظم نے اپنے دیرینہ موقف سے ایک واضح یو ٹرن لیا تھا۔
اس لیے کہ یہی مسٹر جناح تھے کہ جنہوں نے 1933ء میں والڈروف ہوٹل لندن میں کیمبرج یونیورسٹی کے طالب علم رحمت علی کی طرف سے دی گئی دعوت کے دوران پاکستان نام کے ملک کی تجویز پر طنزیہ قہقہہ لگایا تھا….. اور صرف یہی نہیں بلکہ برطانوی پارلیمنٹ کی جوائنٹ سلیکشن کمیٹی کے اجلاس میں بات چیت کرتے ہوئے ہندوستان کی تقسیم یا مسلمانوں کے لیے ایک الگ ملک کے تصور کو انتہائی بچگانہ خیال اور ناقابل عمل تصور قرار دیا تھا۔
تقسیم ہندوستان اور قیام پاکستان کے دوران لاکھوں انسانوں کی ہلاکت کے المیہ سے بے خبر مسلم لیگ کے زعماء نئے ملک کے اقتدار کی رسّہ کشی میں مصروف تھے۔ جبکہ قائداعظم نے تمام اختیارات اپنے ہاتھ میں لے کر باقی سب کو ڈگڈگی پر ناچنے والا بندر بنا دیا تھا، وہ ناصرف گورنرجنرل تھے، بلکہ پارلیمنٹ کے اسپیکر بھی، یعنی ان کی مرضی کے بغیر کوئی بھی فیصلہ ممکن نہیں تھا، چاہے اکثریت اس کے حق میں ہی کیوں نہ ہو۔
پاکستان کے قیام کے بعد بھی قائداعظم یوٹرن لینے کی عادت کو ترک نہیں کرسکے، انہوں نے گیارہ اگست کی تقریر میں جہاں پاکستان میں سیکولر نظام کی بات کی تھی، اس کے بعد اور اس سے پہلے اسلامی نظام اور پاکستان کو اس نظام کے لیے تجربہ گاہ بنانے کی باتیں بھی کرتے رہتے تھے۔ انہوں نے کہاں کب اور کیا کہا، اس کے لیے کتابیں بھری پڑی ہے، زحمت کیجیے اور ایک ٹائم لائن تیار کرلیجیے، آپ خود ان کے یوٹرن لینے کی عادت کا مشاہدہ کرلیں گے۔
کرسٹینا لیمب نے اپنی مشہور کتابWaiting for Allah: Pakistan's Struggle for Democracy میں لکھا ہے کہ:
’’اگر مسٹر جناح زندہ ہوتے تو پاکستان کے سخت گیر اسلامی قوانین کے تحت اب تک سزا پا چکے ہوتے۔‘‘
کرسٹینا لیمب نے قائداعظم کو ایک سرد مزاج قوم پرست قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ وہ ابتداء میں مولانا محمد علی جوہر کے برعکس مذہب اور سیاست کو کسی بھی صورت ایک دوسرے سے منسلک یا نتھی کرنے کے خلاف تھے اور جو 1930ء کی دہائی کے وسط سے ہی اس بات کو فخر سے بیان کرتے رہے تھے کہ وہ پہلے ہندوستانی ہیں اور بعد میں مسلمان…. انہی مسٹر جناح نے بعد ازاں ملاؤں کے نعروں کو خود اپنے مستقبل سمیت مسلمانوں کے کاروباری طبقے اور جاگیردار اشرافیہ کے محفوظ مستقبل کا آسان رستہ سمجھ لیا تھا۔
سچ تو یہ ہے کہ برصغیر کے انگریز حکمرانوں نے مسلم لیگ سمیت بہت سی اسلامی جماعتوں اور گروہوں کو بھی ہندوستان کے عام لوگوں کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم کرنے کے لیے تخلیق کیا اور انہیں اپنے مقاصد کے لیے بھرپور طریقے سے استعمال کیا۔
1932ء میں سر تھیوڈور موریسن جو محمڈن اینگلو اورینٹل کالج علی گڑھ کے سابق پرنسپل رہ چکے تھے، نے مذہب کی بنیاد پر علیحدگی کے حق میں ایک متاثر کن مضمون لکھا تھا۔ اس مضمون میں اس نے ایک صوفیانہ طرز کا خاکہ پیش کیا تھا جو آگے چل کر مسلمانوں کے ایک الگ قوم کے تصور کی بنیاد بنا۔
سرتھیودور موریسن نے لکھا تھا:
’’ہندو اور مسلمان لگ بھگ اسی طرز کی دو مختلف قومیں ہیں جیسی کہ دو مختلف یورپی قومیں۔ مسلمان قوم کسی طور بھی ایک بیگانی حکومت کے تحت زندگی نہیں گزار سکتی۔ خاص طورپر ایک ایسی نام نہاد جمہوری حکومت کے تحت جو اپنے شہریوں کے ساتھ امتیاز برتتی ہو۔ مسلمانوں کو اس بات کی ضمانت دی جانی چاہیے کہ وہ اپنی تہذیبی صفات وخصوصیات کے تحفظ کے لیے خود کو تنہانہ سمجھیں۔‘‘ (سر جان کمنگ، پولیٹکل انڈیا، (آکسفورڈ)، 1932ء)
جب موریسن یہ نظریہ پیش کررہا تھا، اسی دوران قائداعظم نے کانگریس سے علیحدگی اختیار کرلی تھی۔ یعنی اس گیم پلان کا آغاز ہوچکا تھا، جس کی بنیاد فورٹ ولیم کالج میں رکھی گئی تھی۔ (جاری ہے)
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“