تحریک پاکستان کا پس منظر دیکھیں یا قیام پاکستان کے بعد کا منظر سردار عبدالرب نشتر کو حضرت قائد اعظم کے رفقاءمیں شہید ملت لیاقت علی خان کے بعد کلیدی حیثیت حاصل تھی ۔ یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ حضرت قائد سردار نشتر پر لیاقت علی خان کی طرح اعتماد اور یقین رکھتے تھے ۔بلاشبہ سردار صاحب کی تمام زندگی احیائے اسلام تحریک پاکستان اور استحکام پاکستان کی جدوجہد میں بسر ہوئی۔
سردار عبدالرب نشتر 13جون 1899ءکو پشاور کے ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے ۔ اس نسبت سے 13 جون ان کا یوم ولادت ہے ۔ انہوں نے 1918ءمیں مشن ہائی سکول سے میٹرک اور ایڈورڈ کالج سے گریجوایشن کے بعد علی گڑھ یونیورسٹی میں ایل ایل بی میں داخلہ لیا جہاں انہیں اس دور کی عظیم اور متحرک شخصیت مولانا محمد علی جوہر سے ملاقات ہوئی ۔ جن کے ساتھ تحریک خلافت میں بڑھ چڑھ کر حصہ ہی نہیں لیا بلکہ مولانا کے جوہر خطابت سے پوری طرح فیض یاب ہوئے۔آپ نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایل ایل بی کی ڈگری 1925 میں حاصل کی۔
اۤپ 1927 سے 1931 تک آل انڈیا کانگریس کے رکن رہے اور 1929 سے 1938 تک پشاور میونسپل کمیٹی کے کمشنر رہے۔ بعد میں اۤپ نے 1937 میں آل انڈیا مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی اور بعد میں آل انڈیا مسلم لیگ کی کونسل کے رکن بنے۔اپنے اعلیٰ کردار و افکار کے باعث جلد ہی حضرت قائد کے بااعتماد رفقاءمیں شامل ہوگئے ۔یہ وہ دور تھا جب صوبہ سرحد میں سرخ پوشوں کا غلبہ تھا اور مسلم لیگ کی خاطر خواہ پوزیشن نہ تھی ۔ سردار صاحب نے نہ صرف صوبہ سرحد میں مسلم لیگ کی تنظیم نو کا بیڑا اٹھایا بلکہ برصغیر کے گوشہ گوشہ میں جا کر حضرت قائد اعظم کا پیغام پہنچانے میں مصروف عمل ہوگئے ۔ آپ مشرقی مغربی پاکستان کے دونوں حصوں میں یکساں مقبول شخصیت تھے۔ یہ ایثارو اخلاص آپ کے مزاج کا خاصا تھا۔ عام مسلم لیگی کارکنوں سے رابطے میں رہتے ان کی خوشی و غم میں شامل ہوتے
صوبہ سرحد میں 1935ء ایکٹ کے تحت جو انتخابات ہوئے اس کے پہلے وزیراعلیٰ صاحبزادہ عبدالقیوم خان یکم اپریل 1937ء سے لے کر 7 ستمبر 1937ء تک تھے۔ انہوں نے تین رکنی وزارت بنائی۔ کانگریس کی سازش کے تحت آپ کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی۔ لہٰذا ڈاکٹر خان صاحب کانگریس پارٹی وزیراعلیٰ بن گئے۔ کانگریس ہائی کمان کے ایک فیصلے کے تحت ہندوستان میں صوبائی وزارتیں مستعفی ہوگئیں تو مسلم لیگ نے 22 دسمبر 1939ء یوم نجات منایا۔ آسام، بنگال، سندھ اور سرحد میں مسلم لیگ کی وزارتیں اور حکومتیں تشکیل دی گئیں۔ سردار اورنگزیب وزیراعلیٰ ہوئے اس میں سردار عبدالرب نشتر وزیر مالیات مقرر ہوئے۔ سردار اورنگ خان نے تیسرے وزیراعلیٰ کی حیثیت سے 25مئی 1945ء سے 16 مارچ 1945ء تک حکمرانی کی۔ خان عبدالقیوم خان نے 23 اگست 1947ء کو بحیثیت چوتھے وزیراعلیٰ سرحد کا حلف اٹھایا۔ آپ 13 اپریل 1953ء تک سرحد کے وزیراعلیٰ رہے۔
1946ء میں لارڈ ویول وائسرائے ہند نے مرکز میں سیاسی جماعتوں پر مشتمل عبوری حکومت تشکیل دینے کا اعلان کیا۔ اس میں مسلم لیگ نے شمولیت کرنے سے معزوری ظاہر کی بعد میں وائسرائے ہند نے یقین دہانی کرائی تو مسلم لیگ کے پانچ ارکان نے وزارت کا حلف اٹھایا۔ سردار عبدالرب نشتر کو وزارت مواصلات کا قلمدان سونپا گیا۔
سردار عبدالرب نشتر کی زندگی ایک باکردار زندگی تھی۔ ان کی سیاست پاکیزہ، بے لوث، بندگان خدا کی خدمت سے سرشار، اصولوں پر مضبوطی سے قائم رہنے والی سیاست تھی۔ ان کے دوست دشمن سبھی کہتے ہیں کہ وہ دیانتدار تھے،ایثار پیشہ تھے،لسانی اور فرقہ بندی سے یکسر پاک اور آزاد تھے، غیر متعصب تھے،جمہوریت اور قانون پسند تھے، سردار عبدالرب نشتر عام لوگوں کے حالات معلوم کرنے کےلئے خود انہی کے پاس تشریف لے جاتے تھے۔ شاہی قلعہ لاہور کا مرکزی دروازہ طویل عرصے سے بند پڑا تھا اور انگریز اسے اسلامی فن تعمیر سے تعصب کی بنا پر عام لوگوں کےلئے نہیں کھولتے تھے لیکن قیام پاکستان کے بعد سردار عبدالرب نشتر نے ہی اسے کھلوایا۔
سردار عبدالرب نشتر نے ہندوﺅں کی جانب سے مسلمانوں کو ہندو بنانے کی شدھی اور سنگھٹن تحریکوں کے مقابلے کےلئے ادارہ تبلیغ اسلام بنایا۔ پنجاب مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس سیالکوٹ میں قائداعظم محمد علی جناح نے انگریزی میں تقریر کی۔ اس کے بعد سردار عبدالرب نشتر کو اس کا اردو میں ترجمہ کرنے کی دعوت دی گئی چنانچہ آپ نے نہایت فصیح و بلیغ اردو میں اس کا ترجمہ کیا۔ بعد ازاں قائداعظم نے سردار عبدالرب نشتر کو بلوا کر ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے میری تقریر کا رواں ترجمہ کر کے اس کا حق ادا کر دیا۔
1946ء کی شملہ کانفرنس میں قائداعظم اپنے ساتھ جن تین مسلم لیگی رہنمائوں کو لے کر گئے ان میں سردار عبدالرب نشتر بھی تھے۔جب ہم کہتے ہیں کہ وہ قائداعظم کے شیدائی تھے تو اس کی مثال شملہ میں 1946ء کی منعقد ہونے والی کانفرنس کا ایک تاریخی واقعہ یوں ہے کہ وائسرائے ہند لارڈ دیول صدارت کررہے تھے۔ کانگریس کے رہنما جن میں مہاتما گاندھی، پنڈت جواہر لعل نہرو اور سردار پٹیل جو کٹر ہندو مہاسبھائی ذہنیت رکھتے تھے ان کا پورا نام سردار ولبھ بھائی پٹیل تھا، ولبھ پٹیل دوران گفتگو غیرشائستہ الفاظ قائداعظم محمد علی جناح صد رآل انڈیا مسلم لیگ کے بارے میں استعمال کرنے ہی والا تھا کہ سردار عبدالرب نشتر نے اس گستاخ کو عملاً وہ مزہ چکھایا کہ ساری زندگی نہیں بھول پایا۔ قائد کا یہ جان نثار سپاہی باز کی طرح لپک پڑا۔
10 اگست 1947ء کو پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کی حلف برداری کی تقریب میں جن 53 آدمیوں نے رکنیت کے رجسٹر پردستخط کیے ان میں سردار عبدالرب نشتر بھی تھے۔
سردار عبدالرب نشتر کا اہم کردار قرارداد مقاصد کی منظوری ہے۔ یہ قرارداد پاکستان کے آئین کا حصہ ہے۔ قیام پاکستان کے بعد سردار عبدالرب نشتر پہلی کابینہ میں وزیر مواصلات بنے۔ یہی وہ کا بینہ تھی جس نے میانوالی ہائیڈل پاور پراجیکٹ کی منظوری دی تھی جو بعد ازاں کالا باغ ڈیم منصوبہ کہلایا۔
پنجاب میں جب ممدوٹ دولتانہ چپقلش سے مسلم لیگ کو ضعف پہنچاتو گورنر پنجاب کےلئے سردار عبدالرب نشتر ہی غیر متنازعہ اور قابل قبول ہستی مانے گئے۔
سردار عبدالرب نشتر پنجاب کے دوسرے گورنر تھے۔ بطور گورنر پنجاب آپ2 اگست 1949 تا24 نومبر1951ء فائز رہے۔بطور گورنر پنجاب آپ کے روز و شب مثالی ہی نہیں قابل تقلید بتائے جاتے ہیں ۔ اس دوران ایچی سن کے پرنسپل نے آپ کے بچوں کو ایچی سن میں داخلے کی پیشکش کی تو سردار صاحب نے انکار کرتے ہوئے سینٹرل ماڈل سکول میں داخل کرویا ۔ لاہور کی بڑی مساجد میں تشریف لے جاتے اور عوام کے مسائل سنتے ۔ اسی طرح شاہی قلعہ لاہور کا مرکزی دروازہ عرصہ دراز سے بند تھا ۔ انگریز مسلم فن تعمیر سے تعصب کے باعث عام لوگوں کےلئے نہیں کھولتے تھے مگر سردار صاحب نے اسے کھولنے کا حکم جاری کیا۔
جناب سردار عبدالرب نے شعر و سخن کیلئے اپنا تخلص ”نشتر“ تجویز کیا۔ یہ وہ نشتر تھا جو اصلاح معاشرہ کا کام دیتا تھا۔ یہ وہ نقد و نظر تھی جو اپنی آنکھ کے شہتیر دکھاتی تھی تاکہ پہلے خود احتسابی کی تربیت ہو جائے۔ ایسے ہی لوگ امن و سلامتی کے پیکر ہوا کرتے ہیں اور مر کر بھی نہیں مرتے۔
قائد اعظم کے دیرینہ ساتھی اور تحریک پاکستان کے عظیم رہنما سردار عبدالرب نشتر نے 14 فروری 1958ء کی صبح کراچی میں وفات پائی۔ شام ساڑھے پانچ بجے جہانگیر پارک میں مولانا احتشام الحق تھانوی نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی اور رات قریباً 8 بجے آپ کو مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کے کہنے پر مزار قائد کے احاطے میں دفن کیا گیا۔ انہوں نے کہاکہ ہمیں سردار عبدالرب نشتر جیسے عظیم لوگوں کے نقش قدم پر چلنا چاہئے۔
سلامتی ہو ان کے دنیا میں آنے پر
اور سلامتی اور رحمت ہو تاقیامت ان کے مرقد پر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انتخاب و پیشکش
نیرہ نور خالد