قائد اعظم اردو ہی نہیں، فارسی بھی جانتے تھے
ان کے بزرگ ساہیوال کے تھے
اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ قائد اعظم اردو نہیں جانتے تھے لیکن یہ حقیقت نہیں۔ بیرسٹری کی تعلیم کیلئے انگلستان جانے سے پہلے وہ ہندوستان میں رہے ، سندھ مدرسہ سے تعلیم حاصل کی ، یہ کیسے ممکن ہے کہ اردو/ ہندوستانی زبان نہ جانتے ہوں۔
منیر احمد منیر نے اپنی کتاب ’’دی گریٹ لیڈر‘‘ کے سلسلے میں قائد اعظم سے تعلق رکھنے والے بے شمار لوگوں کے انٹرویو کئے۔ انہوں نے قائد اعظم کے پرائیویٹ سیکریٹری کے ایچ خورشید سے اس بارے میں بھی پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ قائد اعظم لوگوں کی زبان میں ان سے بات کرنے کی اہمیت سمجھتے تھے۔ انہوں نے چودھری غلام عباس کو مشورہ دیا تھا کہ کشمیری زبان سیکھیں اور اسی میں تقریر کیا کریں۔ چودھری صاحب اس وقت کوئی چالیس سال کے تھے۔ انہوں نے کہا اب میں بوڑھا ہو گیا ہوں ،اس عمر میں زبان کیا سیکھوں گا ؟ قائد اعظم نے فرمایا وہ 56 برس کے تھے کہ بنگال ایک انتخابی جلسے میں گئے۔ وہاں کے لیڈروں نے کہا یہاں لوگ انگریزی کا ایک لفظ نہیں سمجھتے۔ آپ اردو میں تقریر کریں۔ چنانچہ ٹوٹی پھوٹی اردو میں اپنا مافی الضمیر بیان کردیا۔ لیکن اس کے بعد اپنی اردو بہتر کی۔ ان کے انگریزی میں تقریر کرنے کی کئی مصلحتیں ہوسکتی ہیں۔
کے ایچ خورشید نے بتایا ۔۔۔ قائد اعظم انگریزی اخبارات خود پڑھتے تھے ،اردو کے میں پڑھ کر سنایا کرتے تھے۔ 1945 میں بمبئی سے ماتھیران گئے۔ ایک دن میں اردو اخبار سے خبریں سنانے لگا تو انہوں نے کہا ’’یہ نہ سمجھنا کہ مجھے اردو نہیں آتی‘‘ یہ کہہ کر انہوں نے اخبار مجھہ سے لے لیا اور خود پڑھنے لگے۔ میں نے حیرت کا اظہار کیا تو کہا ’’ آپ اردو پر حیران ہو رہے ہیں، بچپن میں ، میں نے فارسی کتاب ’’ قواعدِ لطیف‘‘ بھی پڑھی تھی۔ اس کے بعد قائد اعظم اردو اخبارات کا مطالعہ بھی کرنے لگے۔ کوئی مشکل لفظ آتا تو مجھہ سے پوچھہ لیتے۔
کے ایچ خورشید نے منیر احمد منیر کے استفسار پر ایک اور بات بھی واضح کی۔
انہوں نے کہا قائد اعظم نے کئی بار ذکر کیا کہ ہم خوجہ بالکل نہیں ہیں۔۔ میرے جدِ امجد منٹگمری (اب ساہیوال) کے راجپوت تھے۔ روزگار کے سلسلے میں گجرات کاٹھیا واڑ چلے گئے تھے۔ وہاں ان کی شادی خوجہ خاندان میں ہو گئی۔ وہ وہیں سیٹل ہوگئے اور یوں خوجوں کا حصہ بن گئے۔ جبکہ اصلاََ ہم منٹگمری کے راجپوت ہیں۔
کے ایچ خورشید قائد اعظم اور محترمہ فاطمہ جناح سے بہت قریب تھے۔ قائداعظم کی وفات کے بعد خورشید صاحب کی شادی ہوئی تو محترمہ فاطمہ جناح نے کافی عرصہ میاں بیوی کو اپنے ساتھہ رکھا۔ کے ایچ خورشید آزاد کشمیر کے صدر بھی منتخب ہوئے۔ انتقال ہوا تو ایک عام بس میں سفر کر رہے تھے۔ جیب میں صرف 35 روپے تھے۔ ان کی صاحبزادی پنجاب یونیورسٹی میں ہماری ہم عصر تھی۔ بعد میں پی آئی اے میں ایک عام ملازمت کی۔ محترمہ ثریا خورشید نے اپنی یادیں لکھی ہیں جو کتابی صورت میں شائع بھی ہوئیں۔
کتاب ’’دی گریٹ لیڈر‘‘ متعدد جلدوں میں ہے۔ اس کے بارے میں منیر احمد منیر صاحب سے معلوم کیجئے ۔۔ ان کا فون نمبر 03334332920
“