(Last Updated On: )
طلبہ کے نام !
مستقبل کے معمار : میرے نوجوان عزیزو ! میری نگاہیں تمہاری طرف لگی ہوئی ہیں کہ پاکستان کی تعمیر تو اَصل میںتمہیں ہی کرنا ہے ۔ غیروں کے ہاتھوں میں مت کھیلو ، ان کے بہکاوے میں مت آئو ۔ مثال قائم کرو کہ نوجوان کیا کچھ کر سکتے ہیں ۔ اگر تم نے اپنی قوتوں کوبیکار باتوںمیں ضائع کیا تو بعد میں پچھتاتے رہو گے ۔
دل لگاکر پڑھو :
اپنے آپ سے ، اپنے ماںباپ سے ، اپنے وطن سے انصاف اس صورت میں کر سکتے ہو کہ ساری توجہ پڑھنے لکھنے پر صرف کرو ۔تم زندگی کی اس جنگ کے لیے اپنے آپ کوتیار کر سکتے ہو ، جو آگے چل کر تمہیں لڑنی ہے ۔ تم اپنے ملک کے لیے قیمتی اثاثہ،طاقت اور فخر کاسر چشمہ بن سکتے ہو ۔ تم ان سنگین معاشی اور معاشرتی مسائل کو حل کرنے میں اپنے وطن کی مدد کر سکتے ہو ، جو اسے درپیش ہیں ۔
علم کے لیے اپنے آپ کو تج دو :
تم سے جن فرائض کے بجالانے کی توقع ہے ، وہ یہ ہیں کہ نظم و ضبط کا احساس پیدا کرو۔ سیرت و کردار کی تعمیر کرو ۔ گہرا علمی پسِ منظر ترتیب دو ۔ اپنے آپ کو علم کے لیے تج دو کہ پہلافرض جوتم پرعائد ہوتا ہے ، وہ یہی ہے۔ اپنی خاطر ، اپنے ماں باپ کی خاطر ، اپنے وطن کی خاطر ، اطاعت شعار بنو کہ اطاعت کر نے کے بعد ہی تم حکم کر نے کے بھی اہل بن سکتے ہو ۔
اپنے آپ کو جانو :
آ پ نے مجھ سے کوئی پیغام دینے کی در خواست کی ہے ، میں آپ کو کیا پیغام دے سکتا ہوں ۔ ہماری ہدایت اور بصیرت کے لیے سب سے بڑا پیغام ، قر آن کی صورت میں موجود ہے ۔ ہمیں جو کچھ کرنا ہے ، وہ صرف اتنا ہے کہ ہم اپنے آپ کو جانیں اور اس جوہر کو ، ان صلاحیتوں کو پہچانیں ، جو ہمیں ودیعت ہوئی ہیں ۔ آئو ہم اس عظیم نصیب العین تک پہنچنے کے لئے کام کریں ۔ آئو ہم اپنی عظیم صلاحیتوں کو صحیح راستے پر لگائیں ۔ آئو ہم اپنے نجی مفادات اور نجی عیش و آرام کو فراموش کر دیں اور اپنے لوگوں کی اجتماعی بھلائی کیلئے بہتر اور برتر نصیب العین کیلئے کام کریں ۔
صوبہ پرستی یا حُب الوطنی ؟ :
عزیز و ! دو چیزو ں کے درمیان تمیز کرنا سیکھو ۔ اپنے صوبے سے محبت اور پورے ملک سے محبت ۔ ملک کے سلسلے میں ہم پر جو فرض عائد ہوتا ہے ۔ وہ ہمیں صوبہ پرستی سے ایک منزل آگے لے جاتا ہے ۔ یہ فرض ہم سے وسیع النظری اور حُب الوطنی کے زیادہ گہرے اَحساس کا تقاضا کرتا ہے ۔ ملک کی طرف سے عائد ہونے والایہ فریضہ اکثر ہم سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ ہم اپنے انفرادی اور صوبائی مفادات کو مشترکہ بھلائی کی خاطر مشترکہ مقصد میں ضم کر نے پر تیار رہیں ۔ اپنے ملک کی طرف سے عائد ہو نے والا فریضہ اوّلین حیثیت رکھتا ہے ۔ اپنے صوبے کی طرف سے ،ا پنے ضلع کی طرف سے ، اپنے شہر کی طرف سے ، اپنے گائوں کی طرف سے اور اپنی ذات کی طرف سے جو فرائض عائد ہوتے ہیں، وہ سب بعد میں آتے ہیں ۔ یاد رکھیے کہ ہم ایسے ملک کی تعمیر کر رہے ہیں جسے پوری اسلامی دنیا کی تقدیر بنانے کے سلسلے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا ہے ۔ اس لیے ہمیں ایک وسیع ترنظر پیدا کر نے کی ضرورت ہے ۔ ایسی نظر جو صوبوں کی حدود سے ، محدود وطن پرستی اور نسل پرستی کی حدود سے پرے دیکھ سکے ۔ ہمیں جب وطن کے ایسے شعور کی نشوونما کر نی ہے جو ہم سب کو ایک رشتے میں پیوست کر کے ایک مضبوط قوم بنا دے ۔ بس یہی ایک راستہ ہے جس پر چل کر ہم اپنے نصب العین کو ، جس کے لئے ہم نے جدوجہد کی ہے ، اس نصب العین کو ، جس کی خاطر کروڑوں مسلمانوں نے اپنی جانیں قربان کی ہیں ۔
عالم گیر بھائی چارہ :
ہم اس وقت جس دنیا میں زندگی بسر کر رہے ہیں ، وہ کسی طرح بھی کامل نہیں کہلائی جا سکتی ۔ تہذیب و تمدن کی ترقی کے باوجود جنگل کا قانونچلتا ہے ۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے مصداق طاقت والے کم زوروں کو لوٹتے کھسوٹتے ہیں ۔ اَفراد ہی نہیں ، قوموں کا بھی یہ وطیرہ بن گیا ہے کہ وہ اپنی ترقی کو مقدم سمجھتی ہیں ۔ حرص کے اَسیر ہیں اور طاقت حاصل کرنے کے خبط میں مبتلا ہیں ۔ اگر ہم ایک زیادہ اَمن و اَمان والی ہنسی خوشی سے بھر پور اور پاک و صاف دنیا پید اکر نا چاہتے ہوں تو ہمیں اصلاح کا کام اَفراد سے شروع کر نا پڑے گا ۔ اگر ہمارے نوجوان سب کو دوست بنانے ، سب کو ہمہ وقت خدمت کر نے ، ذاتی مفاد کو دوسروں کی بھلائی کے مقابلے میں پسِ پشت ڈالنے اور فکر و عمل اور قول میں تشدد سے بچنے کا سبق سیکھ لیں تو پوری اُمیدہے کہ عالم گیر اَخوت ہمارے امکان اور دسترس میں ہوگی ۔
عزیز ان ِ وطن کے نام!
تعلیم کس قسم کی ؟
ہمارے ملک کے مستقبل کا انحصار بڑی حد تک اس بات پر ہے اور ہونا چاہیے کہ ہم اپنے بچوں کو کس قسم کی تعلیم دیتے ہیں اور آئندہ شہری بنانے کیلئے ان کی تربیت کس ڈھنگ پر کرتے ہیں ۔ تعلیم کا مفہوم محض درسی تعلیم نہیں ، وقت کی بہت اَہم اور فوری ضرورت یہ ہے کہ ہم اپنے نوجوانوں کو سائنس اور فنی علوم دیں تاکہ وہ ہماری آئندہ معاشی زندگی کو بنا سنوار سکیں ۔
ماہرین پیدا کرو :
ہمارے کالجوں کا نصب العین یہ ہونا چاہیے کہ زراعت ، علم الحیوانات ، نباتات ، انجینئرنگ اور دیگر تخصیصی مضامین میں اَوّل درجے کے ماہر پید اہوں رَہن سہن کو بہتربنانے ، خصوصاً عام لوگوں کی معاشی حالت سنوارنے کے سلسلے میں ہم جن مسائل سے دوچار ہیں ، ان سے عہدہ بر آ ہونے کی صرف یہی ایک صورت ہے ۔
ہمارنصب العین :
اُٹھتے بیٹھتے ہمارا ایک ہی وظیفہ ہونا چاہیے ….اتحاد ، تنظیم ، یقین محکم ۔
اَحساس رَفاقت کی ضرورت :
خود کو منظم کرو ، یک جہتی اور مکمل اتحاد پیدا کرو۔ اپنے آپ کو تربیت یافتہ سپاہی بنا ئو ۔ اپنے اندر اجتماعی جذبہ اور اَحساس ِ رَفاقت پیدا کرو ۔ ملک وملت کے نصب العین کیلئے خلوص سے کام کرو ۔
چھوٹی چھوٹی باتیں :
کیا ہم سڑک پر چلتے ہوئے بائیں طرف رہتے ہیں اور راستے میں کوڑا کرکٹ پھینکنے سے اَحتراز کر تے ہیں ؟ کیا ہم اپنے کام میں دیانت دار اور مخلص ہیں ؟ کیا ہم دوسرے لوگوں کی اپنی بساط بھر مدد کرتے ہیں ؟ کیا ہم رَواداری برتتے ہیں ؟ ممکن ہے یہ باتیں چھوٹی معلوم ہوں ، لیکن انہیں میں نظم و ضبط کی روح چھپی ہوئی ہے ۔
میں اور میرا شوفر ایک صف میں :
اَکثر جب میں نما ز پڑھنے مسجد میں جاتا ہوں تو میرا شوفر میرے برابر کھڑا ہوتا ہے ۔ تمام مسلمان اُخوت ، مساوات اور حُریت پر ایمان رکھتے ہیں ۔
سب سے بڑی دولت :
میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ دنیا میں آپ کے ضمیر سے بڑھ کر کوئی بڑی دولت نہیں ہے ۔
اپنے آپ کو مضبوط بنائو :
اس ناقص دنیا میں کم زور اور نہتا ہونا ۔ دوسرو ںکو جارحانا اَقدام کی دعوت دیتا ہے ۔ اَمنِ عالم کو بر قرار رکھنے کی بہترین تدبیر یہ ہے کہ جو لوگ ہمیں کم زور جان کرڈراتے دھمکاتے ہیں اور حملہ کر نے کی نیت رکھتے ہیں ، ان کے دماغ سے یہ خناس نکال دیں ۔ یہ اسی صورت ممکن ہے کہ ہم اپنے آپ کو اتنا مضبوط بنا لیں کہ کسی کو ہمارے خلاف قدم اُٹھانے کی جرأت ہی نہ ہو سکے ۔
اتفاق میں برکت ہے :
میری ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ مسلمانوں میں اتحاد قائم ہو جائے ۔ پاکستان کی تعمیر و ترقی کا ایک عظیم اور شان دار مملکت بنانے کا جو بڑا کام ہمیں دَرپیش ہے ، اس کے پیشِ نظر ہمیں یکجہتی کی پہلے سے زیادہ ضرورت ہے ۔ ہم مسلمانوں کا ایمان ہے کہ خدا ایک ہے ۔ رَسول ایک ہے۔ قرآن ایک ہے ۔ اس لیے ہمیں بھی ایک ملت کی صورت متحد ہو کر رہنا چاہیے ۔ ایک پرانی کہاوت ہے کہ اتفاق میں برکت ہے اور نااتفاقتی میں ہلاکت ہے ۔
بلندکرداری :
ہم میں بلند کرداری کا وَصف باقی نہیں رَہا ،بلند کرداری کیا ہے ؟ عزتِ نفس کا گہرا اَحساس ، راست بازی ، یقینِ محکم ، ترغیبو تحریک کی دعوت اور وقت آنے پر قوم کے اجتماعی مفاد کی خاطر اپنے آپ کو مٹا دینے پر آمادگی ۔
چور بازاری اور اَقربا پروری :
چور بازاری ایک لعنت ہے ۔ ہمیں اس سنگین برائی کا جو معاشرے کے خلاف بہت بڑا جرم ہے ، مقابلہ کر نا ہے ۔ جو شخص چور بازاری کرتا ہے ، وہ میری دانست میں بڑے سے بڑے اور سنگین سے سنگین جرم سے بڑھ کر جرم کرتا ہے ۔ دیگر بُری باتوں کے ساتھ اس برائی کابھی قلع قمع کر دینا چاہیے ۔
اَول قومی مفاد :
میری زندگی کا یہ اُصول ہے کہ میں ہمیشہ اپنی قومی مفاد کو پیش ِنظر رکھتا ہوں ۔ زندگی میں بسا اَوقات اَیسا بھی ہوا ہے کہ جو مجھے بہت عزیز تھے اور بہت قرب رکھتے تھے ۔ میں نے اُنہیں نظر اَنداز کیا ۔ بہر حال مجھے تو اپنا فرض اَنجام دینا ہوتا ہے ۔
اَصل چیز محبت ہے :
ترقی کے لئے بے شک رَقم کی بھی ضرورت پڑتی ہے لیکن یہ بھی صحیح ہے کہ قومی فروغ اور قومی اَحیاء کا انحصار محض روپے پر نہیں ہوتا ۔ جو چیز قوم کو خو ش حال بناتی ہے ، وہ اَصل میں انسانی محبت ہے اور میں اس بارے میں کسی شک میں مبتلا نہیں ہوں کہ پاکستانی قوم محنتی اور عزم و ہمت والے لوگوں کی قوم ہے ۔ وہ اپنی سابقہ روایات کی بنیا د پر پہلے ہی انسانی کمالا ت کے میدان میں امتیاز حاصل کر چکے ہیں ۔
خوش حالی کا نسخہ :
اب اگر ہم اس عظیم مملکت پاکستان کو خو ش حال بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں لوگوں کی فلاح و بہبود پر ساری توجہ صرف کر نی چاہیے ۔ بالخصوص غریب لوگوں کی فلاح و بہبود پر ۔
ہم مٹ نہیں سکتے :
یاد رکھو کہ مسلمانوں کو مٹا یا نہیں جاسکتا ۔ پچھلے ایک ہزار سال میں کوئی طاقت نہیں مٹا سکی ۔ یہ محض ایک وہم ہے ۔ اس وہم کو دل سے نکال دو ۔
حوصلہ بلندرکھو :
کام کے وقت مشکلات کی وجہ سے حوصلہ مت ہارو ۔ تاریخ میں بہت سی مثالیں ایسی ہیں کہ نئی قوموں نے محض قوتِ کردار سے ترقی حاصل کر لی ۔ آپ بھی اپنے آبائو و اَجداد کی طر ح کام یاب ہوں ۔ آپ کو مجاہدوں والی روح پیدا کر نی ہے، آپ وہ قوم ہیں جس کی تاریخ ایک روشن اور سنہری ماضی رکھتی ہے ۔ہماری تاریخ ایسی شخصیتو ں کے کارناموں سے بھر پور ہے جو محیر العقول، مضبوط کردار اور شجاعت و ہمت کے مالک تھے۔ اپنی روایات کو نبھائو اور ان میں سے ایک اور شاندار روایت کا اضافہ کرو ۔
مو ت سے مت ڈرو:
اپنی ہمت بلند رکھو ، موت سے مت ڈرو ۔ پاکستان اور اسلام کی عزت بچانے کیلئے موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھو ۔ مسلمان کیلئے اس سے بہتر کوئی راہِ نجات نہیں کہ وہ کسی سچے مؤ قف کی خاطر ایک شہید کی موت مرے ۔
اب تم فرض اَدا کرو :
میں اپنا فرض اَدا کر چکا ہوں ۔ قوم کو جس چیز کی ضرورت تھی ، وہ مل گئی ہے ۔ پاکستان بن گیا ہے ۔ اب قوم کاکام ہے کہ وہ اس کی تعمیر کر کے اسے ناقابلِ تسخیر اور ترقی یافتہ ملک بنائے اور حکومت کا نظم و نسق چلائے ۔
٭
(بحوالہ : قائداعظم ۔ طلبہ اور تعلیم،تدوین: محمد یوسف وحید ، ناشر : الوحید ادبی اکیڈمی خان پور ، 2021ء )
٭٭٭