انگریزی تحریر: لیفٹنٹ کرنل الہی بخش
ترجمہ: سفیر اللہ خان
نوٹ: الٰہی بخش کی انگریزی کتاب "قائد اعظم کے ساتھ ان کے آخری ایام میں"سے اقتباس۔
ان (گورنر جرنل پاکستان، محمد علی جناح) کا جہاز ماڑی پور کے چھوٹے سے ائیر پورٹ پر 4:15بجے اترا اور میرے دل سے ایک بہت بڑا بوجھ اتر گیا۔ میں جہاز سے باہر نکلا تو گورنر جنرل کے ملٹری سیکرٹری کرنل نولز(Knowles)ایک ایمبولینس کے ساتھ وہاں موجود تھے تاہم ان کے ساتھ کوئی نرس نظر نہیں آئی۔ کراچی میں کسی قدر گرمی تھی مگر ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھیں لہٰذا گرمی ناقابلِ برداشت نہیں تھی۔ البتہ جہاز کے اندر بہت چیزیں ہونے کی وجہ سے ہم نے فوری طور پر قائد اعظم کو ایمبولینس میں منتقل کر دیا۔ مس جناح (فاطمہ جناح) اور کوئٹہ سے ساتھ آنے والی نرس بھی ایمبولینس میں بیٹھ گئیں جبکہ ملٹری سیکرٹری، ڈاکٹر مسٹری (Dr. Mistry)اور میں گورنر جنرل کی گاڑی میں ان کے پیچھے چل پڑے۔ سامان اور نوکر چاکر ہمارے پیچھے ٹرک میں آرہے تھے۔ ہم ائیروڈروم سے گورنر جنرل کے گھر کی طرف بہت سست روی سے چل پڑے۔ ان کے درمیان لگ بھگ نویا دس میل (لگ بھگ سولہ کلومیٹر) کا فاصلہ ہوگا۔
ہم نے ابھی چار ہی میل کا فاصلہ طے کیا ہوگا کہ ایمبولینس رک گئی۔ میں پریشانی میں نیچے اترا تو پتہ چلا کہ انجن کی خرابی کی وجہ سے گاڑی بند ہوگئی ہے۔ ڈرائیور نے یقین دہانی کرائی کہ وہ ایمبولینس جلدی ٹھیک کر لے گالیکن اسے انجن کے ساتھ کھیلتے ہوئے کوئی بیس منٹ گزر گئے مگر ایمبولینس سٹارٹ نہیں ہوئی۔ مس جناح نے ملٹری سیکرٹری کو بھیجا کہ دوسری ایمبولینس لے کر آئے ۔ ڈاکٹر مسٹری بھی ان کے ساتھ چلے گئے۔
ایمبولینس میں ماحول بہت تکلیف دہ تھا۔ قائد اعظم کو بہت پسینہ آرہا تھا حالان کہ نرس اور نوکر مسلسل پنکھے جھل رہے تھے۔ ہم نے سوچا کہ انہیں کار میں منتقل کردیں مگر اسٹریچر کار میں نہیں آ سکتا تھا اور قائد اعظم کی شدید کمزوری کے باعث انہیں پچھلی سیٹ پر لٹانا بھی مشکل تھا۔ مزید یہ کہ ان کے کپڑے پسینے سے بھیگے ہوئے تھے اور انہیں باہر نکالنے سے یہ ڈر تھا کہ ٹھنڈی ہوا لگنے سے ان کی طبیعت مزید بگڑ سکتی تھی۔ میں نے ان کا معائنہ کیا اور یہ جان کر سخت تشویش میں مبتلا ہوگیا کہ ان کی نبض بہت بے قاعدگی سے اور بہت آہستہ چل رہی تھی۔میں بھاگ کر ٹرک تک گیا اور اس میں سے گرما گرم چائے سے بھرا تھرماس نکال لایا۔ مس جناح نے انہیں چائے پلائی ۔ پورے دن میں یہ پہلی بار تھا کہ انہوں نے کوئی غذا لی تھی۔ اس سے پہلے صبح سے وہ کچھ بھی کھانے پینے سے مسلسل انکار کر رہے تھے ۔ انہوں نے سوائے چند گھونٹ جوس کے اور کچھ نہیں لیا تھا۔ میں نے محترمہ فاطمہ جناح کو بتایا کہ ان کا چائے پی لینا بہت اچھی بات ہے۔
سوائے ایمبولینس کی تباہ کن خرابی کے باقی ہر بات مریض کے حق میں جا رہی تھی۔ یہ کتنی تکلیف دہ بات ہوتی کہ وہ ہوائی سفر مکمل کرنے کے بعد یہاں سڑک کے کنارے جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے۔ شدید پریشانی کے عالم میں میں نے ان کی نبض کا دوبارہ معائنہ کیا۔ چائے کے کپ نے ان کی طیبعت کو بحال کر دیا تھا۔ خوش قسمتی سے ان کی نبض میں ایک باقاعدگی اور توانائی آ گئی تھی۔ میں بار بار شہر کی طرف دیکھتا مگر وہاں دوسری ایمبولینس کے کوئی آثار نہیں تھے۔ بہت سے ٹرک اور بسیں پاس سے گزر رہی تھیں مگر ان میں سے کسی کو بھی استعمال کرنا خطرے سے خالی نہیں ہوتا۔ ایک شدید مایوس اور بے بسی کا عالم تھا۔ کافی لمبے انتظار کے بعد ایک ایمبولینس آگئی۔ ہم نے جلدی سے قائد اعظم کو نئی ایمبولینس میں منتقل کیااور اپنے سفر کا دوبارہ آغاز کیا۔ ایمبولینس پر گورنر جنرل کا جھنڈا نہیں لگا ہوا تھا اس لئے کسی کو یہ معلوم نہیں تھا کہ قائد اعظم انتہائی خراب صحت کے ساتھ کراچی کی گلیوں سے گزر رہے ہیں۔
ہم اپنی منزل پر 6:10بجے پہنچےیعنی تقریباً دو گھنٹوں میں۔یہ خوشی نا قابل بیان ہے کہ آخر کار یہ سفر حفاظت سے اپنے انجام کو پہنچا اگرچہ اس کے دوران کچھ بھی ہو سکتا تھا۔ مجھے اپنے خدا پر بھروسہ تھا اور اُس نے قائد اعظم کا خیال رکھا۔ ایمبولینس کو قائد اعظم کے کمرے کے دروازے تک لے جایا گیا۔ انہیں ایک اسٹریچر پر لایا گیااور میں نے ان کو اٹھا کر بیڈ پر لٹانے میں مدد کی۔ نرس نے ان کا بخار اور نبض دیکھ کر بتایا کہ دونوں ٹھیک ہیں۔ ان کی حالت کے بارے میں تسلی ہو جانے کے بعد میں ملٹری سیکرٹری کے کمرے میں گیا اور ایک کپ چائے مانگی۔ میں نے ناشتے کے بعد سے اب تک کچھ نہیں کھایا پیا تھا ۔ مجھے شدید تھکاوٹ تھی اور سخت پیاس لگ رہی تھی۔ میں نے ہاتھ منہ دھویا اور یکے بعد دیگرے چار کپ چائے کے پی گیا۔ میں اور ڈاکٹر مسٹری دوبارہ قائد اعظم کے کمرے میں گئے تو وہ سو رہے تھے۔ داکٹر مسٹری نے ایک گھنے کی چھٹی لی کہ وہ اپنے گھر سے ہو آئے اور میں نے کرنل نولز سے کہا کہ کرنل ایم ایچ شاہ کو فون کرو اور کہو کہ رات کے لئے کسی نرس اور انیما کین (Enema Can)کا انتظام کرے لیکن کرنل شاہ سے کوئی رابطہ نہیں ہو سکا۔ پھر ہم نے جناح سنٹرل ہسپتال کے سرجن کرنل سعید احمد کو فون کیا مگر انہوں نے اسی وقت کوئی اہم آپریشن شروع کیا تھا اور ان سے بات ممکن نہیں تھی۔ پھر میں خود ہی نکل پڑا تاکہ کرنل شاہ کو ڈھونڈوں اور نرس اور انیما کین کا انتظام کر سکوں۔ مگر وہ نہ تو گھر پر ملا اور نہ ہی ہسپتال میں۔ کرنل سعید کو آپریشن کے دوران میں تنگ کرنا مناسب نہیں لگا سو میں نرسنگ ہاسٹل چلا گیا مگر وہاں بھی انچارج موجود نہیں تھی اور نہ ہی کوئی تجربہ کار نرس دستیاب تھی۔ مجھ پر شدید بے بسی کی کیفیت طاری ہوگئی اور کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کروں۔
ائیر پورٹ پر اترنے کے بعد سے ہر بات بگڑ رہی تھی۔ مجھے خیال آیا کہ کاش میں مس جناح سے کہتا کہ کوئٹہ سے رات کے لئے بھی نرس ساتھ لے آتیں مگر مجھے کیا پتہ تھا کہ کراچی میں یہ کام اتنا مشکل ہو جائے گا۔ میں نے سوچا کہ میں کرنل شاہ کو ڈھونڈنے کی ایک اور کوشش کرتا ہوں۔ رات کے آٹھ بج چکے تھے مگر وہ گھرواپس نہیں آیا تھا۔ کرنل شاہ کے گھر پر میری ڈاکٹر آر اے شاہ سے ملاقات ہوئی جو وہیں رہ رہے تھے۔ میں نے کراچی کو گالیاں دے کر اپنی بھڑاس نکالی ۔ آٹھ بج کر بیس (8:20)منٹ پر میں نے ان سے کہا کہ میں اور زیادہ انتظار نہیں کر سکتا، میں واپس جا کر ایک بار قائد اعظم کو دیکھتا ہوں اور پھر ہوٹل جا کر کھانا کھاتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ تم اس دوران میں کھانا کھا لو اور ہم اکٹھے 9:15بجے چلیں گے جب انہیں انجکشن لگانا ہے۔ مجھے قائد اعظم کے بارے میں کوئی فوری پریشانی نہیں تھی ؛ وہ اکیلے نہیں تھے کیوں کہ ڈاکٹر مسٹری سات بجے واپس پہنچ گئے ہوں گے۔ پھر بھی میرا جی چاہ رہا تھا کہ میں ایک بار انہیں دیکھ آؤں تاکہ پھر سکون سے کھانا کھا سکوں۔ چنانچہ میں گورنر جنرل ہاؤس چلا گیا اور یہ جان کر خوش ہو گیا کہ ملٹری سیکرٹری نے کہیں سے نرس کا انتظام کر لیا تھا۔
ساڑھے آٹھ بجے میں لفٹنٹ مظہر سے کہا کہ وہ مس جناح کو بتائے کہ میں کھانے کے لئے جانے سے پہلے ان سے ملنا چاہتا ہوں اور قائد اعظم کی حالت کے بارے میں بات کرنا چاہتا ہوں۔ مجھے بتایا گیا کہ وہ دو گھنٹے سے سو رہے ہیں۔ لگ بھگ پندرہ منٹ کے بعد میں نے ملٹری سیکرٹری سے پوچھا کہ کیا میرا پیغام مس جناح کو پہنچا دیا گیا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ پیغام تو ضرور پہنچا دیا گیا ہو گا مگر کوئی جواب کیوں نہیں آرہا اس بارے میں وہ کچھ نہیں کہ سکتے تھے۔ پونے آٹھ بجے میں نے ان سے کہا کہ چونکہ سب کچھ نارمل لگ رہا ہے اور یوں بھی میں نے کچھ دیر بعد واپس آجانا ہے سو میں ہوٹل جا کر کھانا کھا آتا ہوں۔ میں پیلس ہوٹل پہنچا جہاں میں نے ٹھہرنا تھا۔ میں نے جلدی سے کچھ کھایا پیا اور استقبالیہ پر پہنچا تاکہ گورنر جنرل ہاؤس فون کر کے گاڑی منگوا سکوں۔ استقبالیہ پر موجود کلرک نے مجھے پیغام دیا کہ فوری طور پر اے ڈی سی سے رابطہ کروں۔ مجھے فون پر پتہ چلا کہ قائد اعظم کی نبض ٹھیک نہیں چل رہی تھی اور مجھے فوری طور پر بلایا گیا تھا۔ میں نے اے ڈی سی سے فوراً گاڑی بھجوانے کو کہا۔ میں سوا نو (9:15)بجے قائد اعظم کے پاس تھا۔ قائد اعظم کی نبض کمزور تھی اور اس میں کچھ بے قاعدگی بھی تھی اور انہیں ٹھنڈے پسینے آرہے تھے۔ میں نے اس کی وجہ تلاش کرنے سے پہلے انہیں دل کے ٹانک کا ایک انجکشن لگا دیا اور کچھ دوائیں کھلانے کو کہا مگر وہ نگل نہ سکے اور دوائی ان کے منہ سے باہر بہ آئی۔ میں نے نوکروں کو لکڑی کے بلاک یا اینٹیں بھیجنے کو کہا تاکہ بیڈ کا اوپر اٹھایا جا سکے اور ٹانگوں کے لئے پٹیا ں منگوائیں تاکہ خون کی گردش اہم اعضا ء کی طرف موڑی جا سکے۔ گھر میں یہ چیزیں ملنا مشکل تھا سو میں نے بیڈ کو خود اٹھانے کی کوشش کی۔ بیڈ بہت بھاری تھا ۔ اگرچہ میں بیڈ کو لگ بھگ چھ انچ تک اٹھانے میں کامیاب ہو گیا مگر میں اسے زیادہ دیر اٹھائے رکھنے میں ناکام رہا۔ مس جناح نے میری مدد کرنے کی کوشش کی مگر میں نے ان سے درخواست کی کہ وہ زور نہ لگائیں بلکہ اگر کچھ کتابیں مل جائیں تو ہم انہیں اینٹوں کے طور پر استعمال کر سکیں گے۔ خیر ان تمام کوششوں سے نبض میں بہتری کے کوئی آثار پیدا نہیں ہوئے۔ میں اس ساری دوڑ دھوب میں الجھا ہوا تھا کہ اس دوران میں ڈاکٹر شاہ اور ڈاکٹر مسٹری پہنچ گئے۔ میں نے ڈاکٹر شاہ سے کہا کہ وہ رگ میں انجکشن لگائیں۔ اگرچہ وہ انجکشن دینے کا ماہر تھا مگر اسے رگیں نہیں مل رہی تھیں کیوں کہ رگیں شاید دم توڑ چکی تھیں۔ نرس میرے پہنچنے سے پہلے ہی آکسیجن دے رہی تھی اور یہ سلسلہ ابھی جاری تھا۔ دل کو تحریک دینے والی ایک اور دوا دینے کی کوشش کی گئی مگر قائد اعظم اسے بھی نگل نہ سکے۔ ہم پر شدید بے بسی کا عالم تھا۔
دوا کا ایک اور انجکشن دینے کے بعد میں نے قائد اعظم سے کہا ’سر، ہم نے آپ کو طاقت کا ایک اور انجکشن لگا دیا ہے۔ یہ جلد ہی اپنا اثر دکھائے گا۔خدا نے چاہا تو آپ ابھی جئیں گے"۔ قائد اعظم نے سر ہلایا اور کمزور سی آواز میں کہا "نہیں ، میں نہیں رہوں گا"۔ یہ تھے قائد اعظم کے مرنے سے پہلے آخری الفاظ جو انہوں نے کسی سے کہے۔ تقریباً آدھ گھنٹے بعد وہ فوت ہو گئے۔