قائد اعظم کے لیے ایک دعا
جی ایم سید کی کم پڑھی گئی کتاب کا نام ہے ’’جدید سیاست کے نو رتن‘‘
وہ کتاب برصغیر کے نو سیاسی رہنماؤں کے بارے میں ہے۔
اس کتاب میں اس شخص کا نمبر 7 ہے۔
جس کے بارے جی ایم سید نے لکھا تھا:
’’یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ پاکستان کے حکمرانوں نے اس شخص کے مقبرے کی تعمیر پر بے تحاشہ دولت لٹائی ہے مگر اس پر ایک بھی قابل ذکر کتاب نہیں لکھوائی!!‘‘
اور وہ کتاب آج تک نہیں لکھی گئی۔
وولپرٹ نے کوشش تو کی مگر اس کا انداز مغربی ہے؛
وہ کتاب اس کے ظاہر کو تو ظاہر کرتی ہے مگر اس کا باطن آج بھی انچھواہے۔
وہ شخص اتنا بھی روکھا نہ تھا؛ جتنا نظر آتا تھا۔
وہ شخص جو انگریزی میں سوچتا تھا اور بیحد رومانٹک تھا۔
وہ شخص جو شیکسپےئر تھیٹر کا اداکار بننا چاہتا تھا!
وہ شخص جوجناح کیپ میں اب تک قید ہے۔
وہ شخص جو ایک پارسی لڑکی کو انگریزی شاعری سنا کر متاثر کرتا تھا۔
وہ شخص جو سگار کے سہارے وسکی پیتا تھا۔
وہ شخص جو بہت خوش لباس اور بہت ناخوش دل کا مالک تھا۔
وہ شخص جو کم مسکراتا تھا اور اپنے آنسو اپنے آپ سے بھی چھپاتا تھا۔
وہ شخص جو سنوکر اسٹک کی طرح بہت سلم تھا
وہ شخص جو بہت ذہین اور بیحد اکیلا تھا
وہ شخص جس نے ایک ملک دیا
وہ شخص اس ملک میں بھی اجنبی ہے
وہ شخص جس کی زندگی پر کسی نے ناول تو کیا
ایک ایسی دعا بھی نہیں لکھی:
’’اے خدا!
تمہارے حضور میں
تھکے ہوئے قدموں کے ساتھ
وہ شخص آیا ہے
جس شخص کا سرکاری نام
’’قائد اعظم ‘‘ ہے۔
اے خدا! تم تو جانتے ہو
اس کی محبوب بیوی
اسے کس نام سے مخاطب ہوتی تھی
اور اس کے بطن سے جنم لینے والی دینا
اس کی بیٹی
اسے کس نام سے بلاتی تھی؟
اے خدا!
اس شخص کو وہ نام بہت پسند تھا
وہ شخص آج تمہاری حضور میں
اداس دل کے ساتھ آیا ہے
وہ شخص جو ایک دانشور دماغ تھا
وہ شخص جو ایک قانون دان تھا
وہ شخص صرف ایک ٹائپ رائٹر نہ تھا
وہ شخص ایک ساز بھی تھا
وہ شخص ایک گیت بھی تھا
وہ شخص جو روتی کا میت بھی تھا
اے خدا!
وہ شخص آج تم سے کسی ملک کا مطالبہ کرنے نہیں آیا
وہ شخص آج تم سے جنت الفردوس کا تقاضہ کرنے نہیں آیا
تنہائی کی تنگ و تاریک راستوں پر چل کر
تمہارے حضور میں آنے والا یگ شخص
صرف اتنا چاہتا ہے
اسے وہاں بھیج دیا جائے
جہاں اس کی ناراض روتی رہتی ہے!!‘‘
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔