(Last Updated On: )
Izhar Ahmad Gulzar
Abstract:
Muhammad Ali Jinnah was a lawyer, Politician and the founder of Pakistan. Jinnah served as the leader of All-India Muslim League from 1913 until Pakistan's independence on 14 August 1947 and
then as Pakistan's First Governor General until his death. He is served in Pakistan as Quaid-e-Azam and Baba-e-Qaum.
Quaid has the great pain for our national language because one can express his ideas and feelings. It plays a vital role in building the character of an individual as well as a nation. Languages bring closer each other and it creates a sense of harmony among the people. After independence Quaid-e-Azam said in clear cut words that the national language of Pakistan would be Urdu. He said that the National Language of Pakistan is going to be Urdu and no other langugae. Without one state langugae no nation can remain tied up. Urdu progressed well and reached almost all parts of the sub-continent in the 16th century. The Muslims from time to time, brought about changes and amendments in it to make it more simple and easy to understand according to their needs and requirements.
برصغیر کے رہنے والوں پر ایک دور ایسا بھی آیا تھا جب کہ انھیں قومیت کا احساس ہی نہ تھا ۔ تعلیم صرف امرا اور وزرا تک مخصوص تھی۔ عوام کے لیے یہ شجرِ ممنوعہ تھا۔ پس قومی زبان کی ضرورت کا کوئی شعوری احساس نہ تھا۔ سرکاری اور دفتری ضروریات کے لیے فارسی زبان استعمال ہوتی تھی۔ پھر انیسویں صدی کے آخر میں حکومت کے ساتھ ساتھ زبان فارسی کو بھی زوال آیا۔ زبان کا مسئلہ اُٹھنے پر لوگوں میں نئے حکمران انگریز کی زبان سے واقفیت حاصل کرنے کا شوق ہوا۔ انگریز نے بھی سوچا کہ ملک کی عام زبان کون سی ہو وہ جو کہ زیادہ علاقے اور زیادہ لوگوں کی زبان ہے۔ پس اُردو کے حق میں فیصلہ ہوا کہ یہی زبان برصغیر کی سینکڑوں بولیوںمیں سب سے زیادہ ترقی یافتہ اور ملک کے ہر حصے میں بولی وسمجھی جانے والی زبان تھی۔ اس طرح ایسٹ انڈیا کمپنی نے اردو کی تدریس کے لیے کلکتہ میں فورٹ ولیم کالج اور دہلی والوں نے دہلی میں مرحوم دہلی کالج قائم کیا۔
اسی طرح اس زبان کی قدر و قیمت کا احساس بیدار ہوا ۔ علمی کتب کے تراجم کیے گئے پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ متعصب ہندوئوں کو یہ زبان کھٹکنے لگی کہ اس کا رسم الخط خالصتاً عربی تھا۔ انھوں نے سنسکرت اور بھاشا کے الفاظ شامل کر کے اسے دیوناگری رسم الخط میں عام کرنے کی ٹھانی۔ اس طرح یہ زبان مسلمانوں کی جھولی میں آ گری۔ زبان کا یہ مسئلہ سیاسی مسئلے کی حیثیت سے نمودار ہوا۔پھر دو قوموں کے نظریے نے ہند کے سیاسی حالات کو ایک نئی شکل میں ڈھالا۔ مسلمانوںنے الگ قومیت کا نعرہ لگایا اور الگ وطن کے مطالبہ کے ساتھ ہی نئے ملک کی زبان کا مسئلہ سب سے آگے تھا۔
۱۹۳۴ء میں قائد اعظم نے مسلم لیگ کی انتخابی مہم کے لیے جو دستور تیار کیا ۔ بعد ازاں اُسے منشور کا درجہ بھی حاصل ہوا۔ اس میں واضح طور پر دفعہ نمبر۱۱ میں لکھا تھا کہ اردو زبان اور رسم الخط کی حفاظت کی جائے گی۔ قائد اعظم اردو زبان پر دسترس نہ رکھنے کے باوجود کسی بھی انتخابی مہم کے دوران اپنی تقاریر کے آغاز اور اختتام پر چند جملے ضرور اردو زبان میں ادا کرتے تھے۔
آزادی سے قبل جب کانگریس نے ’’ہندی ہندوستان‘‘ کی مہم چلائی تو تب بھی ۱۹۳۵ء میں قائد اعظم برملا اعلان کیا کہ اس اسکیم کا اصل مقصد اردو کا گلا دبانا ہے۔ اسی طرح آپ نے ۱۹۳۸ء میں پنڈت جواہر نہرو کو کسی بات پر جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ اردو ہماری عملاً زبان ہے۔ ہم آئینی ضمانت چاہتے ہیں کہ اردو کے دامن کو کسی طریقے سے متاثر نہ کیا جائے۔جب قیامِ پاکستان کا وقت قریب آنے لگا تو ۱۹۴۶ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کونسل کے اجلاس ایک مرتبہ سرفیروز خان نون انگریزی زبان میں تقریر کرنے لگے تو قائد اعظم نے انھیں ٹوکتے ہوئے فیصلہ دیا کہ:
’’پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہو گی۔‘‘(۱)
قائد اعظم کی نظر میں اردو کی اہمیت محض قیامِ پاکستان سے قبل تک نہیں تھی بلکہ آزادی کے بعد بھی آپ نے پاکستان میں اردو کو سرکاری زبان بنانے کے لیے دو ٹوک الفاظ میں اظہار کیا مثلاً ۱۹۴۸ء میں جب مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمٰن نے بنگالی زبان کے حق میں رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش کی تو قائدا عظم نے اپنی پیرانہ سالی کے باوجود ڈھاکہ جانے کے لیے فیصلہ کیا۔ ڈھاکہ جانے کے لیے پاکستان کے پاس صرف ڈکوٹا طیارہ تھا جس میں مشرقی پاکستان تک جانے کے لیے کلکتہ ایئر پورٹ سے ایندھن حاصل کرنا ضروری تھا لیکن قائد اعظم نے کلکتہ ایئر پورٹ اترنا پسند نہیں کیا اور جہاز میں ایندھن گنجائش سے زیادہ ڈلوا کر خطرہ مول لیتے ہوئے وقت ضائع کیے بغیر ڈھاکہ پہنچنا پسند کیا اور وہاں پہنچ کر واضح الفاظ میں کہا کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہو گی۔۲۱ مارچ ۱۹۴۸ء کو بہت صاف صاف فرمایا کہ :
’’بالآخر اس صوبے کے لوگوں کو ہی حق پہنچتا ہے کہ وہ فیصلہ کریں کہ اس صوبے کی زبان کیا ہو گی لیکن میں آپ کو واضح طور پر بتا دینا چاہتا ہوکہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو کے سوا کوئی اور زبان نہیں جو کوئی آپ کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے وہ پاکستان کا دشمن ہے۔ مشترکہ سرکاری زبان کے بغیر کوئی قوم متحد نہیں ہو سکتی اور نہ کوئی کام کر سکتی ہے۔ دوسرے ملکوں کی تاریخ اُٹھا کر دیکھ لیجیے ، پس جہاں تک پاکستان کی سرکاری زبان کا تعلق ہے وہ اردو ہی ہو گی۔‘‘(۲)
قائد اعظم کے مذکورہ بالا الفاظ نہ صرف پاکستان کی سرکاری زبان اردو بنانے کے لیے قطعی فیصلہ سنا رہے ہیں ، بلکہ اس میں اُن کی چھپی دور اندیشی بھی اب ظاہر ہو رہی ہے۔یعنی اُن کا کہنا ہے کہ:
’’مشترکہ سرکاری زبان کے بغیر کوئی قوم متحد نہیں ہو سکتی اور نہ کوئی کام کر سکتی ہے۔‘‘(۳)
قائد اعظم کا یہ خواب تھا کہ ہم اپنی زبان، تہذیب و تمدن اور رسم و رواج کو ترقی دے سکیں۔ اسی ضمن میں انھوں نے ۲۴ مارچ ۱۹۴۸ء کو ڈھاکہ یونیورسٹی کے جلسۂ تقسیمِ اسناد میں خطاب کرتے ہوئے فرمایاتھا:
’’پاکستان کی سرکاری زبان جو مملکت کے مختلف صوبوں کے درمیان افہام و تفہیم کا ذریعہ ہو ، صرف ایک ہی ہو سکتی ہے اور وہ اردو ہے، اردو کے سوا کوئی اور زبان نہیں۔ اردو وہ زبان ہے جسے برصغیر کے کروڑوں مسلمانوں نے پرورش کیا ہے ۔ اسے پاکستان کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک سمجھا جاتا ہے ۔ وہ زبان ہے جو دوسری صوبائی اور علاقائی زبانوں سے کہیں زیادہ اسلامی ثقافت اور اسلامی روایات کے بہترین سرمائے پر مشتمل ہے اور دوسرے اسلامی مُلکوں کی زبانوں سے قریب ترین بھی ہے۔‘‘(۴)
قائد اعظم کے معروف چودہ نکات میں سے بارہواں نکتہ بھی مسلمانوں کی تہذیب، زبان، تمدن کے بارے میں تھا۔ اس حقیقت سے سب واقف ہیں کہ قائد اعظم کی مادری زبان گجراتی تھی۔ وہ خوب صورت انگریزی بولتے تھے۔ انھیں اردو نہیں آتی تھی لیکن انھوں نے عوام کی خاطر یہ زبان سیکھی اور عام جلسوں میں وہ کبھی کبھی اردو میں تقریر کرتے تھے۔ انھوں نے پہلی اردو تقریر بنگال میں کی تھی۔ بابائے اردو مولوی عبدالحق لکھتے ہیں:
’’قائد اعظم نے قیامِ پاکستان سے قبل ایک بار ان سے پوچھا کہ آپ کو معلوم ہے کہ میں نے سب سے پہلے اردو میں کب اور کہاں تقریر کی ۔ میں نے لاعلمی ظاہر کی تو فرمایا کہ کئی سال ہوئے بنگال کے ایک مقام پر (غالباً سلہٹ یا میمن سنگھ) گیا۔ یہ جلسہ انتخاب کے سلسلے میں تھا تو دیکھا کہ کئی ہزار آدمی جمع ہیں۔ اس قدر مجمع کی توقع نہ تھی۔ میں نے اپنے ہمراہ سر عزیز الحق سے پوچھا کہ اس مجمع میں کتنے لوگ انگریزی سمجھتے ہوں گے۔ انھوں نے کہا کہ کم و بیش پانچ سو۔تب میں نے کہا کہ اردو جاننے والے کتنے ہوں گے تو انھوں نے کہا کہ تقریباً ڈیڑھ دو ہزار۔ اس کے بعد سر عزیز الحق نے کہا کہ آپ انگریزی میں تقریر فرمائیے۔ میں اس کا ترجمہ بنگالی میں سنا دوں گا لیکن میں نے ان کا مشورہ نہ مانا اور اردو میں تقریر کی ۔ یہ میری پہلی اردو تقریر تھی۔ اس کے بعد انھوں نے ہنس کر کہا کہ میری اردو تانگے والے کی اردو ہے۔‘‘(۵)
بابائے اردو مولوی عبدالحق لکھتے ہیں:
’’پاکستان کی پہلی اینٹ جس نے رکھی ، وہ اردو زبان ہے۔‘‘ تحریکِ پاکستان میں اردو کے بنیادی کردار کے پیشِ نظر قیامِ پاکستان سے بہت پہلے فیصلہ کر لیا گیا کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہو گی اور قیامِ پاکستان سے اردو زبان اور مسلمانوں کی تہذیبی اقدار کے تحفظ میں مدد ملے گی۔‘‘(۶)
قائد اعظم کو اُردو کی اہمیت کا پورا پورا احساس تھا اور وہ اس زبان سے بہت محبت کرتے تھے۔ محترمہ فاطمہ جناح نے کل پاکستان انجمن ترقی اردو کے نام ایک پیغام میں جو اردو کو ذریعۂ تعلیم کی حیثیت سے نافذ کرنے کے لیے انجمن کی جانب سے اُردو کالج قائم کرنے کے موقع پر کہا تھا:
’’میں اہلِ پاکستان کو یاد دلانا چاہتی ہوں کہ قائد اعظم مرحوم کو اردو سے دلی محبت تھی اور انھوں نے اس کی ترقی کا ہمیشہ خیال رکھا ۔ اردو سے اپنی وابستگی اور اس کی اہمیت کو عملاً واضح کرنے کے لیے وہ اپنی قوم سے اردو میں خطاب کرتے تھے اور یہ ان کی دلی تمنا اور انتہائی کوشش تھی کہ پاکستان کی مشترکہ زبان کی حیثیت سے اُردو کو ایک اعلیٰ اور بلند مرتبہ حاصل ہو جائے۔‘‘(۷)
افسوس! قائد اعظم کے اعلان کے باوجود وطنِ عزیز میں اردو کو وہ عزت نہ ملی جس کی یہ زبان حق دار تھی۔ انگریزی ہماری دفتری اور عدالتی زبان کی حیثیت سے رائج ہے۔ تحریکِ پاکستان میں اردو کا کردار مسلمہ ہے ۔ پاکستان میں رابطے کی یہ واحد زبان ہے اسے قائد کے افکار کی روشنی میں اس کا جائز حق دینے کی بہت ضرورت ہے۔
حوالہ جات
۱۔ زیڈ اے سلہری، میرا قائد ، اسلام آباد: ۱۹۸۵ء، ص:۲۲۵
۲۔ قاسم محمود، سید، قائد اعظم کا پیغام، لاہور:۱۹۶۷ء، ص:۱۹۷
۳۔ ایضاً، ص:۲۰۸
۴۔ ایضاً،ص:۱۹۸
۵۔ عبدالحق، مولوی، مضمون: قائد اعظم اور اردو، مشمولہ: المعارف، جون ۱۹۶۷ء، ص:۱۰
۶۔ حمید رضا صدیقی، نظریۂ پاکستان پس منظر اور پیش منظر، ملتان:۱۹۸۹ء، ص:۳۷
۷۔ توقیر صدیقی، مسلم لیگ ، قائد اعظم اور اردو، مشمولہ: قومی زبان، ماہنامہ، کراچی، دسمبر ۱۹۷۶ء، ص:۴۰
٭…٭…٭
“