حصہ اول
حقیقت تو یہی ہے کہ قوم کے بڑے سردار انبیاء کرام پر ایمان نہ لائے۔
انبیاء کرام میں سے کسی ایک نبی پر کوئی ایک قوم کا بڑا سردار ایمان نہیں لایا۔
حضرت ابو سفیان فتح مکہ کے روز ایمان لانے اور مؤلفۃ القلوب میں تھے۔
حضرت نوح علیہ السلام کی قوم کے سرداروں نے کہا کہ اے نوح ہم کیسے ایمان لائیں تیرے پیروکار تو معاشرے کے کمتر لوگ ہیں۔۔۔ ! 26/111- 11/27.
ہر نبی و رسول پر زیادہ تر نوجوان ، عورتیں اور معاشرہ کے کمزور طبقات میں سے لوگ ایمان لاتے تھے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام پر بنی اسرائیل میں سے ، پہلے نوجوان لائے تھے۔ فما امن لموسی الا ذریۃ من قومہ ۔ 10/85
اصحاب کہف والے، حکومتی وزراء اور رؤسا کے نوجوان بیٹوں نے ایمان قبول کیا تھا ۔ انہم فتیۃ آمنو بربھم وزدنہم ھدی ۔ الکھف۔18/13
نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم پر بھی ایمان لانے والے زیادہ تر نوجوان، عورتیں، کمزور طبقات کے لوگ اور غلاموں نے ایمان قبول کیا۔
حضرت خالد قبیلہ قریش کی ذیلی شاخ مخزوم کے سردار ولید کے بیٹے تھے۔حضرت خالد بن ولید نے 125 جنگیں لڑیں کسی میں بھی شکست نہیں کھائی۔ 21 ہجری شام حمص کے شہر میں وفات پائی۔
، حضرت عمرو بن عاص بن وائل قریشی سردار کے بیٹے تھے۔
حضرت خالد اور عمرو بن العاص نے فتح مکہ سے سات ماہ پہلے صفر کے مہینے، مدینہ منورہ میں اکھٹے اسلام قبول کیا تھا۔
فتح مکہ کے موقع پر حضرت معاویہ اور ان کے والد حضرت ابوسفیان لائے، شجرہ ۔۔۔ معاویہ بن ابو سفیان (ابوسفیان کا اصل نام ۔۔۔ مغیرہ) بن صخر بن حرب بن امیہ، ابوسفیان امیہ قریشی سردار بیٹے تھے۔ حضرت ابو سفیان اور حضرت معاویہ کو محدثین نے مؤلفۃ القلوب میں سے لکھا ہے۔
حضرت عکرمہ بن عمر بن ہشام ، (ابوجہل) نے فتح مکہ کے موقع پر اسلام قبول کیا اور جنگ یرموک میں دلیری سے لڑتے ہوئے شہادت پائی۔
ابو جہل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا چچا نہ تھا۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا شجرۂ نسب درج ذیل ہے:
محمد بن عبداللّٰہ بن عبد المطلب بن ہاشم بن عبد مناف بن قصی بن کلاب بن مرۃ بن کعب بن لوی القریشی.
ابوجہل کا نام عمرو بن ہشام تھا۔ اس کا شجرۂ نسب درج ذیل ہے:
عمرو بن ہشام بن المغیرۃ بن عبد اللّٰہ بن عمر بن مخزوم بن یقظۃ بن مرۃ بن کعب بن لوی القریشی.
اس اعتبار سے ابوجہل کا شجرۂ نسب مُرَّہ بن کعب پر جا کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے مل جاتا ہے، یعنی مُرَّہ دونوں کے جد اعلیٰ ہیں۔ مُرَّہ سے نیچے دونوں شاخوں کو ترتیب سے دیکھیں تو ابو جہل بہت دور کے رشتے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا چچا زاد تھا، نہ کہ چچا۔
حضرت ابوسفیان اور حضرت معاویہ فتح مکہ کے موقع پر ایمان لائے اور مؤلفۃ القلوب میں سے تھے۔
سرداران قریش میں سے صرف ابو سفیان قتل ہونے سے بچ گئے تھے ۔ وہ بھی فتح مکہ کے موقع پر لائے تھے۔
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لشکر نے مکہ کے دامن میں پڑاؤ ڈالا۔ ابوسفیان رات کے اندھیرے میں اسلامی لشکر کا جائزہ لینے نکلا تو پکڑا گیا اور رسول اللہ کے سامنے پیش کر دیا گیا۔ مختصر یہ کہ اسلام قبول کر لیا۔
ابو سفیان ۔رشتہ کے لحاظ سے نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے سسر تھے۔جنگ حنین اور جنگ طائف میں حصہ لیا اور ایک آنکھ ضائع ہو گئی۔ جنگ یرموک میں تیر لگنے سے دوسری آنکھ بھی ضائع ہو ضائع ہو گئی۔
جنگ بدر میں ستر مشرکین قتل اور ستر قیدی بنائے گئے۔ بڑے بڑے مشہور سردار مارے گئے۔ انفرادی جنگ میں لڑائی میں حضرت عمر فاروق کے غلام نے عمر بن الخضرمی کا بھائی عامر کو قتل کر دیا۔
حضرت حمزہ نے شیبہ کو، حضرت علی نے ولید کو ، حضرت عبیدہ اور عتبہ کا مقابلہ ہوا تو دونوں زخمی ہوگئے تو حضرت علی نے بڑھ کر عتبہ کا کام تمام کر دیا۔
امیہ بن خلف ( حضرت بلال حبشی پر ظلم ڈھاتا تھا)اور اس کا بیٹا علی دونوں باپ بیٹا انصار کے ہاتھوں قتل ہوئے۔ ابو بختری بھی مارا گیا۔
دو انصاری نوجوان معاذ اور معوذ کے ہاتھوں ابوجہل مارا گیا۔
قریش کے سبھی بڑے سردار مارے گئے۔ قریش مکہ کے سرداروں میں صرف ابوسفیان بچا تھا۔
مسلمان حضرت ابو سفیان کی طرف زیادہ توجہ نہیں دیتے تھے۔
ابو سفیان نے نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے اپنے بیٹے حضرت معاویہ کو کاتب رکھنے کی درخواست کی تو آپ نے قبول فرما لیا۔
انسانوں کے ذہنوں سے شخصی اور نسلی تفاخر آسانی سے نہیں نکلتی۔
رسول کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے اپنے آزاد کردہ غلام حضرت زید کہی شادی اپنی پھوپھی زاد بہن حضرت زینب بنت جحش سے کی لیکن شادی نبھ نہ سکی۔
نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ایک بار فرمایا۔ اے عائشہ تیری قوم کا زمانہ جاہلیت قریب ہے وگرنہ میں بیت اللہ شریف کے ابراہیمی طریقے پر دوسرا دروازہ کھول دیتا کہ میری امت ایک دروازے سے داخل ہو اور دوسرے سے باہر نکلے۔
قریش مکہ نے اپنے نسلی تفاخر میں بیت اللہ کا دوسرا دروازہ بند کر دیا تھا۔
حضرت معاویہ صرف ایک صوبہ شام کے گورنر تھے۔ انہوں نے حضرت عمرو بن عاص سے مصر کی حکومت کے وعدہ پر ساتھ ملایا۔ حضرت معاویہ حضرت عثمان کی شہادت کے بعد ، قصاص کا جواز بنا کرحضرت علی کے مقابل لشکر لے آئے۔
جب جنگ فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوریی تھی تو حضرت عمرو بن العاص نے قرآن کو نیزوں پر بلند کروا دیا۔
حضرت علی کے حضرت ابو موسیٰ اشعری اور حضرت معاویہ کے حضرت عمرو بن العاص ثالث مقرر ہوئے۔
حضرت ابو موسیٰ اشعری بڑے سادہ لوح انسان تھے۔ حضرت عمرو بن العاص کا سیاسی ذہن تھا۔ دونوں نے فیصلہ کیا کہ حضرت علی اور حضرت معاویہ کو معزول کر دیا جائے اور امت فیصلہ کرے۔
حضرت ابو موسیٰ اشعری نے حضرت علی کی معزولی کا اعلان کردیا۔ حضرت عمرو بن العاص نے اعلان کیا کہ میں حضرت علی کو معزول اور حضرت معاویہ کو بحال کرتاہوں۔
انا للّٰہ وانا الیہ راجعون ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ !
اللّٰہ کی پناہ اتنا بڑا دھوکا اور ظلم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ !
"حصہ دوم "
باوجود اس دھوکا اور ظلم کے،کچھ نہیں کہنا کہ حضرت علی نے ان کو مسلمان سمجھا اور ان کے بھی جنازے پڑھے۔ مسلمانوں کو مسلمان سمجھنا چاہیے ، یہ بھی ظلم ہےکہ مسلمان کو مسلمان سمجھا نہ جائے ، لیکن غلطی کو غلطی نہ تسلیم نہ کرنا تو بہت بڑی غلطی ہے کہ غلطی مانے بغیر تو اصلاح نہیں ہو سکتی۔
لیکن افسوس ہے کہ خلافت کو پہلے شخصی پھر نسلی بنا لیا گیا۔ اس کو غلطی نہ ماننا پہلی غلطی سے بھی بڑی غلطی ، بلکہ ظلم ہے۔
انسان پرور نظام خلافت میں سب انسان برابر تھے۔عرب وعجم کی اشرافیہ کو انسانوں میں برابری گوارا نہ تھی۔اس لیے خلافت کا نظام توڑ کر پہلےشخصی حکومت بنائی، پھر اس شخصی حکومت کو نسلی حکومت میں بدل لیا گیا۔ مسلمان بھول ہی گئے کہ خلافت کا نظام میں سب انسانوں میں برابری اور یکساں حقوق تھے۔ذہنوں میں شخصیات کا تنازع کا تصور جم گیا۔ خلافت مسلمانوں میں اب موضوع بحث نہ رہی بلکہ دوشخصیات کا معاملہ بنا دیا گیا۔ قرآن نے خلیفہ کےچناؤ کاحق مسلمانوں کو دیا تھا۔امرھم شوریٰ بینھم۔ (الشوریٰ 38). رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کے اس حق کو خود استعمال نہ کیا بلکہ امت کو منتقل کر دیا۔ اگر آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فیصلہ فرما دیتے تو بہت پسندیدہ ترین ہوتا لیکن آپ نے قرآن مجید کی رو سے یہ حق مسلمانوں کو منتقل کر دیا۔رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے اعلان نبوت کے موقع پر فرمایا تھا کہ تم لا الہ الااللہ پڑھ لو تو فلاح پا جاؤ گے۔اس پر ابو جہل نے کہا کہ میں سمجھ گیا۔ کہ محمد چاہتا ہے کہ غلام ہمارے برابر آبیٹھیں گے۔ابو جہل نےکہا، یہ کبھی نہیں ہو گا۔ حضرت عمر فاروق کے بعد، عرب کی اشرافیہ نے اقتدار کے خواب دیکھنا شروع کر دیئے۔
حضرت ابو ذر غفاری نے کوئی فرقہ بنایا اور نا ہی امت میں انتشار پیدا کیا۔ غربت اور امارت میں بڑھتے تفاوت کو محسوس کیا اور اس کی بروقت نشاندھی کر دی۔ حضرت عمر فاروق نے بھی اس بڑھتے فرق کو محسوس کر لیا تھا۔ فرمایا، اگر میں اگلے سال تک زندہ رہا تو ترجیحی وظائف ختم کر کے حضرت ابوبکر صدیق کے دور والا یکساں وظائف کاسسٹم بحال کردوں گا ۔اگرپھر بھی غربت رہی تو امیروں سے دولت لے کر غریبوں میں بانٹ دوں گا۔ جب حضرت عمرنے حضرت خالد بن ولید کو سپہ سالاری کے عہدہ سے معزول کیا اور واپس مدینہ بلا لیا۔ایک شخص دوڑتا ہوا آیا کہنے لگا کہ فتنہ کا دور آ گیا ہے۔حضرت خالد بن ولید نے کہا کہ عمر کے ہوتے فتنہ نہیں آسکتا۔ جن کو زمانہ جاہلیت میں غریبوں کے برابر بیٹھنا گوارا نہ تھا، ان کو اسلام میں غریبوں کے برابر بیٹھنا پڑتا تھا۔ ابو لؤ لؤ صرف ایک مہرہ تھا اصل قاتل اور تھے۔اسی لئیے تو حضرت عمر کے بیٹے حضرت عبید اللہ بن عمر نے ہرمزان سمیت چھ افراد کو قتل کر دیا۔ کہا کہ میرے باپ کے قاتل تھے۔ کاش ابو لؤ لؤ کو زندہ پکڑ لیا جاتا یا عبید اللہ بن عمر جذبات میں آ کران چھ افراد کو قتل نہ کرتے تو شاید قتل کی سازش بے نقاب ہو جاتی۔ فتح مکہ کہے موقع پر ایمان لانے والے مؤلفۃ القلوب ،حضرت عمر فاروق کے بعد طاقت پکڑ گئے۔ فتح مکہ کے بعد ایمان قبول کرنے والے مؤلفۃ القلوب ، ایمان میں سبقت کرنے والوں ( السبقون الاؤلون من المہاجرین و الانصار) سے جنگیں لڑتے رہے ۔ جب جنگ میں کفار رسول اللہ کی طرف رش کرتے تو صلی اللّٰہ علیہ وسلم انصار کے قبیلہ نجار کو آواز دیتے تو نجار کے نوجوان آپ کو اپنے گھیرے میں لے کر، آپ پر اپنی جانیں قربان کرتے ۔آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا، کہ انصار سے محبت کرنا ایمان کی نشانی ہے۔ آپ نے فرمایا تھا کہ میرے بعد انصار سے زیادتی کی جائے گی۔ ذرا تحقیق کیجئے کہ جنگیں کون کر رہے تھے؟ مؤلفۃ القلوب والوں کو کس نے حق دیا تھا کہ صحابہ کرام کی گردنیں پھلانگ کرمسلمانوں کی پہلی صف میں آئیں ؟ ۔ ان کو تو قرآن کے مطابق مسلمانوں کی پچھلی اور آخری صف میں ہونا چاہیے ۔ حضرت علی رات دن 23 سال تک رسول اللہ کے ساتھ رہے، رسول اکرم کی معیت میں ساری زندگی جن سے جنگیں لڑتے رہے ۔افسوس کہ حضرت علی کو پھر انہی سے جنگیں لڑنا پڑیں۔
خدا کا واسطہ ۔۔!
قرآن مجیدکی میرٹ لسٹ تو پڑھو ۔۔۔! 9/100 قرآن کریم کو نیزوں پر رکھ کر تاثر دیا گیا تھا کہ قرآن فیصل ہوگا۔
ہم کب اپنی زندگیوں میں قرآن مجید کو فیصل بنائیں گے ۔۔۔ !