قوسِ قزح ندارد
الفرڈ ہچکاک
ترجمہ ؛ قیصر نذیر خاور
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ الفرڈ ہچکاک فلمی دنیا میں گنتی کے اُن ناموں میں شمار ہوتا ہے جو اس کی تاریخ میں ہمیشہ درخشاں رہیں گے ۔ اس لکھاری ، ہدایت کار اور فلمساز کو کبھی آسکر نہ مل پایا لیکن یہ کچھ ایسا ہی ہے جیسے روسی ٹالسٹائی ، ولادیمیر نیبوکوف ، فرانسیسی مارسیل پرﺅسٹ ، آئرش جیمز جوائس ، برطانوی ورجینیا وولف ،ارجنٹینین جارج لوئی بورجس ، امریکی ہنری جیمز، اطالوی پریمو لیوی ، نائجیرین چنوا اچیبی جیسے ادیبوں کو کسی نہ کسی کارن نوبل انعام برائے ادب نہ دیا گیا ۔ ۔ ۔ ۔ ( اپنے مضمون سے اقتباس)
یہ الفرڈ ہچکاک کی لکھی چوتھی کہانی ہے جو پہلی بار ’ And There Was No Rainbow‘ کے نام سے ستمبر 1920 ء میں’ ہینلے ٹیلی گراف ‘ لندن ، برطانیہ میں شائع ہوئی تھی ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
رابرٹ شرووڈ ”بیزار“ تھا ؛ اور اس حقیقت میں شبے کی کوئی گنجائش نہ تھی ۔ وقت مشکل سے گزرتا کہ زندگی کی رعنایاں اس سے روٹھ چکی تھیں اور وہ وہیں واپس پہنچ گیا تھا جہاں سے چلا تھا ۔ ۔ ۔ کلب ۔ اب اسے معلوم نہ تھا کہ وہ آئندہ کیا کرے ؛ ہر چیز یکسانیت سے بھری ہوئی تھی ۔ اس نے کبھی آرام کی خاطر فراغت کے اِنہی دنوں کی خواہش کی تھی ! اور اب ۔ ۔ ۔ خیر، یہ فراغت کے ہی دن تھے ! اور وہ ' نَکو نَک ' بیزار تھا ۔
وہ ، جب ، اپنے دوست جِم کے ساتھ چہل قدمی کر رہا ہوتا تو وہ اپنے موجودہ حالات پر غور کرتا ۔ جِم اب شادی شدہ تھا ، یوں وہ اس سے ہمدردی جتا سکتا تھا ؛ لیکن یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ جِم کی زندگی میں شادی کا معاہدہ کسی طور اس ' روشن خیالی ' کا مظہر نہیں تھا جہاں بندہ ذرا سا بھی اس معاہدے پر پشیمان ہوا نہیں اور اس نے جھٹ سے جان چھڑائی ۔ جِم کے معاملے میں بات سادہ تھی ؛ وہ خوش قسمتی سے اپنی ازدواجی زندگی اطمینان سے گزار رہا تھا ۔
” کیسے ہو ، بوب ، بوڑھے چقندر! “
” تم کیسے ہو، جِم ؟ "
” تم ہشاش بشاش نہیں لگ رہے ۔ سب خیر ہے نا ! “
” اوہ ، میں تھک چکا ہوں ۔ ۔ ۔ اور بیزار بھی! “ اور بوب نے اپنی کتھا پھر سے شروع کر دی ۔
” تو کیا ہوا ، مجھے اس کا حل معلوم ہے ۔ تمہیں ایک لڑکی کی ضرورت ہے ! "
” ایک لڑکی! "
” ہاں: ایک اچھی جوان عورت کی ۔ ۔ ۔ کوئی ایسی جس سے تم اپنی چھوٹی چھوٹی خوشیاں اور غم بانٹ سکو ۔ ۔ ۔ اور پیسے بھی! ''
بوب نے نفی میں سر ہلایا اور بولا: ” نہیں ، یہ مناسب نہیں ہے؛ میری اٹھان اس طرح کی نہیں ہے ۔ اور پھر یہ بھی ہے کہ میں تو لڑکیوں کو جانتا ہی نہیں ۔ ''
” میری بات سنو ۔ تم نے صرف یہ کرنا ہے کہ کسی مضافاتی علاقے میں جاﺅ ۔ ۔ ۔ جیسے ، ’فل ہیم‘ ۔ ۔ ۔ اپنے اردگرد کے اچھے گھروں پر نظر دوڑاﺅ ، جو دل و دماغ کو اچھا لگے ، اس میں گھس جاﺅ اور ۔ ۔ ۔ اور ، خیر تمہیں اتنا تو پتہ ہی ہے کہ بات کہاں سے شروع کرنی ہے ! سادہ سی بات ہے دن کا وقت گزارنا ، وغیرہ وغیرہ ۔ “
بوب اٹھ کھڑا ہوا ۔ ” میں اس بارے میں سوچوں گا ۔ میں کسی کو نقصان نہیں پہنچانا چاہتا ، ویسے بھی اس طرح تو شاید ایک گھنٹہ ہی مشکل سے گزر پائے گا ۔ ''
'' یہ ہوئی نہ بات ، بوب ! “ جِم جوشیلی آواز میں چلایا ، ” مجھے بتاتے رہنا کہ تم اس کام میں کیسے جا رہے ہو ۔ “
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
موسلا دھار بارش ہو رہی تھی ، اندریں حالات بوب نے قسم کھائی کہ وہ ایسی ملاقاتوں سے پرہیز کرے گا جیسی ایک ملاقات کے لئے وہ جا رہا تھا اور بے چین تھا کہ یہ فریضہ جلد بھگت جائے ۔ یہ ایسے رشتہ داروں کی طرف پھیرے لگانے کا معاملہ تھا جہاں صرف بڈھے اور بدمزاج ہی ملاقات کے منتظر ہوتے تھے ، یہ ایک طرح کی بطور فرض ، لدی ملاقاتیں تھیں ۔ بارش تھی کہ تھمنے کا نام ہی نہ لے رہی تھی بلکہ اور تیز ہوگئی تھی اور اس کے پاس تو چھاتا بھی نہیں تھا ۔ وہ ایک گھر کے دروازے کے چھجے تلے کھڑا تھا ۔ کئی منٹ گزر گئے لیکن بارش میں کمی کے کوئی آثار نہ تھے ، اتنے میں برساتی میں ملبوس ایک ہیولا باغیچے کی راہداری پر چلتا اس کے پاس پہنچا ۔
” اوہو! '' ہیولا اسے دیکھ کر حیرانی سے بولا ۔
” معذرت خواہ ہوں “ ، بوب بولا ، ” میں تو یہاں صرف بارش سے بچنے کے لئے رکا ہوا ہوں ۔ مجھے امید ہے کہ آپ کو کوئی اعتراض نہ ہو گا ۔ ''
” نہیں ، بالکل نہیں“ ، اس نے تالے میں چابی ڈالتے ہوئے جواب دیا ۔ ” او خدایا ، “ وہ چلائی ، ” مجھ سے تو چابی گھوم ہی نہیں رہی ۔ “
” میں کوشش کرکے دیکھوں ؟ '' ، رابرٹ نے اپنی خدمات پیش کیں ۔ اس کے ہاں کرنے پر رابرٹ نے تالا کھولنے کی کوشش کی لیکن اسے بھی کامیابی نہ ہوئی ۔ ” دروازہ تو شاید اب طاقت کے زور سے ہی کھل پائے گا ۔ “ وہ بولا ۔
” اوہو ، کیا کوئی اور طریقہ نہیں ہے ؟ “
” میرا خیال ہے کہ اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ۔ مجھے لگتا ہے کہ چابی کا ایک دندا ٹوٹ چکا ہے ۔ شاید آپ سے چابی کہیں زور سے گری ہو ۔ “
” ہاں ایسا ہی ہوا تھا ۔ ۔ ۔ آج دوپہر ہی ، جب میں دروازے کو تالا لگا کر گئی تھی ۔ خیر ، اب اگر دروازہ صرف زور آزمائی سے ہی کھل پائے گا تو کیا آپ کوشش کریں گے؟ “
اس کے کندھے کے کچھ جھٹکے ہی دروازہ کھولنے کے لئے کافی ثابت ہوئے ۔
” آپ کا بہت بہت شکریہ“ ، وہ بولی ، ” اس مہربانی کے بدلے کیا میں، بارش کے تھمنے کا انتظار کرنے کے لئے آپ کو اندر آنے اور بیٹھنے کی پیش کش کر سکتی ہوں ؟ “
بوب ایک لمحے کے لئے ہچکچایا ؛ پھر اسے جِم کی صلاح یاد آئی اور اس نے شکریہ کہہ کر اس پیش کش کو قبول کر لیا ۔ اندر پہنچ کر اس نے آگاہی میں دیر نہ لگائی اور آدھے ہی گھنٹے میں وہ دونوں ایک دوسرے میں دل چسپی کا اظہار کرنے لگے ۔ ’ جِم شاطر ہے‘ بوب نے سوچا ،’ اس نے مجھے درست راستے پر ڈالا ہے۔ میں تو اس کا ٹھیک سے شکریہ بھی ادا نہیں کر پاﺅں گا ! وہ میری اس جرات مندی بارے جان کر ضرور خوش ہو گا ۔ ‘
وہ اس کے ساتھ گھنٹہ بھر مصروف رہا ۔ تب باہر سے قدموں کی آواز سنائی دی ۔
” میرا خاوند“ ، اس نے ہانپتے ہوئے سرگوشی کی ۔” اب میں کیا کروں ؟ تم کھڑکی کے راستے باہر نکل جاﺅ۔ ۔ ۔ چھپ جاﺅ۔ ۔ ۔ کچھ کرو ۔ ۔ ۔ جو بھی کرنا ہے جلدی کرو ! ''
” اوہو۔ ۔ ۔ کیا مصیبت ہے ! “ بیچارہ رومیو جھلایا ۔ ” ایک راستہ ہے! “ اس نے عورت سے کہا ؛ ” بتی بجھا دو ، جیسے ہی وہ اندر داخل ہو گا ، میں اندھیرے کا فائدہ اٹھا کر باہر نکل جاﺅں گا ۔ “
اس نے بتی کا سوئچ بند کر دیا اور کمرے میں اندھیرا چھا گیا لیکن ساتھ ہی عورت کا خاوند کمرے میں داخل ہوا اور اس نے دروازے کے پاس لگی دوسری بتی کا سوئچ دبا دیا ۔ کمرے میں روشنی ہوئی تو بوب بھاگنے کی تیاری پکڑے اس کے سامنے تھا ۔
” بوب ! ''
” جِم! ''
” تم گدھے کے بچے! '' وہ چلایا ، ” میں نے ’ فُل ہیم‘ کہا تھا ۔ ۔ ۔ ’ پیک ہیم ‘ نہیں! “
https://www.facebook.com/qaisar.khawar/posts/10153695621471895