انسان نے جب سے ترقی کے زینہ پر قدیم رکھا ہے تو اس نے بہت سی تہذیب کو جنم دیا ہے۔ ان میں سے بہت سی تہذیبوں نے عروج حاصل کیا اور بہت سی تہذیبیں عروج حاصل کئے بغیر مٹ گئیں۔ یہاں ہمارا موضوع بحث وہ تہذیبیں جنہوں نے عروج حاصل کیا اور پھر ذوال پزیر ہوئیں۔ کسی بھی تہذیب کا عروج ہی اس کے ذوال کا اعلان ہے۔ کیوں کے کسی تہذیب کو عروج حاصل ہونے کے بعد وہاں دولت کی فراہمی ہوجاتی ہے اور وہاں کے لوگ سہل پسند ہوجاتے ہیں اور تہذیب بہت تیزی سے ذوال پزیر ہونے لگتی ہے۔
تہذیبوں کے ذوال پزیر ہونے کے بہت سے اسباب ہیں۔ جن پر ابن خلدون اور ٹائین بی سے لے کر بہت سے دور جدید کے مفکرین نے اس اہم موضوع پر سیر حاصل بحث کی ہے اور بہت سے اسباب کی طرف اشارہ کیا ہے۔ تاہم میں ایک اہم نکتہ کی طرف لوگوں کی کم توجہ دی گئی ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کی طرف لوگوں کی بڑی تعداد میں نقل مکانی۔
ابن خلدون نے کسی بھی تہذیب کی اوسط عمر ایک سو بیس سال بتائی ہے۔ لیکن یہ حتمی عمر نہیں ہے اس میں کمی و بیشی ہوتی رہتی ہے۔ اس کی شرط یہ اپنی کمزوریوں اور کوہتاہیوں کا اھتساب اور اس پر بحث کی جائے۔ اس طرح مستحکم تہذیب ذوال پزیر ہونے کے بعد بھی فنا نہیں ہوتی ہیں بلکہ صدیوں میں جاکر فنا ہوتی ہیں مثلاً رومن تہذیب یا عباسی دور۔ لہذا اس پر تفصیلی بحث کی ضرورت ہے۔
جب کوئی تہذیب عروج حاصل کرتی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ ترقی یافتہ ہوگئی۔ لہذا وہاں معاشرے میں مال و دولت کی فراوانی ہوجاتی ہے۔ لوگوں کا رجحان اشیاء ضرورت سے بڑھ کر اشیاء تعیش کی طرف رجحان ہو جاتا ہے۔ کیوں کہ اس کے لیے ان کے پاس سرمایا ہوتا ہے اور وہ ذیادہ سے زیادہ اشیاء تعش حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اپنے کاموں کو خود کرنے کے بجائے غلاموں اور ملازموں سے کرانے لگتے ہیں۔ اس سے معاشرے میں بیرونی باشندوں کی طلب بڑھ جاتی ہے۔ کیوں کہ غیر ترقی یافتہ اور پسماندہ لوگ دور دراز سے لوگ روزگا کے لیے آنا شروع ہرجاتے ہیں۔ اس طرح سارے کاروبا غلاموں یا ملازموں کے ہاتھ میں آجاتا ہے۔
پہلے زر کے طور پر سونا استعمال ہوتا تھا۔ اس کے کسی تہذیب کو عروج حاسل کرنے کے لیے سونے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے لیے جو قومیں طاقت ور ہوتی تھیں اور دوسرے ممالک پر حملہ کرکے وہاں کے لوگوں کو غلام بنالیا کرتی تھیں۔ اس سے ان کے پاس دولت کی فراوانی اور لوندیاں اور غلام آنا شروع ہوجاتے تھے۔ لیکن ان حملہ آور قوموں کے لیے یہ عروج زیادہ عرصہ نہیں ہوتا تھا۔ خاص کر اس وقت جب اس نے کسی تہذیب اور ترقی یافتہ ملک پر حملہ کیا ہو۔ کیوں کہ ایک طرف حملہ آور تعیش اور آرام میں اور غلاموں کی وجہ سے کاہل اور سہل پسند ہوجاتے تھے۔ ایک طرف تو ان کی وہ اولاد ان لونڈیوں سے پیدا ہوتی تھی وہ نسلی اختلاط کی وجہ سے اپنی ماؤں کی ثقافت اور زبان کو پسند کرتی تھی اور دوسری طرح حملہ آور خود بھی وہاں کی ثقافت اور زبان کو پسند کرنے لگتے تھے۔ یہ تک حملہ قوم جس نے دوسری کو کیوں کے عموماً قوم تعیش میں پڑھ کر مزید فتوحات کے سلسلے کو جاری رکھنے کے قابل نہیں رہتی تھی اور یا تو وہ غلاموں کے ہاتھوں کٹ پتلی بن جاتے اور وہ اپنی مال دولت خرچ کرنے کے بلکل ناکارہ ہو جاتے تھے۔ ہمارے سامنے منگولون کی مثال ہے۔ جو کہ ایرانیوں اور چینوں کو زیر دست کرنے کے باوجود ان کی ثقافت و مذہب کے آگے سرنگوں ہوگئے۔
پہلے کسی طاقت ور قوم کے حملوں کی وجہ سے باہر سے لوگ غلاموں کی شکل میں آتے تھے۔ اس طرح بیرونی آبادی کی تعدا اس قدر بڑھ جاتی تھی۔ اگر یہ حملہ کامیاب ہوں اتنی بڑی تعداد میں لونڈی اور غلاموں کی تعداد مقامی لوگوں سے بڑھ جاتی ہے۔ اس بہت بڑی مثال مدینہ کی تھی۔ حضرت عثمان کے وقت مدینہ آبادی صرف سینتس ہزار تھی۔ مگر وہاں غلاموں کی تعداد دو لاکھ تھی۔ لہذا حضرت عثمانؓ کے خلاف جو بغاوت ہوئی غیر متوقہ نہیں تھی۔ اس بغاوت کے بہت سی اور وجوہات بتائی جاتی ہیں۔ لیکن یہ حقیقت ہے ان کے بیس سالہ دور میں کسی صحابہ نے ان پر اعتراض نہیں کیا تھا۔ جب کہ بیرونی لوگوں اور خاص کر غلاموں کی ایک بڑی تعداد خود بخود بغاوت کا طاقت ور اور موثر اسباب تھا۔ نئے خلیفہ حضرت علیؓ بنائے گئے۔ حضرت علیؓ جو خود بھی خلافت کے خواہشمند تھے۔ اس لیے باغیوں کو ایک مہرہ مل گیا اور نئے خلیفہ پوری طرح باغیوں کے زیر اثر آگئے۔
حضرت علیؓ جو خود بھی باغیوں کی زیر اثر تھے۔ لہذا بغاوت کے مخالفین سے مقابلہ و مجاولہ ہونا لازمی تھا اور ہوا۔ یہی وجہ ہے حضرت علیؓ کا دور خانہ جنگی کا دور تھا۔ جس کے نتیجے میں نہ صرف سیاسی اختلافات نے جنم لیا، جس نے اس نتیجے میں مذہبی اختلاف پیدا ہوگئے۔ کیوں کہ باغیوں کی اکثریت ایرانی نسل تھی انہوں نے اپنے عقیدے اسلام میں کھپائے، جس کے نتیجے اسلام میں بہت بڑا تفرقہ پیدا ہوگیا اور بہت سے فرقوں نے جنم لیا۔
اس میں غور طلب بات یہ ہے مدینہ میں غلاموں بڑھتی ہوئی تعداد نے مسلمانوں کو عیش و آرام میں ڈال دیا اور ان کے اثر و رسوخ میں اضافہ ہوا۔ یہی اضافہ جس نے حضرت علیؓ ہی اس بغاوت کا سبب بنا۔ حلانکہ حضرت عثمانؓ کے بیس سالہ دور میں کسی صحابہ نے ان کے طرز عمل اعتراض نہیں کیا۔ مگر ایران کی فتح کے بعد غلاموں کی کثیر تعداد مدینہ لائی گئی اور جیسے جیسے ان اثر و رسوخ میں اضافہ ہوتا گیا بغاوت کے اسباب مہیا ہوتے گئے۔
کیا مغرب کا ذوال قریب ہے؟
پہلے ذکر ہوچکا ہے کہ جب کوئی قوم ترقی یافتہ ہوتی ہے اور وہاں مال دولت کی فراوانی ہوجاتی ہے اور وہاں لوگ روزگار کی تلاش میں دور دراز کے علاقوں سے آتے ہیں۔ جب آپ مغلوں کے دور کی تاریخیں پڑھیں گے تو یورپینوں کا ذکر عام ملے گا جو کہ روزگار کی تلاش میں برصغیر آئے اور یہاں مختلف ملازمتیں کررہے تھے۔ کسی ملک میں لوگوں کی بڑے پیمانے پر نقل و مکانی چاہے وہ کسی بھی سلسلے میں ہو حملہ کی ایک ہی صورت ہوتی ہے۔
اب کسی ملک پر حملہ نہیں کرکے اس پر قبضہ نہیں کیا جاتا ہے بلکہ اس ملک کی اقتصادیات پر قبضہ کیا جاتا ہے۔ لیکن کسی قوم کی اقتصادیات پر قبضہ سے موثر طریقہ طاقت ور ملکوں کی طرف ترقی پزیر ملکوں کے لوگوں کی بڑے پیمانے پر نقل مکانی ہے۔ نقل مکانی کسی ملک پر حملہ یا اس ملک کی اقتصادیات پر قبضہ کرنے سے بہت زیادہ بہتر ہے۔ کیوں کہ حملہ کی صرورت میں حملہ آور کو آخر کار واپس جانا پڑتا ہے۔ جس طرح برطانیہ کو برصغیر خالی کرنا پڑا۔ لیکن نقل مکانی کی صورت میں اور وہاں کی شہریت حاصل کروانے والوں کو ملک سے نہیں نکلا جاسکتا ہے۔ برصغیر میں آنے والے یورپیوں نے روزگار اور تجارت کے لیے آئے اور ملک پر سخت خون خرابے کے بعد قبضہ کیا تھا۔ لیکن روزگار کے لیے دوسرے ملکون میں جانے والے وہاں شہری بن جاتی ہیں اور اس میں کوئی خون و خرابہ نہیں ہوتا ہے۔
موجودہ ترقی یافتہ ملکوں کا المیہ یہ ہے کہ وہاں ترقی اور دولت کی فراوانی کے باوجود وہاں کی شرح پیدائش مسلسل گرتی جارہی ہے۔ حالانکہ وہاں مسلسل ترغیبات اور سہولتیں دے کر بچے پیدا کرنے حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔ مگر وہاں لوگ اس پر توجہ ہی نہیں دے رہے ہیں۔
یہی وجہ ہے وہاں افرادی قوت کی شدید کمی ہوتی جارہی ہے اور وہ مختلف کاموں کے لیے ایشیائی ملکوں سے لوگوں کو آنے کی اجازت دینے پر مجبور ہیں۔ وہاں مقامی لوگوں کی اکثریت بڑے عمر کے لوگوں کی ہے اور بچوں کی تعداد نہایت خطرناک حد تک کم ہوچکی ہے۔ خاص کر جاپان کی صورت حال بہت خراب ہے۔ وہاں کی آبادی میں بچوں اور نوجوانوں کی تعد کم اور 65 سے زیادہ عمر بوڑھے زیادہ ہوگئے ہیں۔ اس لیے وہاں کام کرنے والوں کی شدید کمی ہے۔ مگر جاپان تارکین وطن کی اجازت نہیں دے رہا۔
یہاں یہ سوال کیا جاسکتا ہے مغرب میں کام کرنے والوں کی شدید کمی ہے اور وہ مجبور ہوکر تارکین وطن اجازت دے رہا ہے تو وہاں ویزوں پر اتنی سخت پابندیاں کیوں ہیں؟
اس کی وجہ یہ تیسری دنیا کے ملکوں کی معاشی اور امن و امان کے حالات بہت خراب ہیں۔ عرب ملکوں، افغانستان، ایران اور چین میں سیاسی اختلافات کی وجہ سے اور برصغیر کے لوگ بہتر مستقل کی تلاش میں مغربی ممالک جانے کا رجحان بہت بڑ چکا ہے۔ وہاں روزگا اور شہریت حاصل کرنے خواہشمندوں کی تعداد میں روز بروز مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور قانونی راستوں کے علاوہ غیر قانونی طریقے سے جانے والوں کی تعداد میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا۔ خدشہ ہے اگر ان سب کو اجازت دے دی گئی تو مقامی باشندے اقلیت میں ہو جائیں گے۔ یہی وجہ مغربی ملکوں میں تارکین وطن پر سخت پابندیاں لگائی ہوئی ہیں۔ وہاں کے ویزا کے خواہشمندوں کی تعداد اس قدر زیادہ ہے پابندیوں کے باوجود ایک بڑی تعداد ان شرائط کو پورا کرلیتی ہے۔ اس طرح امریکہ بھی وقفاً وقفاً غیر قانونی اور قانونی تارکین وطن کے لیے ایسے پیکیج کا اعلان کرتا رہا ہے اور انہیں امریکہ میں رہنے کی اجازت دیتا رہتا ہے۔ کیوں کہ وہاں بھی کام کرنے والوں کی شدید کمی ہے۔ اس لیے مغرب میں ایشیائی تارکن وطن کی تعداد بہت بڑھ چکی اور ان ملکوں میں ایسے بہت سے علاقے وجود میں آچکے ہیں جہاں صرف کسی خاص قومیت کے ایشائی باشندے رہتے ہیں۔ وہاں جا کر ایسا نہیں لکتا ہے کہ ہم کسی مغرب ہیں۔ ان میں چین، پاکستان اور بھارت کے تارکین وطن کی برادریاں قابل ذکر ہیں۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس نقل مکانی کے آئندہ مستقبل میں کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ یہ بہت اہم سوال ہے اور اس پر تفصیلی بحث کی ضرورت ہے۔
مغرب میں بچوں کی پیدائش کی کمی کے رجحان پر پہلے بات ہوچکی ہے۔ وہاں لوگوں میں بچوں کو پیدا کرنے کا رجحان خطرناک حد تک کم ہوگیا ہے اور یہ شرح پیدا 1.2 ہوگئی۔ ماہرین کا کہنا اس شرع پیدائش پر معاشرہ قائم نہیں رہ سکتا ہے اور ایشائی لوگوں میں بچے زیادہ پیدا کرنے کا رجحان ہے۔ اس بھی ان تعداد میں مسلسل اضافہ اور ساتھ ہی ان کے اثر و رسوخ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ان ملکوں میں بہت سے تارکین وطن وہاں کی پالیمنٹ ممبر بن رہے ہیں۔ ان تارکین وطن کا پالیمنٹ کا میمبر ہونا برطانیہ میں عام بات ہوگئی ہے۔ برطانیہ میں ایک نہ ایک تارکین وطن وزیر کابینہ میں ضرور ہوتا ہے۔ یعنی حکومتیں ان ایشیائیوں کو ناراض کرنے کا خطرہ مول نہیں لیتی ہیں۔ اب ملکی پالیسیوں کو مرتب کرنے میں ان کا عمل دخل ہونے لگا ہے۔ جس رفتار سے تارکین وطن کی تعداد بڑح رہی ہے اس سے بخوبی اندازہ لگایا جارہا ہے کہ وہ وقت دور نہیں اور جلد ہی تارکین وطن اکثریتی طبقہ ہوگا۔ اس طرح ان ملکوں پر حکمرانی بھی تارکین وطن کی ہوگی۔ تاکین وطن کی بڑھتی ہوئی تعداد سے وہاں کی ثقافتی اور تہذیبی تبدیلیاں بھی واقع ہورہی ہیں۔ وہاں اب ان تارکین وطن کے تہوار بڑے پیمانے پر بنائے جارہے۔ اگرچہ ان تارکین وطن کے مقامی باشندوں سے تعلقات مختلف سطح پر تعلقات بڑھ رہے ہیں اور ان کے درمیان شادیاں بھی ہوری ہیں۔ مگر ان کے مابین نسلی میل جو اتنا زیادہ نہیں بڑھا ہے۔کیوں کہ مغرب میں شادی یا مستقل ازواجی تعلقات رجحان کم ہو رہا۔ جب کہ تارکین وطن گھر اور اپنی روایات کو اہمیت دیتے ہیں۔
تاہم تارکین وطن کے اثر و رسوخ میں جس تیزی سے اضافہ ہورہا اس سے صاف ظاہر ہے کہ ان مغربی ملکوں کو زیر دست کرلیں گے اور اس کی تہذیب ذوال پزیر ہوجائے گی۔ یہ سب ممکن ہے یا نہیں یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ لیکن حالات یہی بتارہے ہیں۔ مغربی مفکرین کو اس ذوال کا احساس ہے اور وہ تارکین وطن کے خلاف آوازیں بلند کر رہے اور ان کی آواز سنی بھی جارہی ہے۔ لیکن بچوں کی کم پیدائش اور مختلف کاموں کے لیے لوگوں کی کمی کی وجہ سے یہ کوئی اہم کردار ادا نہیں کر پارہے ہیں۔ تاریخ اپنا قرض چکائے گی۔ کبھی مغرب نے مشرق کو غلام بنایا تھا اور اب مشرق مغرب پر چھا رہا ہے۔
تھریر و تہذیب
(عبدالمعین انصاری)