11اپریل 2021ء کو منہاج یونی ورسٹی لاہور کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی قومی زبان و ادب کانفرنس (آن لائن) اپنی نوعیت کی پہلی کانفرنس تھی۔ اس جیسی علمی و ادبی کانفرنسوں کا انعقاد کروانا سرکاری یونی ورسٹیوں کی ترجیحات میں شامل ہوتا ہے لیکن کسی بھی سرکاری یونی ورسٹی کے برعکس یہ اعزاز بھی منہاج یونی ورسٹی لاہور کے حصے میں آیا کہ اس نے ایک عالمی سطح کی کانفرنس کا کامیابی سے انعقاد کروایا۔
اس اپنی نوعیت کی پہلی کانفرنس کی کامیابی کا سہرا 4ستونوں کے سر جاتا ہے جنہوں نے دن رات کی ان تھک کوششوں سے کانفرنس کا انعقاد کروایا، اور اس کو 4 چاند لگا دیئے!
(1) ڈاکٹر حسین محی الدین قادری، ڈپٹی چیئرمین، بورڈ آف گورنرز، منہاج یونی ورسٹی لاہور۔(2) ڈاکٹر ساجد محمود شہزاد، وائس چانسلر، منہاج یونی ورسٹی لاہور۔ (3) ڈاکٹر مختار احمد عزمی، شعبہ اردو، منہاج یونی ورسٹی لاہور۔ (4) ڈاکٹر خرم شہزاد، منہاج یونی ورسٹی لاہور۔ یہ تھے وہ 4 ستون کہ جن کی محنت کی بدولت منہاج یونی ورسٹی لاہور ایک عالمی سطح کی کانفرنس منعقد کروانے میں کامیاب ہوئی۔ ڈاکٹر ندیم جعفر اور ڈاکٹر ناصر بلوچ کی خدمات بھی سراہنے کے قابل ہیں۔ 4 نشستوں پر مشتمل اس کانفرنس میں ملک بھر کی یونی ورسٹیوں سے شامل ہونے والے اراکین نے انتہائی کم وقت میں اپنے مقالات پیش کیے۔ جن میں ڈاکٹر یوسف خشک، ڈاکٹر عظمت رباب، ڈاکٹر محمدشیر علی، ڈاکٹر محمد افتخار شفیع، ڈاکٹر انیلا اسلم، ڈاکٹر الماس خانم، ڈاکٹر محمد امتیاز، ڈاکٹر بی بی امینہ، ڈاکٹر طارق ہاشمی، ڈاکٹر محمد اشرف کمال، محمد شیخ مرزا، ڈاکٹر نجیب جمال، ڈاکٹر فخرالحق نوری شامل ہیں۔
ڈاکٹر فخر الحق نوری ڈین فیکلٹی آف لینگویجز منہاج یونی ورسٹی لاہور ہیں۔ انہوں نے انتہائی کم وقت میں انتہائی اہم مسائل کی طرف اراکینِ کانفرنس کی توجہ مبذول کروائی اور اپنے تجربات کی روشنی میں اردو کی اہمیت اور بقاء پر بحث کی۔ ڈپٹی چیئرمین بورڈ آف گورنرز منہاج یونی ورسٹی لاہور ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے قومی زبان و ادب (و رچوئل) کانفرنس کی افتتاحی نشست سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قومی زبان کی افادیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ عزوجل کی جانب سے جتنی بھی الہامی کتب اس دنیا میں نازل کی گئی ہیں وہ سب پیغمبرانِ خدا کی قوموں کی زبانوں کے مطابق اتاری گئیں۔ کسی بھی قوم کے تشخص کے لیے وہاں کی قومی زبان ایک کلیدی اہمیت رکھتی ہے۔ مگر بدقسمتی سے پاکستان کی قومی زبان اردو تاحال زبوں حالی کا شکار ہے۔ انہوں نے کہا کہ پچھلے 70 سالوں میں مختلف زبانوں میں (پی ایچ ڈی) مقالوں کی تعداد 3042 ہے، اس کے مقابلے میں اردو زبان میں (پی ایچ ڈی) مقالوں کی تعداد محض 448 ہے، جو کہ اردو شناسوں کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے۔ انہوں نے اس امر کی طرف بھی توجہ مبذول کروائی کہ کس طرح 1973ء کے آئین میں ایک شق رکھی گئی کہ آئندہ 15 سالوں میں اردو کو ملک کی سرکاری زبان کا درجہ دے دیا جائے گا اور پھر اچانک کس طرح ان 15 سالوں کو (As soon as possible) میں تبدیل کر دیا گیا۔
کانفرنس کی اختتامی نشست میں مباحثے کا بھی اہتمام کیا گیا جس میں پروفیسر ڈاکٹر خالد ندیم، پروفیسر ڈاکٹر روبینہ رفیق اور ڈاکٹر جمیل اصغر نے حصہ لیا۔ ڈاکٹر فضیلت بانو نے کانفرنس کے اختتام پر انتظامیہ کانفرنس کی جانب سے اردو زبان کی ترویج و ترقی کے لئے سفارشات بھی پیش کیں۔
بلاشبہ و مبالغہ قومی زبان و ادب کانفرنس آن لائن تھی لیکن ایک لمحے کے لیے بھی اراکین، سامعین و ناظرین کو یہ محسوس نہیں ہوا کہ وہ میلوں فاصلے پر بیٹھے ہیں بلکہ ان کے تاثرات یہی تھے کہ سب ایک چھت تلے کسی ادبی محفل سے محظوظ ہو رہے ہیں۔ ڈاکٹر حسین محی الدین قادری، ڈاکٹر ساجد محمود شہزاد، کوارڈی نیٹر ڈاکٹر مختار احمد عزمی، ڈاکٹر خرم شہزاد، ڈاکٹر فخر الحق نوری یہ سب اردو شناس مبارک کے مستحق ہیں کہ جن کی کوششوں سے منہاج یونی ورسٹی لاہور ایک ادبی فریضہ عملی طور پر سرانجام دینے میں کامیاب ہوئی۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...