پاکستان میں اکثر ہم دیکھتے ہیں کہ لوگوں کو اُن کی لسانی شناخت سے دستبردار ہونے یا بھولنے کا کہا جاتا ہے۔ اُنھیں کہا جاتا ہے کہ وہ یا تو مسلمان ہیں یا پاکستانی، اس کے علاوہ اُن کی کوئی شناخت نہیں۔ لیکن ایسا کہنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ پاکستان میں رہنے والے لوگوں کی لسانی شناخت پاکستان بننے سے قبل کی ہیں اور اُن کی کئی سو سالہ، یا ہزار ہا سال کی تاریخ ہے اور اُنھوں نے پاکستان بننے کی حمایت اس لیے نہیں کی تھی کہ وہ اپنی لسانی شناخت سے دستبردار ہوجائینگے۔ اس کا سب سے پہلے تجربہ لوگوں کو اس وقت ہوا جب قائدِ اعظم نے ڈھاکہ جا کر بنگالیوں کے سامنے یہ اعلان کیا کہ پاکستان کی قومی زبان صرف اُردو ہوگی۔ بنگلہ دیش کے بانی شیخ مجیب الرحمٰن کی خود نوشت “ادھوری یادیں” میں لکھا ہوا ہے جب قائدِ اعظم نے یہ اعلان کیا تھا اُسی وقت مجمع میں سے اُن کے اس اعلان کے خلاف آوازیں بلند ہوئیں تھیں۔ لیکن شیخ مُجیب الرحمٰن قائدِ اعظم سے حُسنِ ظن رکھتے تھے اور اُن کا خیال تھا کہ جنّاح صاحب کو اس ضمن میں عوامی جذبات سے بے خبر رکھا گیا تھا اور اگر قائدِ اعظم زندہ رہتے تو وہ اپنے فیصلے پر ضرور نظرِ ثانی کرتے۔ لیکن قائدِ اعظم کی زندگی نے وفا نہیں کی اور اُن کے بعد آنے والے رہنما ناعاقبت اندیش نکلے۔ زبان کسی بھی قوم کی شناخت کا بنیادی عنصر ہے۔ کسی سے اُس کی زبان سے دستبردار ہونے کا مطالبہ کرنا اُس کی شناخت کو مسخ کرنے کے مترادف ہے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان میں ایسا کیا گیا۔ جس کے نتیجے میں مختلف قومیتوں نے اپنے آپ کو پاکستان میں اجنبی محسوس کیا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ زبان اور شناخت کے معاملے میں مختلف قومیتوں کی حسّاسیت کا ادراک کیا جاتا اور مختلف زبانوں کو قومی زبان کی حیثیت سے تسلیم کیا جاتا لیکن اُردو کو سب پر مُسلّط کیا گیا۔ جس کا سب سے پہلا نتیجہ ہم نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور بنگلہ دیش کے قیام کی صورت میں دیکھا۔ اگر ہم اپنے اطراف میں دیکھیں تو ہمیں مختلف ملک نظر آتے ہیں جو کثیرالسانی ملک ہیں اور اُنھوں نے اپنے ملک کی مختلف زبانوں کو قومی/ علاقائی زبان کا درجہ دے کر اُنھیں تحفّظ فراہم کیا ہے۔ اس کا نتیجہ اُن ملکوں کے لوگوں کا آپس میں جُڑنے میں نکلا ہے نا کہ انتشار کی صورت میں۔
اس سلسلے میں ہم سب سے پہلی مثال اپنے پڑوسی ملک بھارت کی لے سکتے ہیں۔ بھارت بھی پاکستان کی طرح کثیرالسانی ملک ہے۔ ویسے تو بھارت میں دو سرکاری زبانیں ہے انگریزی اور ہندی لیکن بھارت کے آئین میں 22 علاقائی زبانوں کو recognize کیا گیا ہے۔ ان زبانوں میں آسامی، بنگالی، بوڈو، ڈوگری، گجراتی، ہندی، کنناڈا، کشمیری، کونکانی، ملیالم، منی پوری، مراٹھی، میزو، نیپالی، اوڈیا، پنجابی، سنسکرت، سنٹالی، سندھی، تامل، تیلگو، اور اُردو شامل ہیں۔ جبکہ بھارت میں مقامی طور پر بولی جانے والی زبانوں کی تعداد 447 ہے۔ شروع میں بھارت میں بھی یہ کوشش کی گئی تھی کہ ہندی کو قومی زبان کا درجہ دیا جائے لیکن دوسری لسانی اکائیوں خاص طور پر تامل ناڈو کی عوام کی طرف سے اس کی سختی سے مخالفت کی گئی۔ ہندوستان میں اس کا حل یہ نکالا گیا کہ اتنی ساری زبانوں کی موجودگی کوئی ایک زبان بھارت کی قومی زبان نہیں ہوگی بلکہ ملک بھر میں بولی جانے والی زبانوں میں سے 22 زبانوں کو سرکاری سطح پر تسلیم کیا گیا۔ اس سلسلے میں بھارت میں جو آئینی انتظام کیا گیا اُس کو 8th شیڈول کہا جاتا ہے۔ اس شیڈول میں شامل زبان بھارت کی سرکاری زبانوں میں شمار کی جائیگی۔ اس شیڈول کی اہمیت اس وجہ سے ہے کہ اس میں شامل زبانوں کی ترویج کی ذمّہ داری بھارت کی حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ سرکاری نوکریوں کے لیے ہونے والے مقابلے کے امتحان میں میں بیٹھنے والے امیدوار اپنے جوابات اُن میں سے کسی بھی زبان میں دے سکتے ہیں۔
تین زبانی فارمولہ (Three Language Formula)
اس فارمولہ کے تحت اس بات کی سفارش کی گئی کے بھارت کی شمال کی ریاستوں میں جہاں ہندی بولی جاتی ہے انگریزی، اور ہندی کے ساتھ کوئی ایک جنوب کی زبان پڑھائی جائے گی۔ اسی طرح باقی ریاستوں میں انگریزی اور ہندی کے ساتھ کوئی علاقائی زبان پڑھائی جائے گی۔
قارئین بات یہیں پر ہی نہیں رک جاتی بلکہ بھارت میں مختلف حلقوں کی جانب سے مزید 39 زبانوں کو 8th شیڈول میں شامل کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ ایک کثیرالسانی ملک ہونے کی وجہ سے بھارت نے زبان کے مسئلے کو کس طرح سے حل کیا ہے۔ یہ کوئی مثالی صورتحال نہیں ہے لیکن ایسا کر کے بھارت نے مختلف اکائیوں کو اکٹھا کیا ہوا ہے۔ یہی نہیں بلکہ 1947 کے بعد ہندوستان میں مختلف وقتوں میں مزید ریاستیں بنائی گئیں جن میں کئی ریاستیں زبان کی بنیاد پر بھی بنائی گئیں۔ جیسے تامل ناڈو کی ریاست تامل زبان بولنے والے لوگوں کے لیے بنائی گئی۔ آندھرا پردیش تیلگو بولنے والوں کے لیے، کرناٹکہ، کنناڈا بولنے والوں کے لیے، کیرالہ، ملیالم بولنے والے لوگوں کے لیے، مہاراشٹر، مراٹھی بولنے والوں کے لیے، جبکہ اُڑیسہ، اُڑیا زبان بولنے والوں کے لیے بنائیں گئیں۔
پاکستان میں ہم دیکھتے ہیں کہ اس کے برعکس کیا گیا۔ قائدِ اعظم نے اعلان کردیا کہ اُردو پاکستان کی واحد قومی زبان ہوگی۔ اس کے ساتھ ساتھ اُنھوں نے یہ کہ دیا تھا کہ صوبے مُقامی زبانوں کی ترقّی و ترویج کا اہتمام کرینگے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ لوگوں نے اس بات کو تسلیم نہیں کیا۔ اور آج تک زبان کو لے کر مختلف حلقے آواز اُٹھاتے رہتے ہیں کہ اُن کی زبان کو سرکاری سطح پر تسلیم کیا جائے۔ پاکستان میں بولی جانے والی زبانوں کا جائزہ لیا جائے تو اُن کی تعداد 77 بنتی ہے جن میں پنجابی(%38.78)، پشتو(%18.24)، سندھی(%14.57)، سرائیکی(%12.19)، اُردو(%7.08)، بلوچی(%3.02)، ہندکو(%2.44)، بروہی(%1.24)، کوہستانی(%0.35) بڑی زبانیں ہیں۔ تو دیکھا جائے تو پاکستان کی نو بڑی زبانیں ہیں جن کو سرکاری سطح پر تسلیم کیے جانے کی ضرورت ہے۔ بھارت جس میں آئین کے تحت کوئی قومی زبان نہیں (بلکہ وہاں کئی زبانوں کو سرکاری سطح پر تسلیم کیا گیا ہے) میں زبان کو لے کر مسئلے مسائل نہیں ہیں۔ ہاں یہ ہے کہ کئی دوسری زبان بولنے والے آواز اُٹھاتے رہتے ہیں کہ اُن کی زبان کو سرکاری سرپرستی فراہم کی جائے۔
کینیڈا میں ہم دیکھتے ہیں کہ ویسے تو انگریزی اور فرنچ یہاں کی دو سرکاری زبانیں ہیں لیکن کینیڈا کی حکومت دوسری کئی زبانوں میں معلومات کی فراہمی کا بندوبست کرتی ہے۔ اس سلسلے میں مردم شماری کے اعداد و شمار سے مدد لی جاتی ہے۔ کینیڈا کی حکومت کی ویب سائٹ پر عربی، فارسی، جرمن، لاطینی، گجراتی، ہندی، اطالوی، کورین، پولش، پنجابی، رشین، چائینیز، اسپینش، تیگالوگ، تامل، ولندیزی،اُردو، اور ویتنامی زبان میں معلومات دیکھی جاسکتی ہیں۔ اس کے علاوہ کینیڈا میں آپ جس شہر میں بھی چلے جائیں وہاں کی لائبریریوں میں انگریزی، اور فرنچ کے علاوہ دنیا کی کئی زبانوں میں کتابیں مل جائینگی۔
آج کل جدید ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ آپ کمپیوٹر کے ذریعے کسی بھی زبان میں لکھ سکتے ہیں۔ اسی طرح ایک تحریر کا کئی زبانوں میں ترجمعہ منٹوں میں کیا جاسکتا ہے۔ ایسے میں اگر پاکستان میں مختلف زبانوں کو سرکاری سرپرستی فراہم کی جائیگی اور حکومتِ پاکستان اپنی معلومات مُقامی زبانوں میں لوگوں کو فراہم کرے گی تو لوگوں میں ریاست میں شمولیت کا احساس پیدا ہوگا۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...