تو جو نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے
یہ مانا کہ محفل جواں ہے حسیں ہے
نہایت افسوس کے ساتھ لکھنا پڑ رہا ہے کہ پاکستان کے نامور اور عہدِ حاضر میں سب سے قدیم گلوکار سنی بینجمن جون المعروف ایس بی جون کراچی میں انتقال فرماگئے انا للہ وانا الیہ راجعون ۔۔۔یہ خبر دوپہر کو ان کے صاحبزادے گلین جون نے نیوز چینلز کو دی تھی چونکہ وہ پاکستان میں نہیں ہیں اسی لیے ہسپتال انتظامیہ نے دوبارہ آگاہ کیا کہ ایس بی جون کی سانسیں بحال ہوگئی ہیں تو ایک مخمصہ پیدا ہوگیا تھا تاہم شام 5 بجے گلین جون نے ہی خبر کی تصدیق کردی ۔
ایس بی جون صاحب 1934 کو کراچی میں پیدا ہوئے ۔ قیامِ پاکستان سے قبل وہ لاہور اور 1949 میں دوبارہ کراچی آگئے ۔ وہ لاہور و کراچی کے کیتھولک چرچ میں مسیحی گیت گاتے تھے۔ 20 مئی 1950 کو انھوں نے ریڈیو پاکستان کراچی کے پروگرام " سنی ہوئی دھنیں " میں اپنا پہلا گانا گایا جو ارم لکھنوی کا تحریر کردہ ایک گیت تھا ۔ اس کے بعد ایس بی جون صاحب پہ موسیقی کے دروازے کھلتے ہی چلے گئے ۔ میری ذاتی تحقیق کے مطابق وہ اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے پہلے گلوکار بنے جنھوں نے اردو میں قومی نغمہ گایا ہو ۔ اگست 1950 میں انھوں نے کلامِ اقبالؒ " ہو تیرے بیاباں کی ہوا تجھ کو گوارہ " پاکستان کے تناظر میں گاکر یہ اعزاز حاصل کیا کیونکہ اس وقت پاکستان نامساعد حالات سے گذر رہا تھا تو اسی لیے مہدی ظہیر نے ملی نغمے کے لیے اقبالؒ کا یہ کلام منتخب کیا تھا ۔ تحقیق کے بعد ایس بی جون کا یہ منفرد اعزاز انھیں بتایا تو وہ اس پر بے حد خوش اور راقم الحروف کے لیے دعاگو تھے کیونکہ یہ وہ ریکارڈ ہے جو کبھی نہیں ٹوٹ سکتا ۔۔۔!!
فلم " سویرا" کے لیے ان کی آواز میں جہاں " تو جو نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے , یہ مانا کہ محفل جواں ہے حسیں ہے " بے انتہا مقبول ہوا تو وہاں کئی گیت اور غزلیں بھی عوام میں مشہور ہوئیں لیکن جون صاحب کا تعارف اگر بطور قومی گلوکار کرواؤں تو ہوسکتا ہے سب کو حیرت ہو کیونکہ خود ایس بی جون بھی حیران تھے کہ ان کی آواز میں ملی نغمات کی ایک بڑی تعداد ہے ۔۔۔ !! تاہم یہ نغمات کہیں محفوظ نہیں تو اسی لیے ان کا یہ کارنامہ عوام سے اوجھل ہے ہاں ان کی آواز میں ساقی جاوید کا تحریر کردہ قومی نغمہ " اے ارض وطن تو ہی بتا تیری صدا پر کیا ہم نے کبھی فرض سے انکار کیا ہے " جو ایس بی جون نے خود ہی کمپوز کیا تھا ایک ایسا استفہامیہ قومی نغمہ جسے اگر بغور سنا جائے تو آنکھیں بھیگ جائیں ۔ یہ نغمہ ان سے اس وقت کے وزیر اعظم ذولفقار علی بھٹو نے بھی بارہا سنا ۔ جون صاحب نے جنگِ ستمبر سے قبل بھی یادگار قومی نغمات گائے تھے جن میں " نئی صبح کو سلام " , " نیا وطن ہے دوستو" اور " پرچم ستارہ و ہلال جگمگائے جا " ساٹھ کی دہائی کے اوائل کے مقبول قومی نغمات تھے ۔ جنگِ ستمبر 1965 میں انھوں نے آواز کا مورچہ سنبھالتے ہی پرجوش جنگی ترانے گائے بلکہ تاج ملتانی کے مقبول نغمے " جنگ کھیڈ نئیں ہوندی زنانیاں دی " کے لیے پہلے انھی کا انتخاب ہوا تھا جو ریکارڈسٹ امتیاز مرحوم سے ناچاقی کی وجہ سے نہ ہوسکا مگر جون صاحب کے بھی بقول اس دن تاج ملتانی کو تاج ملتانی بننا تھا ۔۔۔ ! اسی دوران انھوں نے پاک فضائیہ کے لیے رئیس امروہوی کا تحریر کردہ نغمہ " فضائیہ کو فتح مبیں مبارک ہو " بھی گایا جو 1970 تک فضائی فتح نامہ کے طور پر پاک فضائیہ کی طرف سے منعقدہ سرکاری تقاریب میں بھی گایا جاتا ۔ دوران جنگ انھوں نے افضل منہاس کا تحریر کردہ قومی نغمہ " میرا نام پاکستان " بھی گایا جس پر انھیں حکومتِ پاکستان کی جانب سے اعزازی سند بھی ملی ۔ صدرِ مملکت فیلڈ مارشل محمد ایوب خان مرحوم کی شان میں امید فاضلی کا لکھا ہوا نغمہ " ہم اپنے رہنما کے یقیں کا نشان ہیں " ایس بی جون کا ایک مقبول قومی نغمہ ثابت ہوا ۔ جنگ کے فورا بعد ایس بی جون کا شمار ان فنکاروں میں بھی ہوا جنھوں نے مورچوں پہ جا کر ترانے سنانے کا اعزاز حاصل ہے ۔ یہ بات جان کر سب کو حیرت ہوگی کہ جون صاحب نے کھیم کھرن سیکٹر کے ایک فوجی شو میں معروف فنکارہ منور سلطانہ کے ساتھ بھی جنگی ترانے گائے جو اس وقت میوزک انڈسٹری چھوڑ کر صرف فوجی بھائیوں کے لیے ہی آئی تھیں ۔۔۔!!
دسمبر 1971 کی جنگ میں ایس بی جون تاج ملتانی کے ساتھ نغماتِ وطن سنانے والے اولین گلوکاروں میں تھے جنھوں نے " مشرق کا سرا اٹھ کر مغرب سے ملا دیں گے " جیسا انتباہی قومی نغمہ گایا ( , انتباہی قومی نغمے کی اصطلاح پہلی بار استعمال کررہا ہوں جو ممکن ہے کہ آگے اور بھی افراد استعمال کریں ) جو روزانہ ہی ریڈیو پاکستان سے نشر ہوتا رہا ۔ اس کے علاوہ سلیم گیلانی مرحوم کے تحریر کردہ نغمے " ہم حیدریؓ ہیں ہم میں ہے زورِ غضنفری "" جیسے پرجوش ترانے میں انھوں نے شہنشاہ غزل مہدی حسن کا ساتھ دیا ۔۔۔جون صاحب نے مشرقی پاکستان کے لیے بنگالی میں بھی نغمہ سرائی کی اور ڈھاکا ریڈیو پر کئی بنگالی گیت ریکارڈ کروائے جن میں " نیل نیل شپا نیل " ڈھاکا ریڈیو کا ایک مشہور آئٹم ثابت ہوا ۔
ایس بی جون سے میری کئی ملاقاتیں رہیں بلکہ انھوں نے تین ماہ قبل راقم الحروف کی کتاب " یہ نغمے پاکستان کے " کے فلیپ کے لیے مختصر تحریر بھی نذر کی جو شاید ان کی آخری تحریر ہی ہے ۔ جبکہ خاکسار کے لیے انھوں نے وڈیو پیغام بھی ریکارڈ کروا کر مجھے اعزاز بخشا ۔ قومی نغمات کی بدولت ان سے خاص تعلق قائم ہوگیا تھا , ان سے اکثر فون پر بھی طویل گفتگو ہوتی اور مجھ ناچیز کی درخواست پر وہ اپنے sot ریکارڈ کروانے پاکستان ٹیلی ویژن بھی آجاتے ۔ درازی ء عمر کے باوجود کہیں سے یہ محسوس نہیں ہوتا تھا کہ ان کی عمر 80 یا 90 سال کے درمیان ہوگی ۔۔ !! بلکہ ان سے پہلی ملاقات کا احوال بھی دلچسپ ہے کہ یہ 2013 ء کی بات ہے جب میں کراچی یونیورسٹی سےبذریعہ ء پبلک ٹرانسپورٹ اپنے دفتر جیو ٹی وی جا رہا تھا تو نیپا سے ایک بزرگ جن کی عمر ساٹھ سے ستر سال کے درمیان ہوگی سوار ہوئے ۔ بس میں جگہ نہیں تھی اسی لیے اپنی سیٹ سے اٹھ کر انھیں بٹھادیا ۔ حسن اسکوائر کے قریب ان کے برابر میں جگہ خالی ہوئی تو ان صاحب نے مجھے بلوالیا ۔ میں نے چہرہ غور سے دیکھنے کے بعد کہا " انکل اگر برا نہ مانیں تو ایک بات کہوں , آپ کی شکل ایس بی جون سے بہت ملتی ہے ۔۔" اس پر انھوں نے کہا " برخودار ہم ہی ایس بی جون ہیں " میں نے ماننے سے اسی لیے انکار کیا کہ ایس بی جون کی عمر اس وقت80 سال سے زائد تھی جبکہ ان بزرگ میں ضعف کی شدت نہیں تھی ۔۔ !! بہرحال یقین ہوگیا تو صدر تک یادوں اور تاریخ کے گویا اوراق الٹ گئے ہوں ۔۔۔ انھیں ان کے قومی نغمات یاد دلائے تو حیران رہ گئے بلکہ ان کی آنکھیں بھی نم ہوگئیں کیونکہ وہ یہی دیکھ رہے تھے کہ ایک لڑکا انھیں وہ نغمات بتا رہا ہے جو ان کے ذہن میں بھی نہ تھے ۔۔۔ پھر ایس بی جون نے کراچی ریڈیو کی بابت نہایت نایاب معلومات سے آگاہ کیا کیونکہ وہ اس ادارے کے ابتدائی فنکاروں میں شامل تھے ۔
حکومت پاکستان نے انھیں 2010 میں صدارتی ایوارڈ سے بھی نوازا جو انھوں نے مارچ 2011 کو وصول کیا ۔ ان کے صاحبزادے رابن اور گلین بھی ایک اچھے موسیقار ہیں جنھوں نے ریڈیو کے لیے بھی کئی گیت کمپوز کیے ۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...