سب سے پہلے ایک نظر ارطغرل غازی پر ڈال لیتے ہیں جو کہ ایک ترک ڈرامہ ہے اور مسلمانوں کی بھرپور تاریخ کی عکاسی کر رہا ہے ،یہ ڈرامہ وزیر اعظم پاکستان عمران خان صاحب کی خصوصی ہدایت پر اردو ترجمے کیساتھ پیش کیا جا رہا ہے اوروزیر اعظم صاحب نے خصوصی طور پر نوجوانوں سے درخواست کی ہے کہ وہ اس ڈرامے کو ضرور دیکھیں اور اپنی تاریخ سے آگاہی حاصل کریں ۔ یہ ڈرامہ مختلف حلقوں میں مختلف تاثرات لے کر ابھر رہا ہے ۔ کچھ لوگ اس ڈرامے کی نمائش کو معاشرتی اقدار کے خلاف قرار دے رہے ہیں ، کچھ کا کہنا ہے کہ عقائد پر بھی ضرب لگ رہی ہے اس طرح کے اور دیگر تنقیدی پہلوءوں کو اجاگر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ یو ں تو ہم بہت باشعور قوم ہیں لیکن ہم اس ڈرامے کو دیکھتے ہوئے ذاتی اختلافات کو بھی اس پر نکال رہے ہیں ۔ تنقید کرنے والے معزیزین اس بات کو کیوں بھول رہے ہیں کہ یہ ڈرامہ آج کے دور کا نہیں ہے دوسری بات یہ کہ مسلمان اپنے حقیقی اقتدار کے طرز کی کوشش کر رہے ہیں اور سب سے بڑھ کر اللہ پر توکل کی اعلی ترین مثال قائم کرنے کی کوشش دیکھائی جا رہی ہے ۔ ڈرامے کو دیکھ لیجئے اسے اپنے انجام تک پہنچ جانے دیجئے ، گھنٹوں بیٹھ کر کیا کچھ تو بغیر آواز نکالے دیکھ لیتے ہیں ایک لفظ تنقید کا نہیں نکلتا ، ترک ڈرامے پر تنقید اس بات کی گواہی تو پیش کر رہی ہے کہ حق کی آواز کو دبانے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی رہی ہے اور جاری ہے ۔ اس ڈرامے کی مشہوری سے حکومتی سطح پر اسکی ترویج سے وہ طبقہ سب سے زیادہ پریشان ہے جو جہاد کے نام سے خوف زدہ ہوجاتے ہیں اور تقریباً ہمارے معاشرے سے اس نام کے لینے والوں کیساتھ کیا سلوک کیا جاتا رہاہے وہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے ۔ ہم نے نظرئیے سے دھیان ہٹا لیا ہے ، ہ میں وہ سب کچھ دیکھائی دے رہا ہے جس پر اہل نظر کی نظر ہی نہیں جاتی کہ جیسے کس نے کیا پہنا ہے ، آرائش و زیبائش اورکون کیسا دیکھائی دے رہاہے اہل نظر اس بات پر دھیان رکھتے ہیں کہ دائمی مقصد کیا ہے، ان محرکات کے پیچھے اصل حقیقت کیا ہے اور اسکے حصول کیلئے جو کوششیں کی جارہی ہیں وہ کتنی موثر اور کارگر ہیں ۔ اس ڈرامے کی جو بنیادی وجہ ہماری ناقص العقل سمجھ پائی وہ یہ ہے کہ اللہ رب العزت کی واحدانیت اور اسکی قدرت پر کامل یقین رکھنا ، اسکے دین کی ترویج اور حق بات کہنے کی قوت اور دشمنوں پر خوف بیٹھا دیتا ہے اور ان کی نیندیں حرام ہوجاتی ہیں ۔ ارطغرل غازی وہ کردار ہے جو مسلمانوں کی سلطنت عثمانیہ کے بانی عثمان ارطغرل کے والد ہیں ۔ معلوم نہیں پاکستانیوں کی ایک کثیر تعداد اس ڈرامے کہ نشر کئے جانے سے اتنے خوفزدہ کیوں ہیں ۔ ہمارا غیر سنجیدہ رویہ اپنے اس عظیم رہنما کا بھی سماجی میڈیا پر مذاق بنانے میں مصروف ہے کیا ہ میں ایسے لوگوں کا دفاع نہیں کرنا چاہئے کہ جن کے نام سے آج بھی دشمن کی نیندیں حرام ہوجاتی ہیں ۔
موضوع کہ دوسرے پہلو کی طرف آجاتے ہیں ، کرونا وائرس اپنے بھرپور جاہ وجلال سے دنیا میں براجمان ہے اور ہمارا ملک پاکستان بھی اسی دنیا کا ایک ملک ہے اور وہ ملک ہے جسے تیسرے دنیا کے ممالک میں کہیں اوپر کی طرف رکھا جاتا ہے ۔ یہ اور بات ہے کہ ہم اپنے آپ کو دنیا کا سب سے زیادہ ترقی یافتہ ملک اور تہذیب یافتہ قوم سمجھتے ہیں ۔ اس وائرس نے ساری دنیا کو قیامت کی یاد دہانی کروادی لیکن دنیا نے اس حقیقت کو نا پہلے کبھی تسلیم کیا ہے اور نا ہی اب کرنے کو تیار ہے ۔ پاکستان میں مارچ کے آخیر سے شروع ہونے والا سب کچھ بند کرنے والا سلسلہ زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکا ۔ جس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ پاکستان فلاحی ریاست بننے کے ابھی پہلے ہی دور میں ہے ۔ یہاں اکثر یت روز کمانے کھانے والوں کی ہے یا پھر وہ لوگ ہیں جو کھا کھا کر قریب المرگ ہونے کے باوجود کھاتے ہی جارہے ہیں ۔ دیکھا جائے تو پاکستان میں تو طرح کی سوچ اس وائرس سے لڑرہی ہے ایک وہ سوچ ہے جو صوبہ سندھ کی ہے اور دوسری سوچ وفاق بشمول بقیہ تین صوبے ۔ کیونکہ سندھ حکومت اس وائرس کی زد میں بلواسطہ متاثر ہوئی جس کی وجہ سے انکے اقدامات شدید نوعیت پر کئے گئے ۔ جن میں سب سے پہلے تعلیمی اداروں کی بندش تھی پھر بازار بند کئے گئے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے سب کچھ بند کروا دیا گیا ، لیکن وائرس اپنا کام کرتا جا رہاہے ۔ ایسا نہیں کہ وفاق اور دیگر صوبوں نے اقدامات نہیں کئے لیکن وہ اقدامات اس سطح پر نہیں تھے ۔ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ہمارے ملک میں جو لوگ حکمت عملیاں ترتیب دیتے ہیں وہ اپنی جیب اور اپنے گھر دیکھ کر دیتے ہیں جب کہ حقیقت اسکے بلکل برعکس ہوتی ہے یہاں چھوٹے چھوٹے مکانوں یا فلیٹوں میں آٹھ سے دس لوگ بھی رہائش پذیر ہیں ، اگر ان کو مکمل بندش میں رکھ دیا گیا تو یہ تو ویسے ہی مر جائینگے ۔ پاکستان میں ہر معاملے کی طرح کرونا وائرس پر بھی سیاست چمکانے کی بھرپور کوششیں کی جارہی ہیں اور کہیں تو اس وائرس کی مد میں ملنے والی بین الاقوامی امداد پر بھی اپنے ہاتھ صاف کرنے کی تیاری کی جارہی ہے ۔ بعض جگہ تو امداد کی مد میں ملنے والی رقم کہاں خرچ کی جارہی ہے اس کا اندازہ لگانے میں اداروں کو اور عوام کر بہت مشکل کا سامنا کرنا پڑھ رہا ہے ۔ اس وائرس کی ذمہ داری فر د واحد سے شروع ہوتی ہے ، اگر وہ احتیاط نہیں کرتا تو خود تو اپنے آپ کو مشکل میں دھکیلے گا ساتھ ہی لاتعداد عزیز و اقارب کو بھی ساتھ لے ڈوبے گا ۔ پاکستان نے رمضان اور عید کی سے متعلق کاروبار کھولنے کی اجازت دے دی ہے ، اور گزشتہ تین روز سے بازار کھل رہے ہیں اور ان بازاروں میں وہ ہجوم ہے کہ اللہ کی پناہ ، گوکہ حکومت کو بازاروں میں موجود انتظامیہ نے اس بات کی یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ بتائے گئے طریقہ کار پر عمل درآمد کرائینگے لیکن بال برابر بھی کسی قسم کا عمل درآمد دیکھائی نہیں دے رہا ۔ حکومت نے لوگوں کی معاشی صورتحال کے پیش نظر یہ قدم اٹھایا تھا لیکن لوگوں نے ایک بار پھرتمام احتیاطوں کو اپنے غیر سنجیدہ روئیے کی نظر کردیا ہے ۔
ہم بارہا اپنے اس روئیے کی وجہ سے کسی خاص مقصد کے حصول سے قاصر رہے ہیں ، آپ نے بھی دیکھا ہوگاکہ اگر ایک شخص ماسک لگائے ہاتھوں میں پلاسٹک کے دستانے پہنے دیکھائی دیتا ہے تو لوگ اسکا مذاق اڑانا شروع کردیتے ہیں جو ہمارے غیرسنجیدہ روئیے کی عکاسی کرتا ہے ۔ وفاقی یا صوبائی حکومت اگر عوام سے کسی خاص مقاصد کیلئے حقائق چھپا رہی ہے تو خدارا ایسا نا کریں ، عوام کو حقیقت سے آگاہ کریں ، کہیں ایسا نا ہو کہ اگر مگر کی وجہ سے سیاسی دکانداری کی وجہ سے انسانی جانوں کا وہ نقصان اٹھانا پڑے جس کا اندازہ ہم لگانا نہیں چاہتے ۔
عوام الناس سے خصوصی التماس ہے ہ میں اس کروناوائرس سے ہمارے علاوہ اللہ تعالی تو بچا سکتے ہیں لیکن کوئی دوسرا نہیں بچا پا رہا ہے تو احتیاط سے کام لیں اللہ نے زندگی دی تو بہت عیدیں دیکھنے کو مل جائینگی ۔ خدارا اپنے روئیے کو سنجیدہ کرلیں ۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...