قیامت تین ماہ کے لئے ٹل گئی
گزشتہ روز سپریم کورٹ نے زینب قتل کیس میں درندہ صفت مجرم کے 37 اکاؤنٹس کا دعویٰ کرنے والے قیامت خیز دانشور، اینکر اور اصلی میڈیکل ڈاکٹر شاہد مسعود کے پروگرام پر تین ماہ کے لیے پابندی عائد کردی۔یوں کہا جاسکتا ہے کہ سپریم کورٹ نے تین ماہ کے لئے قیامت کو ٹال دیا ہے ۔۔۔سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے زینب قتل کیس میں میڈیکل ڈاکٹر شاہد مسعود کے الزامات سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ چیف جسٹس پاکستان نے قیامت کی خبریں سنانے والے شاہد مسعود پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے تو آپ سے محبت کی، لیکن لگتاہے آپ کو بڑوں کی نصیحت کااحساس نہیں، آپ نے پروگرام میں میرے کورٹ آفیسر کا مزاق اڑایا ، آپ کی ہمت کیسے ہوئی میرے لاء آفیسر کی توہین کرنے کی؟ اب دیکھتا ہوں کتنے دن پروگرام چلتا ہے۔ چیف جسٹس نے شاہد مسعود کے وکیل شاہ خاور کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ شاہد مسعود سمجھایا کریں اور اپنی زبان میں سمجھا دیں، ورنہ عدالت کو بھی اپنی عزت کروانی آتی ہے۔۔۔چیف جسٹس نے عدالتی عملے کو اینکر شاہد مسعود کے پروگرام کا حصہ پروجیکٹر پر لگانے کی ہدایت کی جو سماعت میں وقفہ ختم ہونے کے بعد چلایا گیا۔ اس موقع پر عطائی اینکر اور صحافی شاہد مسعود نے غیر مشروط معافی مانگی اور ان کے وکیل نے کہا کہ ہم کسی لاء آفیسر کی توہین نہیں چاہتے۔اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ معافی نہیں سزا ملے گی، پروگرام میں بلندوبانگ دعوے کہاں گئے؟ شاہد مسعود نے کہا کہ عدالت سے معذرت خواہ ہوں، اس پر چیف جسٹس نے مکالمہ کیا کہ اتنی رعایت دیتے ہیں کہ آف ایئرہونے کی مدت خود طےکرلیں۔۔جعلی اینکر نے کہا کہ چیف جسٹس صاحب میرے پروگرام پر ایک ماہ کے لیے پابندی عائد کردیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کم از کم چھ ماہ آف ایئرکریں گے۔شاہد مسعود کے وکیل نے کہا کہ چھ ماہ بہت سخت ہوں گے جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ غیر مشروط معافی لکھ کردیں،جائزہ لیں گے کتنی دل سے معافی مانگی گئی، چیف جسٹس نے کہا شاہد مسعود تم نےقاضی کوپکارا تھا ، مظلوم کی پکار پر قاضی آئے گا۔ اس کے بعد عدالت نے اینکر شاہد مسعود کے پروگرام پر 3 مہینے کے لیے پابندی عائد کرنے کا حکم جاری کیا اور اس حوالے سے پیمرا کو بھی ہدایات جاری کردیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ شاہد مسعود صاحب آپ نے پھانسی مانگی تھی وہ نہیں دے رہے،چیف جسٹس نے کہا کہ تین ایسے قانون ہیں جو عدالت نے دیکھنے ہیں کہ آپ پر لاگو ہوتے ہیں، ایک توہین عدالت، دوسرا انسداد دہشتگردی قانون اور تیسرا پیمرا لاء، دیکھیں گے کہ ان قوانین کے تحت آپ کے خلاف کیا کارروائی ہوسکتی ہے، دیکھیں گے کہ پیمرا قانون کے تحت آپ کا پروگرام یا چینل بند ہوسکتا ہے۔جسٹس ثاقب نثار نے مزید کہا کہ ڈاکٹر شاہد جیسے اینکر عدالتوں کو کمزور سمجھتے ہیں، اب یہ پہلے والی عدالت نہیں رہی، اب جو کچھ عدالت کے بارے میں کہا جائے گا اسے برداشت نہیں کیا جائے گا۔پاکستان کی عدالت نے پہلی مرتبہ ایک ٹی وی اینکر پر کو بین کیا ہے ،حالانکہ یہ کام پیمرا کا ہے ،لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب پیمرا ایکشن لیتا ہے تو کورٹ اس ایکشن کو سٹے کردیتے ہیں ،بول نیوز چینل کے حوالے سے ایسا درجنوں مرتبہ دیکھا گیا ۔۔۔اصولا جعلی اینکر کو بین پیمرا کو کرنا چاہیئے تھا ۔۔لیکن لگتا ایسا ہے کہ توہین عدالت کے تحت یہ پابندی عائد کی گئی ہے۔۔۔ڈاکٹر شاہد کیس اب میڈیائی اینکر کے لئے ایک بہت بڑی مثال ہے ۔۔۔ان اینکرز نے چینلز پر بیٹھ کر جس طرح کے گھٹیا جھوٹ بولنے ہیں ،وہ بولیں،بلند بانگ دعوے بھی کریں ،لیکن اپنے جھوٹے پروگراموں اور ٹاک شوز میں چیف جسٹس سے نوٹس لینے کی اپیل نہ کریں،ورنہ ایسا ہوگا ،جیسے ڈاکٹر شاہد کے ساتھ ہوا ۔۔۔پاکستان کے نوے فیصد سے زائد اینکرز ٹی وی ٹاک شوز میں پروپگنڈہ کرتے ہیں ،الزامات لگاتے ہیں ،دوسروں کو ننگا کرتے ہیں ،انہیں ماں بہن کی گالیاں دیتے ہیں ،اس حوالے سے پیمرا ایکشن میں آئے ،ورنہ عدالت سے اپیل ہے کہ وہ ڈاکٹر شاہد جیسے تمام جاہل اینکرز اور صحافیوں پر پابندی لگائے ،اب اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہ گیا ۔۔۔شاہد مسعود کی الزامات پر مبنی صحافت بہت سے اینکرز کے لئے مثال ہونی چاہیئے ۔۔۔شکر ہے کہ قیامت تین ماہ کے لئے تو ٹل گئی ۔۔۔اب دیکھتے ہیں کہ تین ماہ کے بعد وہ کیسے ، کس طرح اور کس چینل پر نیا پروپگنڈہ اور جھوٹ بولنے کے لئے آتے ہیں ۔۔تحقیقاتی صحافت ضرور ہونی چاہیئے ،لیکن ایسی صحافت میں سچائی اور ایمانداری ہو ۔۔۔۔۔۔اے آر وائی ،92 نیوز ،نیو نیوز وغیرہ میں اسی فیصد ٹاک شو پروپگنڈہ کی پالیسی پر چل رہے ہیں ،جو شاہد مسعود سے بھی بدترین ہیں ،پیمرا کو اب ان تمام ٹاک شوز کی مانیٹرنگ کرنی ہوگی ۔۔۔۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔