ادب اور صحافت سے وابستہ لوگ مجھے ڈاکٹر نہیں مانتے چونکہ ان کے نزدیک ڈاکٹر وہ ہوتا ہے جس نے پہلے اردو میں ایم اے کیا ہو اور پھر " بل بلندر" قسم کا کوئی عنوان منتخب کرکے اس پر ادق اصطلاحات، جن میں سے اکثریت میں ما بعد ضرور لگتا ہو، استعمال کرکے مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ہو یعنی ڈاکٹر آف فلاسفی جبکہ ان کا فلسفے سے دور پار کا بھی تعلق نہیں ہوتا، بس اپنے ساتھ لقب لگوانے کا شوق ہوتا ہے۔ جس ملک میں میں مقیم ہوں وہاں اکثریت نے پی ایچ ڈی کی ہوئی ہے مگر وہ اپنے ساتھ ڈاکٹر نہیں لگاتے۔ کہیں بہت بعد میں بہت زیادہ تحقیقات کرنے کے بعد ان کے ساتھ جب ڈاکٹر آف سائنس کی تعظیم لف ہوتی ہے تو وہ خود کو ڈاکٹر لکھتے ہیں۔
دوسری جانب طب سے وابستہ میرے ڈاکٹر دوست اور دوسرے مجھے ادیب و شاعر تو دور کی بات صحافی تسلیم کرنے کو تیار نہیں جبکہ میں اس میدان میں کم و بیش پینتالیس برس سے کسی نہ کسی شکل میں موجود رہا ہوں یعنی مترجم، مضمون نگار، تجزیہ کار اور ریڈیو صحافت کے حوالے سے۔
چار کتابیں دو شاعری کی دو تحقیقی لکھیں جو شائع ہوئیں جبکہ پہلی کتاب ترجمہ تھی جو عرصہ پہلے مکتبہ شاہکار نے گم گشتہ شہر اور ملیا میٹ تہذیبوں کے عنوان سے شائع کی تھی۔ مضامین اگر ہزار سے زیادہ نہیں تو سینکڑوں یقینا" لکھے ہیں۔ محض ریڈیو صدائے روس اور بین الاقوامی اطلاعات ایجنسی سپتنک میں ایک عشرے سے زیادہ کام کے دوران ماہانہ کم سے کم ڈیڑھ سو صفحات کو اگر صرف دس سال کے مہینوں کے ساتھ ضرب دی جائے تو اٹھارہ ہزار صفحات بنیں گے یعنی پانچ پانچ سو صفحوں کی چھتیس کتابیں ۔
اکادمی ادبیات کے چیئر مین ڈاکٹر قاسم بوگھیو نے محض شائع شدہ کتابوں کے نام جان کر مجھے ادیب و شاعر مانتے ہوئے اکادمی ادبیات کی چوتھی بین الاقوامی کانفرنس میں بطور مندوب بلائے جانے کے احکامات دے دیے۔ باوجود علم ہونے کے کہ میری شہریت پاکستان کی بجائے روس کی ہے، مجھے غیر ملکی مندوب کا رتبہ تو نہ دیا گیا لیکن لاہور سے مندوب قرار دیا گیا اور سلوک بھی برابر کا کیا گیا یعنی سبزی منڈی کے سامنے کی سڑک پر واقع سٹی پیراڈائز نام کے ہوٹل میں ٹھہرایا گیا۔ ظاہر ہے ایسا ہوٹل تین ستارہ ہونے کے زمرے میں بھی نہیں آتا۔ ایسے لوگ بھی تھے جنہیں غیرملکی نہ ہونے کے باوجود بھی ہوٹل اسلام آباد میں ٹھہرایا گیا تھا جو چار ستارہ ہوٹل ہے۔
خیر اس طرح میں زندگی میں پہلی بار کسی سرکاری ادبی کانفرنس میں شریک ہوا۔ کانفرنس کیا تھی مقالوں کا پشتارہ تھی۔ تین سو کے لگ بھگ مقالے تھے جنہیں پانچ سو کے لگ بھگ شرکاء میں سے کوئی دو سو شرکاء نے بیدلی سے سنا۔ نہ مشاہیر ادیبوں شاعروں نے انہیں سننا تھا اور نہ ہی لسانیات جیسے مضامین سے دلچسپی نہ رکھنے والوں نے۔ انہیں سننے کی خاطر اساتذہ اور بالخصوص طلباء کو بلایا جانا چاہیے تھا جو لگتا تھا کہ نہیں بلائے گئے۔
میرے لیے یہ کانفرنس اس لیے اچھی رہی کہ بہت سے ایسے دوستوں سے ملاقاتیں ہو گئیں جو تین تین چار چار عشروں سے نہیں ملے تھے۔ دوسرے مجھے پاکستانی ادیبوں اور شاعروں کی عادات اور گفتگو کے انداز و پیرائیوں کو نزدیک سے پڑھنے کا موقع ملا۔ تیسرے یہ کہ احمد سلیم صاحب سے عرصہ دراز کے بعد تفصیل سے گفتگو کرنے کا موقع ملا۔ انہوں نے مطلع کیا کہ عبداللہ حسین کے بارے میں مرتب کردہ کتاب میں میرا بھی ایک مضمون شامل ہے پھر عاصم بخشی جیسے با علم شخص سے پہلی بار ملنے کا موقع ملا اور چوتھے یہ کہ میرے فیس بک فرینڈ رمضان خالد نے میری سالگرہ بہبود کرافٹ اینڈ کیفے میں اہتمام سے منائی جس میں پی ٹی وی کے ڈائریکٹر نیوز مزمل خان، پی ٹی وی ورلڈ کی کنٹرولر نیوز رفعت تسنیم شریک ہوئے۔ رمضان خالد خود پی ٹی وی کے کنٹرولر نیوز ہیں۔ ساتھ ہی مجھے پی ٹی وی ورلڈ کے پروگرام " ڈائلاگ" میں حارث خلیق اور دیگر دو شرکاء کے ساتھ شریک ہونے کا موقع میسر آیا۔ اگلے روز کانفرنس میں ایک مدبر شخص نے اس پروگرام میں کی گئی میری باتوں کو سراہا۔ ان سے ان کا نام پوچھا تو وہ جناب نظام الدین تھے جو پہلے گجرات یونیورسٹی کے وی سی تھے اور اب ایچ ای سی پنجاب کے سربراہ ہیں چنانچہ ان کی جانب سے سرا ہے جانا بہت بھایا۔
https://www.facebook.com/mirza.mojahid/posts/1722323911127045
“