میں جبران احمد ہوں۔ میری عمر پچاس سال ہوچکی ہے۔ میرے سامنے ڈائری کا ادھورا ورق ان کہے الفاظ کی تانے بانے بن رہا ہے۔ سامنے آدھی کھلی کھڑکی سے ایک کوا جھانک رہا ہے۔یہ کوا میرا محبوب ہے۔ اس اندھیرے کمرے میں اسے سوائے یادوں کی بازگشت کے ملے گا بھی کیا۔؟ میں اس وقت ڈائری کے کسی انجانے صفحے پر ٹھہرا ہوا ہوں۔ میں آج ڈائری کے چند ادھورے صفحات میں جھانکنے والا ہوں۔ کچھ لوگ مجھے “گمشدہ” کہتے ہیں۔ وہ اب میرے کمرے کی جانب نہیں آتے۔ شاید میری پہچان انہی لفظوں میں کہیں گم ہو۔ ہاں یہ سچ ہے کہ میں اب بھی ، اس پچاس سال کی عمر میں، روز ان گلیوں کا چکر لگاتا ہوں اور میں تھوڑی دیر پہلے بھی وہیں موجود تھا۔ میرا ذہن ، میری روح ، میرا وجود اب میرے ساتھ نہیں رہتے۔ میرے پاس چند یادوں کے باکسز ہیں میں انہیں سنبھال کر رکھتا ہوں۔ میرے سامنے ٹوٹی ہوئی کرسی مجھے ٹوٹے ہوئے یقین اور ٹوٹے بھروسے کی یاد دلاتے ہیں۔ میں جن گلیوں میں جاتا ہوں وہاں ایک خوبصورت قصہ چھپا ہے۔ میری زندگی کا سب سے خوب صورت قصہ، رنگوں کا قصہ، قصوں کا قصہ، لفظوں کا قصہ، میں اپنی یاد کا ایک ایک باکس پھر کھول رہا ہوں۔
میرے سامنے وہ منظر پھرسے کسی فلم کے سین کی طرح دوڑ رہا ہے۔ وہ میرے سامنے کھڑی ہے میں اسے اپنی کزن کہتا ہوں۔ دروازے کی چوکھٹ پر روزنت نئے سوالات لے کر آجاتی ہے۔ ایسے سوالا ت جس کے میرے پاس جوابات ہی نہیں ہوتے۔ وہ پھر مجھ سے وہ سارے سوالات پوچھتی رہتی ہے۔ اسے لگتا ہے شاید میرے دروازے پراس کے سلگتے سوال اپنا جواب ڈھونڈ پائیں گے۔ہاہاہا شاید وہ مجھے اپنے دور کا ارسطو سمجھ بیٹھی ہے۔ اس منظر میں کہیں دور ایک دروازے کے سامنے اپنی ذات سے پرے موجود ہوں۔ ایک کرسی پر بیٹھا، چائے کا کپ ہاتھوں میں لیےاور وہ دروازے کی چوکھٹ پرکھڑی مجھے دیکھ رہی ہے۔ وہ سلگ رہی ہے۔ روئیوں نے اسے بے حس بنا دیا ہے۔آج پھر وہی قصہ ، پھر وہی بحثیں، وہی مناظر میری نگاہوں میں گھوم رہے ہیں۔ اس کا رنگ بے رنگ ہے۔مگر وہ دل جلی لفظوں کے اندر ہی مرتی ہے۔ میں پھر سے اسی منظر میں کھو رہا ہوں۔
اس کے لفظوں کی بازگشت مجھے سنائی دے رہی ہے۔
“سنو جبران !!، سب مجھے کالی کہتے ہیں۔ کالی۔۔۔ شاید کالی ، گالی نہیں ہوتی۔ مگر رکو یہاں شاید یہاں یہ گالی ہی ہے۔ کہتے ہیں میرے مقدر میں بھی بنانے والے نے بھی سیاہی لکھ دی ہے ۔ ”
میں کتنی دیر اسے تکتا رہتا ہوں۔ تبھی مجھے اپنی آواز دور کہیں فضا میں گونجتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔
“ثنا!!!، ایسا ہرگز نہیں ہے۔ رنگ تو سارے خوب صورت ہوتے ہیں۔ جیسے موسموں ،رنگ برنگے پنچھیوں، بہتے ساگراور قیمتی پتھروں کے رنگ، رنگ تو سارے خوب صورت ہوتے ہیں ثنا!!”
مجھے ماننا ہوگا۔ میں یادوں کی وادی میں اتر کر پاگل ہوتا جارہا ہوں۔ میں جاگتے ہوئے کئی خواب دیکھتا ہوں۔ خواب کے اندر خواب اور بعض اوقات خوابوں کے اندر ہی میری حیات چھپی ہوتی ہے۔ رکو مجھے پھر سے ہر سو اس قہقہے کی آواز سنائی دے رہی ہے۔ درد میں ڈوبے لہجے میں وہ پھر سے کتنے شکوے مجھ سے کررہی ہے۔
“پتہ ہے جبران میری عمر بائیس سال ہوچکی ہے۔ یہ کہتے ہوئے اس کا چہرہ زرد ہوجاتاہے۔ شاید اس نے بائیس کے عدد تک پہنچنے میں بائیس صدیاں لگا دی ہیں۔ وہ پھر گویا ہوتی ہے۔
“تم نہیں جانتے مگر ان بائیس سالوں میں کتنی راتیں، کتنے دن، کتنے گھنٹے اور کتنے منٹ میں تکیوں کے نیچے اپنی قسمت کو روتی رہی ہوں۔ تم کیا جانو۔ میری زندگی کا سب سے بڑا دکھ ہی یہی ہے کہ میری زندگی کے رنگ پھیکے رھ گئے ہیں۔ تم نہیں جانتے ہو جب لوگوں کے درمیان سے گزرتی ہوں تو سب کے روئیوں سے جیسے جہاں سے گزر جاتی ہوں۔ آج بھی سب ویسا ہی ہے۔ لوگ، روئے، الفاظ، طعنے اور ہمدردی۔۔۔اب بھی آدھی رات کو اٹھ کر آسمان کو گھنٹوں دیکھتی رہتی ہوں۔ بنانے والے نے کتنی خوب صورت دنیا بنائی ہے۔ اور میں۔۔۔۔۔”
اچانک اس کی ہچکیوں کی آواز کمرے میں گونجنے لگتی ہے۔ ایسے لگتا ہے ٹوٹی ریوالونگ کرسی کے ساتھ لگے دیوار پر نصب قد آدم وال کلاک اپنی وحشت ناک ٹک ٹک کے ساتھ مجھے بھی مار رہا ہے۔
مجھے اب سو جانا چاہئیے۔ میرے کمرے کی ٹوٹی کرسی، جس کا ایک بازو مکمل ٹوٹ چکا ہے، بری طرح ہل رہی ہے۔ میرے دماغ کی رگیں جیسے پھٹنے کو تیار ہیں۔ وہ کسی بھی وقت میرے وجود میں ارتعاش پیدا کرنے کے لیے آموجود ہوتی ہے۔ تبھی مجھے دور خلاؤں میں اپنی آواز گونجتی ہوئی سنائی دیتی ہے۔
“سنو ثنا!!!،چمکتے آسمان پر چمکتے ستارے روشن اسی لیے لگتے ہیں کہ کالا رنگ ان کے رنگ کو نکھار دیتا ہے۔ سوچو یہ رنگ ہی نہ ہو تو کبھی ہمیں یہ ستارے نظر ہی نہ آئیں۔ کبھی بھی نہیں۔ تم بہت خوب صورت ہو۔ سب رنگ بہت حسین ہیں۔ ایسا نہیں کہتے۔”
تبھی مجھے دور سے چوڑیاں کھنکھاتی ثنا نظر آتی ہے جو کسی دیوار کے ساتھ لگے اس کے رنگوں کو دیکھ کر خود کو ان میں گم کرنا چاہ رہی ہے۔ وہ چاروں اور بھاگ رہی ہے۔ اس کا وجود پسینے میں شرابور ہوچکا ہے۔ تبھی مجھے چند لفظ فضا میں تھرکتے محسوس ہوتے ہیں۔
“کیا کہا۔ تم کہتے ہو سب خوب صورت ہیں۔ سب چہرے حسین ہیں۔ رنگ کچھ نہیں۔۔۔۔ھاھاھا، کتنی اچھی لفاظی کر لیتے ہو۔ سنو تمھیں کیسی بیوی چاہئیے؟”
“یہ کیسا سوال ہے؟” مجھے اعتراف کرنا ہوگا اس کا یہ سوال میرے لیے ہمیشہ ہی مشکل رہا ہے۔
“بتاو تو سہی۔ اس کا رنگ ، روپ کیسا ہونا چاہئیے۔ ایسے ہی نا جیسے اجلی دھوپ، جیسے بہتا ساگر، جیسے برف کی ڈلی۔ پتہ ہے تم چاہتے ہو گے وہ موسم بہار میں کھلتے سفید پھولوں کی طرح خوب صورت ہو۔ عشق کے موسموں کی دلبر ہو۔ ہے نا۔۔۔”
کبھی کبھی مجھے لگتا ہے جیسے یہ سوالات اس نے مجھ سے جان بوجھ کر پوچھے ہوں۔ایسے سوالات جس کے میرے پاس جوابات ہی نہیں ہوتے یا میں دینا نہیں چاہتا ۔ کمرے میں اندھیرا بڑھتا جارہا ہے۔ میرے سامنے شیلف پر رکھی محبت کی کتاب اب گرد پکڑ چکی ہے۔ میں نے کتنے دنوں سے اسے کھول کر نہیں دیکھا۔ یہ کتاب ہر دفعہ مجھے احساس جرم کی باریک لکیر کی جانب کھینچ کر لے جاتی ہے۔
“کہاں کھو گئے ہومسٹر جبران!، صاف کیوں نہیں کہتے کہ تمھیں گورے رنگ سے محبت ہے۔ گورا یعنی سفید نا،۔۔۔۔یہ تم ہو جس نے دو لڑکیوں سے اس لیے شادی نہیں کی کیوں کہ ان کا رنگ اچھا نہیں تھا۔ تمھاری نظر میں اچھا رنگ صرف سفید ہے۔ تم کہتے تھے ان کی شکل اچھی نہیں تھی۔ یہ تم ہو جو دنیا کو کہتے پھر رہے ہو رنگ کچھ نہیں ہوتا۔سنو جبران نری لفاظی ہی ہے۔”
سچ پوچھا جائے تو میں یادوں کے ان حصوں میں پہنچ کر بے حد سٹپٹا جاتا ہوں۔
وہ سچ کہہ رہی تھی میں نے دو لڑکیوں سے صرف اس لیے شادی نہیں کی تھی کیوں کہ ان کا رنگ بالکل بھی گورا نہیں تھا۔ وہ بالکل خوب صورت نہیں تھیں۔
تبھی فضا میں اس کی آواز گونجنے لگتی ہے ۔
“نری لفاظی جبران۔۔۔۔۔ھاھاھا۔۔”
اس کی آواز کا زیرو بم مجھے اپنے آپے سے باہر کررہا ہے۔ یادوں کے کواڑ کو کھولوں تو رنگوں کی شدت میں اچھی امیدیں دم توڑدیتی ہیں۔ ماضی مجھے ہر وقت ہراساں کرتا ہے۔ میں ، جسے سب پاگل کہتے ہیں کمرے کی ریوالونگ چئیر پر خود کو مٹا رہا ہوں۔ میں جب بھی ڈائری کے وہ اوراق کھولتا ہوں غم کے باب بھی مجھ پر کھلتے چلے جاتے ہیں۔ مجھے اب بھی ڈائری کے سیاہ حاشیوں میں ثنا ابھرتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔
“کچھ دیکھو گی ثنا۔۔”
“کیا؟”
“وہ کار کس کی ہے۔؟ وہی جس کا رنگ ۔۔۔۔۔”
“وہ کار ہمسائے میں رہنے والے ایک امیر شخص کی ہے۔ سنو جبران تم یہی کہو گے نا کہ اس کا رنگ کالا ہے۔ لیکن سنو اس شخص کو دیکھو جو کار میں سوارہے۔ اس کا رنگ دیکھو۔ تم کہتے ہو نا کالا رنگ نہ ہوتا تو ستارے نظر نہ آتے۔ اس سفید شخص کو بھی لگتا ہے یہ وہی ستارہ ہے اور یہ گاڑی اندھیری رات۔۔۔۔ اسے بھی چمکنا ہے۔ اسے بھی استعارہ چاہئیے۔ اسے کالے رنگ سے محبت نہیں، کالا رنگ اس کی ضرورت ہے۔”
شاید کہیں دور سے مجھے اسے اپنا دیا گیا جواب پتھر کی صورت اپنی جانب آتا محسوس ہورہا ہے۔
“لیکن ثنا کالا رنگ خوب صورت نہ ہوتا تو کبھی وہ اسے نہ اپناتا۔۔۔۔۔”
“سنوجبران!! ، تم لوگوں کو یہ رنگ اس لیے چاہئیے کہ تم کھل سکو۔ تم نظر آسکو۔ تمھارا نکھرا رنگ سب کو نظر آسکے مگر اس سے زیادہ کالے رنگ کی اہمیت تمھارے نزدیک کچھ بھی نہیں ہے۔ جیسے اندھیری رات میں روشن چاند! سیاہ رنگ نہ ہو تو وہ چاند بھی نظر نہ آئے۔”
مجھے ماننا ہوگا وہ اسی کمرے میں موجود ہے۔ وہ جب بھی میرا نام پکارتی ہے کرسی کے گھومنے کی رفتار تیز ہوجاتی ہے۔ میرے دل کی دھڑکن بھی بے قابو سی ہوجاتی ہے۔ اس کے لفظ پتھر کی صورت میری سماعتوں میں ہجر کی تلخی برساتے ہیں۔
“تم انسان کتنے عجیب ہو نا، گاڑیوں میں صرف کالا رنگ چاہئیے۔ اس کے لیے کئی گنا زیادہ قیمت بھی دو گے۔ کالے کپڑوں سے محبت کرتے ہو۔ آسمان پر کالے بادلوں کو بارش اور امید کی تصویر سمجھتے ہو۔ مگر انسان کون سے رنگ کا چاہئیے۔۔۔۔۔ سفید۔۔۔اور جو کالا ہوا وہ تمھارا نہیں ہوسکا۔”
تبھی مجھے کسی صحرا میں محبت کے رنگوں کو ڈھونڈتی ایک لڑکی نظر آتی ہے۔ ایک ایسی لڑکی جس کا وجود طعنوں کی مٹی میں دھنس چکا ہے۔ جس کی آنکھیں تلخیوں کی ریت میں غرق ہوچکی ہیں اور جس کے کان نفرت کی خوراک بن چکے ہیں۔ وہ اس صحرا میں بری طرح چلاتی ہوئی نظر آتی ہے۔
“رکو جبران!!، میری زندگی کا حساب کون دے گا۔ میرے لمحوں کے حوالے کہاں گنے جائیں گے۔ میرے دکھ کی فصیل کون نیچی کرے گا۔ بچپن سے لے کر اب تک روز مرتی آئی ہوں۔ روز رنگ کا طعنہ ملتا ہے۔ رشتے آئے ۔ چھوٹ گئے۔ شاید میرا رنگ بھی چھوٹتا ہو۔جبران یہاں رنگ رشتے چھوڑتے ہیں اور رنگ ہی رشتے جوڑتے ہیں۔ یہ دیکھو میرے ہاتھ،یہ دیکھو میرا منہ،میری گردن، دیکھو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے وہ پاگلوں کی طرح اس صحرا میں سراپا سوال نظر آتی ہے۔
میں جبران احمد ساری زندگی رنگ کے اس فرق کو نہ ڈھونڈ سکا۔ میں رنگوں کی زبان نہیں سمجھ سکا۔ میں رنگوں کو کرید کر ان سے گفتگو نہیں کرسکا۔ اب میں اپنے اندھیرے کمرے میں روز سلگتی آرزوں کی پینٹنگ بناتا ہوں۔ خود کو غم کی دیوار سے لگاتا ہوں۔
ڈائری کے صفحے روز بے ترتیب ہجرت کرتے ہیں۔ ہر ہجرت میں ایک نئی کہانی پوشیدہ ہے۔
مجھے ایسے لگتا ہے جیسے زندگی کی دوزخ میں ثنا میرے لیے امید کا پیغام تھی۔
وہ کہیں دور دلہن بنی ستائیس سال کی ثنا ، جسے بے رنگ انسان پانچ لاکھ حق مہر اور چند سکوں کا لالچ دے کر ایک بوڑھے شخص کو بیچ دیتےہیں۔ میں اس کا کزن بھی اس جرم میں شریک ہے۔
وہ مجھ سراپا سوال ہوتی ہے۔
“جبران تم کہتے تھے نا رنگ کچھ نہیں ہوتے۔ مجھے آج علم ہوا کہ رنگوں میں سب سے طاقتور رنگ پیسے کا ہوتا ہے۔ مجھے میرے باپ اور تم سب نے مل کر ایک بوڑھے اور ظالم شخص کے پلو سے باندھ دیا جو اس سے پہلے ہی کئی عورتوں کو زیادتی کرکے مار چکا ہے۔ اس کے جھوٹے وعدوں اور جھوٹی تسلیوں نے تمھیں ایک انسان کو بیچنے پر مجبور کردیا۔ میں نے کہا تھا نا کالے رنگ کا انسان چند ہرے اور لال پیسوں کے نوٹوں سے زیادہ قیمتی نہیں ہوتا مگر یاد رکھنا یہ رنگ تمھیں ایک دن لے ڈوبے گا۔ ”
تبھی اس کی آنکھوں سے گرتے آنسو مجھے اپنے وجود پر گرتے محسوس ہوتے ہیں۔
مجھے اپنا بے ہنگم کہیں دور ہجر کے دریا میں تیرتا نظر آتا ہے جو اس وقت اسے جاتا دیکھ کر خوش ہوتا ہے۔ اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے تسلی دیتا ایک جھوٹا ، مکار شخص جو میرا پوتو ہے۔ مجھے اس کے جانے پر جشن کرتا نظر آتا ہے۔ اس کی پتھرائی نگاہوں کو ہنس کر قہقہوں میں ڈھالنے والا ، اس کی آرزوں کے ماتم کو خوشی کی محفل سمجھنے والا وہ منافق مجھے صرف لفاظی کرتا اور جشن کرتا نظر آتا ہے۔
رات آدھی سے زیادہ بیت چکی ہے۔ ڈائری کے بے ترتیب ورق یونہی آگے پیچھے ہورہے ہیں۔ دور ایک ظالم شخص کے ظلم کی شکار لڑکی کی تصویر اب بھی میری نگاہوں میں تازہ ہے۔ جسے ایک بوڑھا روز اذیت کے قبرستان میں اتارتا ہے یہاں تک کہ ایک دن وہ خود بھی قبرستان میں اتر جاتی ہے اور اس کی قبر پر ایک سفید تختی لگا دی جاتی ہے۔
ڈائری کے صفحے تیزی سےحرکت کرتے ایک جگہ آکر رک گئے ہیں۔ کمرے میں ہر سو میرے قہقہے گونج رہے ہیں۔
مگر رکو مجھے آنکھیں کھول لینے دو۔ یہاں کوئی ڈائری نہیں ہے نہ ہی کوئی ٹوٹی ہوئی کرسی موجود ہے۔ میں اس کمرے میں موجود ہی نہیں ہوں جہاں میں ساری رات موجود تھا۔
وہ دیکھو مجھے دور سے ایک ڈاکٹراپنی جانب آتا ہوا نظر آرہاہے جس نے عنقریب مجھ سے رات کو دیوار پر بنائی گئی نئی ڈرائینگ کی کتھا پوچھنی ہے۔ ہاہاہا میں آج پھر اسے ایک نئی کہانی سناؤں گا۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...