ہم وہ دیوانے کہ کتوں سے محبت کی ہے۔۔ قصہ کتیاں والی مائی کا
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
عمر ساری تو کٹی غم روزگار میں۔۔؎ اپنا غم تیرا غم جہان کا غم۔۔قلم اٹھایا تو لکھتے لکھتے زندگی کی شام ہوئی ۔ خود اپنے ماضی کی داستاں لکھنے کا وقت ہوا۔ایک خواہش تھی کہ پنڈی کی ثقافتی تاریخ مرتب کروں جس کا میں نصف صدی سے اوپرکا شاہد ہوں۔ بقول مرزا غالب ؎ اصل شہود و شاہد و مشہود ایک ہے۔۔اس تاریخ کا حصہ میں بھی تھا اور میرے جیسے بہت تھے جو اپنا وقت پورا کرکے جا چکے تھے۔۔کچھ سرحد پار۔۔کچھ سات سمندر پار تو کچھ عدم آباد۔
میں دشت ماضی کی جادہ پیمائی کیلئے نکلا تو گئے دنوں کا سراغ ہر گام پر ملا۔۔ایک سکھ کی حویلی وہ تھی جس نے ایوان صدرکا اعزاز 1998 تک اپنے پاس رکھا۔۔دوسرے سکھ کی پرانے شہر میں وہ لق و دق حویلی تھی جو گلی میں دونو جانب اپنی شان و شوکت پر مرثیہ خوانی کرتی چلتی جاتی تھی تھی۔متعدد پل اس کو اوپر سے ملاتے تھے۔1998 تک یہاں "فاطمہ جناح یونیورسٹی" رہی۔اب یہ تاریخی ورثہ بھی کھنڈر ہو رہا ہے۔ یہ کام کہانی لکھنے جیسا آسان نہ تھا۔ 6 ابواب لکھے تو سرحد پار سے نوسٹلجیا میں مبتلا پنڈی کے سکھوں کی تیسری چوتھی نسل نے عملی تعاون کیا اور ستایشؑ کے جذبات کے ساتھ نایاب تصاویربھی دیں ۔۔غم روزگار میں پنڈی سے ہجرت کر جانے والوں کا جزباتی رد عمل بھی ملا ۔ یہ وقت طلب کام تھا۔درمیان میں اپنی کہانی کی فرمایؑش ہویؑ تو میں شہر کی کہانی بھول گیا گو خیال سے تایب نہیں ہوا
یہ ایک زندگی کی کہانی بھی اس شہر کی داستان کا حصہ ہے۔ اس کا نام مجھے معلوم نہ ہو سکا کیونکہ 1970 میں یعنی نصف صدی پہلے وہ انتقل کر چکی تھی۔۔وہ ایک انگریز عورت تھی جو ڈھیری حسن آباد میں اکیلی رہتی تھی۔۔اکیلی نہیں۔۔اپنے 50 کے لگ بھگ کتوں کے ساتھ۔ وہ سڑک کے ہر لاوارث کتے کو اٹھا لاتی تھی اور اس کی دیکھ بھال کرتی تھی۔جب وہ گھر سے نکلتی تھی تو کتوں کا ایک جم غفیر ساتھ چلتا تھا۔۔کہتے ہیں اس نے سب کے نام بھی رکھے تھے اور نام سے پکارنے پروہی ایک کتا متوجہ ہوتا تھا۔۔ عام لوگ اس کا بہت خیال رکھتے تھے خصوصا" قصاب جو ہر روز اس کے کتوں کیلےؑ کچھ نکال کر رکھتے تھے۔مایؑ کا یہ حال کہ شرارت میں بچہ بھی کسی کتے کو پتھر مارے تو اس کے پیچھے دوڑتی تھی اور شکایت لے کرگھرتک پہنچ جاتی تھی تک ۔1970 میں وہ مرگیؑ۔۔مجھے نہیں معلوم اس کے بعد کتوں پر کیا بیتی۔جب میں اس کے بارے میں معلومات لینے گیا تو میں اس کا گھر دریافت کرنے میں کامیاب ہو سکا۔دروازے میں تالا تھا۔کویؑ بتانے والا نہ ملا کہ یہ گھر اس کا اپنا تھا تواب تک مقفل اور لاوارث کیوں تھا؟ اسے سرکاری تحویل میں کیوں نہیں لیا گیا۔۔عینی شاہد کویؑ نہ ملا جو بتاتا کہ "کتیاں والی مایؑ" کی اصل کیا تھی۔ وہ کب پنڈی ایؑ تھی اور کس کے ساتھ۔۔ 1947 میں وہ واپس کیوں نہیں چلی گیؑ تھی؟ کیا اس کا کویؑ خاندان نہیں تھا؟ کویؑ شوہر نہیں تھا؟ بچے نہیں تھے؟
۔۔ وہ پنڈی کی ایک زندہ روایت ہے۔میں ابھی تک مایوس نہیں ہوں۔۔شاید کویؑ میرا ہم عمر یہ پڑھ لے یا اس کا نواسا پوتا اسے بتادے تو مجھے اپنے سب سوالوں کا جواب مل جاے۔۔ سواےؑ ایک سوال کے۔۔ ایک ماں جیسی پردیسی عورت نہ رہی تو ان کتوں کا دیس والوں نے خیال رکھا؟
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔