::: قصہ جسٹس شادی لال کا انکار اور علامہ اقبال کے جج بنے اور" سر" کے خطاب کا قضیہ ۔ { کچھ حقائق} :::
=============================================================
علامہ اقبال کے چند بڑے مخالفین اور دشمنان میں غیر منقسم پنجاب ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سرشادی لال بھی شامل تھے۔ شادی لال ،اقبال کے قومیت، اور قانونی نظریات کے سخت مخالف تھے ۔جب علامہ اقبال نے پنجاب ہائی کورٹ کے جج کے لیے درخواست دی تو اس سلسلے میں حکومت پنجاب نے سر شادی لال سے مشہورہ طلب کیا تو انھوں نے علامہ اقبال کی جج کے عہدے کی نامزدگی کے لیے شدید مخالفت کی۔ کیوں کہ ان کی نظر میں اقبال محض شاعر تھےاور وہ انھیں شاعر کی حیثیت سے ھی جانتے ہیں۔ اوروہ اقبال کو بحثیت قانوں دان نہیں جانتے۔ ان کے یہ الفاظ تھے:
"We know him as a poet, But we do not know him as lawyer
اس کا پس منظر یہ تھا کہ سر میاں محمد شفیع کا لاہور میں قانون اور وکالت میں بڑا نام تھا۔ اقبال اور میاں شفیع کے گہرے مراسم تھے۔ سر شادی لال کو چیف جسٹس بنانے کی وائسرائے ہند سے سفارش میاں شفیع نے کی تھی۔ چیف جسٹس بننے کے بعد شادی لال اور میاں شفیع کی دوستی برقرار نہ رہ سکی۔ شادی لال بیرسٹر اقبال کو میاں شفیع کی مخالفت پر لانے کے لئے کمربستہ ہوگئے لیکن اقبال اس کی باتوں میں نہ آئے بلکہ اسکی سازشوں کا حصہ بننے سے انکار کردیا۔۔ شادی لال نے ایک موقع پر کہا ”مجھے خطابات کے لئے سفارش کیلئے کہا گیاہے۔ میں آپ کے خان صاحب کے خطاب کی سفارش کرنا چاہتا ہوں۔“ اقبال نے یہ پیشکش ٹھکرا دیا۔ ایک روز شادی لال کا ملازم علامہ اقبال کے گھر آیا اور پیغام دیا کہ چیف جسٹس آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ علامہ نے کہا کہ اگر خطاب دینے کی بات کرنی ہے تو ملاقات کی ضرورت نہیں۔ اس پر بھی شادی لال کا لال پیلا ہونا فطری امر تھا۔ اقبال نے شادی لال کی طرف سے دیا جانے والا خطاب تو قبول نہ کیا تاہم وائسرائے ہند نے آپ کو سر کا خطاب ضرور دے دیا۔”خان صاحب“ سے کہیں برتر یعنی ”سر“ کا خطاب جو کہ خود چیف جسٹس شادی لال کو حاصل تھا، بیرسٹر اقبال کو عطا کرنے کا اعلان ہوا تو جسٹس شادی لال کی ناگواری میں مزید اضافہ ہو گیا ہو گا۔ دیگر بھی ایسے کئی واقعات ہوئے جو شادی لال کی اقبال سے عناد اور کدورت کا سبب ہے۔ مرزا جلال الدین نے خطاب ملنے کی کہانی کچھ اسطرح بتایا ہے . پنجاب ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سر شا ری لال نے علامہ کو بلا کر کہا کہ حکومت نے مجھ سے خطابا ت کے لئے سفارشات طلب کی ہیں . اور میں آپ کے لئے " خان صاحب" کا خطاب تجویز کر رہا ہوں . یہ چونکہ ادنی ترین خطاب تھا علامہ کو اس خطاب میں اپنی توہین کا پہلو نظر آیا اور علامہ نے بگڑ کر کہا " میں کسی خطاب کا خوا ہاں نہیں. اس لئے آپ سفارش کی زحمت نہ کریں". سر شا ری لال نے کہا " اتنی جلدی فیصلہ نہ کریں ذرا سوچ لیں " علامہ نے کہا " میں سوچ چکا ہوں ، مجھے کسی خطاب کی کوئی ضرورت نہیں ہے". کتاب" قانون دان اقبال" کے مصنف ظفر علی راجا کواپنی تحقیق اور تلاش کے دوران بیرسٹر اقبال کے حوالے سے 103 شائع شدہ مقدمات تک رسائی ہوئی۔ بیرسٹر اقبال کے بارے میں یہ بات بھی غلط طور پر روایت کی جاتی ہے کہ وہ زیادہ تر فوجداری پریکٹس کیا کرتے تھے۔ اقبال کے جن ایک سو تین مقدمات کے ریکارڈ تک رسائی ہوئی ہے ان میں 95 فیصد سے زائد مقدمات کی نوعیت دیوانی قوانین سے تعلق رکھتی ہے۔
میں آپ کیلئے ”خان صاحب“ کا خطاب تجویز کر رہا ہوں۔ ”خان صاحب“ سے کہیں برتر یعنی ”سر“ کا خطاب جو کہ خود چیف جسٹس شادی لعل کو حاصل تھا، بیرسٹر اقبال کو عطا کرنے کا اعلان کیا تو جسٹس شادی لال کی ناگواری میں مزید اضافہ ہو گیا ہو گا۔ مولانا عبدالمجید سالک کا بیان ہے کہ اقبال کے حاسد حکام اعلیٰ کو اقبال سے بدظن کرنے میں ہمیشہ مصروف رہتے تھے لیکن نواب ذوالفقار علی خان ان تمام فتنہ انگیزیوں کے سد باب کیلئے سینہ سپر رہا کرتے تھے اور چاہتے تھے بیرسٹر اقبال عدالت عالیہ کے جج بن جائیں۔ جہاں تک اقبال کا تعلق ہے تو ریکارڈ سے ظاہر ہے کہ انہوں نے کبھی کسی خطاب کیلئے از خود کوئی کوشش نہیں کی۔
ظاہر ہے کہ اقبال کی اتنی زبردست حکومتی اور عوامی پذیرائی پر جسٹس سرشادی لال تلملاتے رہے ہوں گے اور خود سے اقبال کی بے رخی انکے دل پر نقش ملال بنی ہوئی ہو گی۔ یہی وہ پس منظر ہے کہ جب 1925ءمیں لاہور ہائی کورٹ میں ایک خالی اسامی کیلئے اقبال کی بطور جج تعیناتی کی تحریک ہوئی تو چیف جسٹس سرشادی لعل نے اپنے دل کے پھپھولے پھوڑتے ہوئے یہ طنزیہ فقرہ کہا:
”ہم اقبال کو شاعر کی حیثیت سے جانتے ہیں قانون دان کی حیثیت سے نہیں“
جسٹس شادی لعل کا یہ کہنا کہ وہ اقبال نام کے کسی وکیل کو نہیں جانتے قانونی کتب میں ہائی کورٹ کے شائع شدہ فیصلہ جات کے ریکارڈ سے بھی جھوٹ ثابت ہوتا ہے۔ عدالت عالیہ کے شائع شدہ فیصلہ جات سے ظاہر ہوتاہے کہ شادی لعل بطور مخالف وکیل بھی اقبال کے ساتھ ہائی کورٹ کے مقدمات میں پیش ہوئے اور پھر شادی لعل کے جج بن جانے کے بعد پندرہ ایسے مقدمات کی تفصیل بھی ملتی ہے جن میں بیرسٹر سر محمد اقبال نے جسٹس شادی لعل کی عدالت میں پیش ہو کر مقدمات کی پیروی کی۔ حقائق کی روشنی میں دیکھا جائے تو یہ بات یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ جسٹس سر شادی لعل نے اقبال کی قانونی حیثیت سے یکسر نا آشنائی کی بات بدنیتی، حسد اور ذاتی ناپسندیدگی کی بنا پر کی تھی کیونکہ بیرسٹر محمد شفیع کے مقابلے میں اقبال سے سرشادی لعل کی ہمنوائی سے انکار کیا تھا۔ ایک طرف تو بحیثیت چیف جسٹس وہ لاہور بار کے ممتاز رکن بیرسٹر اقبال کو بلا کر خود انہیں ”خان صاحب“ کے خطاب کی پیشکش کرتے ہیں جبکہ دوسری طرف وہ انکی قانونی شناخت تک سے انکاری دکھائی دیتے ہیں۔ اس حوالے سے ایک اور واقعہ کا تذکرہ خالی از دلچسپی نہ ہو گا۔ اس واقعے نے بھی سرشادی لعل کے دل پر ضرور ایک انمٹ زخم لگایا ہو گا۔ یہ واقعہ اکتوبر 1933ءکا ہے جب چیف کورٹ لاہور کو ہائی کورٹ پنجاب میں تبدیل کیا گیا۔ وائسرائے ہند نئے ہائی کورٹ پنجاب کا افتتاح کرنے کیلئے بطور خاص لاہور آئے۔ اس موقع پر چیف جسٹس سر شادی لعل نے استقبالیہ تقریر کی۔ وائسرائے ہند نے جوابی تقریر میں دیگر باتوں کے علاوہ بیرسٹر اقبال کے بارے میں بھی تعریفی کلمات کہے۔ بیرسٹر اقبال کی تعریف پر سب حاضرین حیرت زدہ رہ گئے۔ چونکہ ایسے موقع پر وائسرائے ہند جیسی شخصیت سے ایسی تعریف کی توقع نہ تھی۔ اقبال نے مہاراجہ سرکشن پرشاد کے نام تحریر کردہ اپنے خط مورخہ 24 اکتوبر 1933 کو خود اس واقعہ کا ذکر کیا ہے۔ مہاراجہ کشن پرشاد ریاست حیدر آباد میں وزارت عظمی کے عہدہ جلیلہ پر فائز رہے۔ مہاراجہ کشن پرشاد اپنی تحریروں میں علامہ اقبال کو ہمیشہ بیرسٹر محمد اقبال لکھا اور بولا کرتے تھے۔مہاراجہ کشن پرشاد علامہ اقبال کی قانون پر گرفت دیکھتے ہوئے ہی انہیں ریاست کی ہائی کورٹ میں جج لگانے کی کوششس کی تھی۔ سر شادی لال 1920سے 1934 تک لاہور ہائی کورٹ کے چیف چسٹس رہے۔ شادی لال کا انتقال 1941 میں ہوا۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔