قصہ حکومتی اشتہارات کا
پی ٹی آئی کے بعض دوستوں کی جانب سے میڈیا کو اشتہارات کے معاملے پر پوسٹیں آئی ہیں۔ بعض ساتھیوں کا خیال ہے کہ اخبارات اور چینلز کو اشتہار دینے کی کیا ضرورت ہے، ایک آدھ نے یہ نکتہ بھی اٹھایا کہ عوام کے پیسوں سے ان پرائیویٹ اداروں کو اشہتار آخر کیوں دئیے جائیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے انصافین ساتھی جوش خطابت میں بعض بنیادی چیزیں نظرانداز کر گئے۔
اشتہار حکومت کیوں دیتی ہے ؟ اس کی تین چار وجوہات ہیں۔ سب سے پہلے یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اشتہار صرف حکومت کی تشہیر یا اس کے فائدے ہی میں نہیں دئیے جاتے۔ اشتہارات کا ایک حصہ ایسا ہے جو اطلاع کے طور پر دیا جاتا ہے، عوام کو رائٹ ٹو Know، رائٹ ٹوانفارمیشن ہے، اسی لئے حکومتی ادارے قوانین کے تحت پابند ہوتے ہیں کہ کوئی بڑا ٹھیکہ دینے، ملازمت ، تقرر وغیرہ سے پہلے اس کا اشتہار جاری کریں تاکہ لوگوں تک وہ معلومات مساوی انداز میں پہنچے۔ ایسا نہ ہو کہ حکومتی اہلکار آپس میں بیٹھ کر ہی سب کچھ نمٹا دیں۔ کسی کو معلوم ہی نہ ہو اور اپنے من پسند افراد کے انٹرویو کرا کر انہیں ملازمت دے دی جائے۔ ٹھیکوں وغیرہ کے ٹینڈرز کے اشتہارات جاری ہوتے ہیں۔ اخبارات کے اندرونی صفحات پر ٹینڈرنوٹس چھپے ہوتے ہیں، یہ وہی اشتہار ہیں۔
دوسرا حصہ ان پراجیکٹس کے بارے میں ہے، عوام کو جن سے باخبر رکھنے کے لئے حکومتیں اشتہار دیتی ہیں۔ ووٹر کا حق ہے کہ اسے پتہ چلتا رہے کہ اس کی حکومت کیا کر رہی ہے۔ کیا پراجیکٹس لگ رہے ہیں، کون سے مکمل ہوگئے، کیا نئے پلان ہیں، ان پر پھر ڈسکشن ہوسکے۔۔ ہمارے جیسےممالک میں جہاں سرکاری محکمے معلومات فراہم ہی نہیں کرتے، وہاں پر ان سرکاری اشتہار میں دئیے گئے اعداد وشمار کو بنیاد بنا کر بہت سے تجزیے، سوالات، حتیٰ کہ پارلیمنٹ میں سوالات پوچھے جاتے ہیں۔ چولستان میں قائداعظم سولر پراجیکٹ کا ہدف سو میگا ووٹ بجلی پیدا کرنا تھا، اس کی تفصیل بتانے کے لئے ن لیگی حکومت اشتہار دیتی رہی، بعد میں اسی کو بنیاد بنا کر اخبارنویسوں نے تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ صرف سولہ سترہ میگا واٹ بجلی پیدا ہو رہیے ، حتیٰ کہ شہباز شریف کو خود پریس کانفرنس کرنا پڑی کہ سولہ نہیں، اٹھارہ میگا واٹ بجلی پیدا ہوتی ہے۔ اس پر ایک ستم ظریف نے معروف سرائیکی محاورہ کہا، موئی نہیں تے آکڑی پئی ہے(سردیوں کے دنوں میں کسی لاوارث فقیرنی کی لاش فٹ پاتھ ملی، لوگ جمع ہوئے کہ بے چاری مرگئی، ایک دانا آیا ، اس نے میت کے ہاتھ پیر چھوئے اور بولا نہیں نہیں یہ تو آکڑی پڑی ہے، لوگوں نے کہا بھلے مانس مرنے کے بعد لاش نے اکڑ ہی جانا تھا، یہ کون سا انکشاف کر ڈالا تم نے)۔
تیسرا حصہ عوام کی آگہی کے لئے ہے۔ وزارت صحت مختلف موسموں میں لوگوں کو گیسٹڑو، ہیضہ اور دیگر بیماریوں کے حوالے سے حفاظت کرنے کے مشوروں پر مبنی اشتہار جاری کرتی ہے۔ جیسے ڈینگی کے لئے ہونے والی آگہی مہم۔ بجلی والے لوگوں کو ترغیب دیتے ہیں کہ اے سی چھبیس ڈگری پر چلائیں اور گیس والے باقاعدہ مہم چلاتے ہیں کہ گیزر صرف بوقت ضرورت چلائیں، یہ سب اشتہار ہی ہیں۔
ایک اور فیکٹر ہے کہ ہمارے ہاں بعض اداروں کی مناپلی قائم ہے، انہیں اشتہار دینے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔ جیسے ایک طویل عرصے تک پی آئی اے برائے نام اشتہار دیتا تھا کہ جہاز تھے ہی صرف اس کے، ہر ایک نے آنا ہی تھا۔ ریلوے کی مناپلی ہے ۔ اب ٹرانسپورٹڑوں سے مسافروں کو واپس لینے کے لئے اسے اشتہار دینے پڑتے ہیں۔ بینک تمام پرائیویٹ ہوگئے ، نیشنل بینک کو مجبورا مقابلے میں رہنے کے لئے اب اشتہار دینے پڑتے ہیں۔
ایک اور فیکٹر بہت اہم ہے ، جسے سمجھنا بہت ضروری ہے۔ آج کل اردو اخبار کی قیمت پندرہ روپے ہے، اتوار کو پچیس روپے ہوجاتی ہے۔ اب یہ یاد رکھیں کہ ایک اخبار جو پندرہ روپے میں بکتا ہے، اس پر آنے والا خرچہ اس سے تین چار گنا زیادہ ہوتا ہے، یعنی اسی اخبار کی کاسٹ پچاس پچپن روپے سے کم نہیں ، مگر اسے کم از کم پینتیس چالیس روپے سستا بیچنا پڑتا ہے کیونکہ اگر قیمت پچپن ساٹھ روپے رکھ دی جائے تو قاری اسے افورڈ نہیں کر سکے گا۔ پندرہ روپے بھی مالکان کو نہیں ملتے، نصف قیمت پر اسے چیف نیوز ایجنٹ کو دے دیا جاتا ہے اور آگے وہ ہاکروں کو تینتیس فی صد کے لگ بھگ کمیشن پر اخبار گھروں میں ڈالنے کے لئے دیتا ہے۔ یعنی مالکان کو ایک اخبار کے پانچ ساتھ روپے ہی ملتے ہیں۔ اخبار دنیا کی واحد پراڈکٹ ہے جو اپنی کاسٹ سے تین چار گنا کم میں فروخت ہوتی ہے۔ یہ صرف پاکستان نہیں بلکہ دنیا بھر میں ہے اور بہت سے ملکوں میں تو پانچ چھ گنا زیادہ سستے بکتے ہیں۔ یہ خسارہ اور پھر اخبار کے سٹاف کی تنخواہیں اور مالکان کا منافع صرف اور صرف اشتہارات سے پورا ہوتا ہے۔ اگر اشتہار نہ ہوں تو دنیا میں کوئی بھی اخبار فروخت نہیں ہوسکے گا۔ یا پھر اخبارات کو کھل کر ہر خبر بیچنی اور بلیک میلنگ سٹف پر جانا پڑے گا، اس کے علاوہ وہ زندہ نہیں رہ سکتے۔ چینلز کے حوالےسے بھی یہی صورتحال ہے ۔ بلکہ اخبار کی سرکولیشن سے چلو چند لاکھ تو آ جاتے ہیں، ٹی وی کا تو وہ بھی نہیں، آپ اپنے گھروں میں جو پیسے کیبل والے کو دیتے ہیں، اس سے ٹی وی چینل مالک کا کوئی تعلق نہیں۔ اپنے بجلی کے بل میں ٹی وی فیس دیتے ہیں، وہ پی ٹی وی کو جاتے ہیں۔ اس لئے اگر اشتہارات نہ ہوں تو چینل بھی بند ہوجائیں۔ ان کے بند ہونے کا مطلب ہے کہ اطلاعات کے تمام قابل اعتماد ذرائع بند ہوجائیں۔
اب ہونا یہ چاہیے کہ حکومت اشتہار میرٹ پر دے۔ جن چند اخبارات کی سرکولیشن زیادہ ہے انہیں اس حساب سے اشتہار دے ، چاہے وہ حکومت کے مخالف ہوں یا حامی۔ بلکہ زیادہ بہتر ہے کہ اشتہار کا حکومت سے کوئی تعلق نہ ہو، ایک غیر جانبدار، بااختیار باڈی ہو جو میرٹ پر اشتہار دے ۔ اس کے بجائے حکومتیں ان اخبارات کو نوازتی ہیں، جو اس کی حمایت کرتے ہیں۔ جو تنقید کریں ان کے اشتہار بند کر دئیے جاتے ہیں۔
ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ بعض اخبارات ڈمی یعنی چند سو چھپتے ہیں، مگر ان کے سینئر اور معروف صحافی مالکان اپنے تعلقات اور حکمران کی کاسہ لیسی سے کروڑوں کے اشتہار لے لیتے ہیں۔ یہ غلط بلکہ ظلم ہے۔ ان ڈمی اخبارات کو بند ہوجانا چاہیے جو شائع ہی نہیں ہوتے اور ان کا صحافیوں کو بھی کوئی فائدہ نہیں۔ یہی بات چھوٹے چینلز کی ہے۔ اشتہارات ہر جگہ میرٹ پر دینے چاہئں اور تنقید ، تعریف سے بالاتر ہو کر۔
پھر قوانین کے مطابق ایک خاص حصہ ریجنل پریس ،ادبی جرائد وغیرہ کے لئے ہے۔ انہیں کوئی اشتہار نہیں دیتا اور یوں علاقائی اخبارپنجابی، پشتو، بلوچی، سرائیکی وغیرہ دم توڑ گئے ہیں،سندھی اخبار استثنا ہیں۔ ادبی جرائد بھی برائے نام ہی بچے ہیں۔ انہیں اشتہارات کی اشد ضرورت ہے ۔
پی ٹی آئی حکومت کو یہ مسئلہ ہمیشہ کے لئے حل کرنا چاہیے۔ غیر جانبدار آزاد باڈی بنائیں، اشتہار میرٹ پر دیں، ڈمی اداروں کو نکال باہر کریں، چند بڑے ناموں سے مرعوب نہ ہوں اور میرٹ پر درست فیصلے کریں اور حکومتی اشتہارات میں حکمرانوں کی ذاتی تشہیر، بڑی بڑی تصاویر وغیرہ نہ لگائیں۔ مقصد اطلاع پہنچانا ہو، اپنےووٹ بنانا نہیں۔ یہ اصلاحات اگر کی جائیں تو یہ ایک دیرینہ مسئلہ ہمیشہ کے لئے سیٹل ہوجائے گا۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔