اوں ! ہوں ! کیا آپ بھی کیسے ہیں ؟ سورج نکل ایا اور پڑے ہوئے گھوڑے بیچ کر سو رہے ہیں ہماری بیگم نے ہمیں بڑی ادائے دلنوازی سے مترنم اواز میں جگایا۔ہمیں لگا کہ اج یہ لطیف جھونکا ادھر کیسے بھٹک گیا ہم انکھیں ملتے ہوئے اٹھ گئے بیگم پری لوک سے اتری اپسرا لگ رہیں تھیں برے والہانہ انداز میں بولیں یہ لیجئے اج جیسمین ٹی اپ کی خدمت میں پیش ہے بیڈ ٹی ہمارا دل بہت زور سے دھڑکنے لگا اللہ خیر جیسمین ٹی بہت بڑی فرمائشوں کے طوفان کا پیش خیمہ ہے جلدی سے گھبراکر ہم نے کہا زرا واش روم ہوکر اتا ہوں۔ ارے کیا اپ بھی دیہاتیوں کی سی باتیں کرتے ہیں بیڈ کی تعریف نہیں پتا اپ کو ارے بیڈ ٹی صبح بیدار ہوتے ہی بغیر منہ ہاتھ دھوئے پی جاتی ہے اچھا اسی لئے اسکو بیڈ ٹی یعنی گندی چائے کہتے ہیں ،آپ بھی نہ بہت مذاق کرنے لگے ہیں بڑی دلربا مسکراہٹ کے ساتھ بیگم نے ہمیں مخاطب کیا اب تو ہمارا دل اس عاشقانہ انداز پر ایسا لگنے لگا کہ اج کی ساعت نیک ہے کہ بد ہم نے دل کرہ کرکے جیسمین کی چسکیاں ایسے لینا شروع کیں جیسے ہل اسٹیشن پر برفباری دیکھنے ائے ہوں۔آخر کار وہی ہوا جس کا ہمیں احساس ہو چلا تھا بیگم کی فرمائشوں کی برف باری شروع ہوگئ تھی ہمارے پاس بچاوء کا کوئ سامان بھی نہیں تھا کیوں کہ بیگم کی بہن بھی بیگم کا تاج پہننے جارہی تھی ہم بڑے مخمصے میں تھے ہم نے کہا بیگم افس کے لئے ادھا گھنٹہ رہ گیا ہے اس بابت شام میں بات کریں گے تم فکر نہ کرو بی ہیپی بیگم جھانسے میں اگئیں
ہم ہانپتے کانپتے افس پہنچے ڈر رہے تھے آدھا گھنٹہ لیٹ ہوگئے کہیں باس طلب نہ کر لے مگر وہاں تو سارے کلیگ کسی بحث میں الجھے تھے ابھی ہم سانس بھی درست نہیں کر پائے تھے کہ سردار جی ہانک لگائ
"اے لو پراوء میاں جی اگئے نے سانو انا نو پوچھندا پیا، او یار میاں مینو اے دسو یہ بیگماں دا کی مطبل ہے گا میں سمجھیا ریاں ہاں ان لوکاں دی اکل وچ بٹھدا کچھ نئیں" ہمارے دل میں غصہ کا جوار بھاٹا اٹھنے لگا یہ کمبخت ہمارا نام نہیں لے سکتا میاں جی ہماری پہچان بنا دی ہم نے جوار بھاٹا کا محور بدلتے ہوئے پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا" سمجھ میں نہیں ایا بیگمات کا معاملہ" "او یااار اے کوئ کمپلیکیٹیڈ گل تھوڑی ہیگی او یار سن اسی کہن دے نے جڑی جو بیگماں ہوندی نی ایہ منڈے نے جنانی ہوندی ہیگی جڑے یہ بندے کہندے نے بیگمات مہارانیاں ہوندی نے ان لوکاں نو پتہ ائ کچھ نی اردو وڈی سونی بھاشا ہیگی یہ الٹی سیدھی بحث کردے نے چھڈو یار تسی کی کہندے" ہمارا دماغ فق ہوگیا ایک رنگ ایااور چلاگیا ابھی ہم بیگمات کی ادھیڑ بن میں تھے کہ گپتا جی بول "ارے یار خان صاحب اپ تو بڑی گمبھیر سوچ میں پڑگئے اپکی بیگم کے بارے میں تھوڑے ہی پوچھا ہے " ہمارے چنگاری تلووءں سے لگی سر میں چڑھی ہمارا خون کھول رہا تھا اب یہ ہمیں خاں صاحب کے خانے میں فٹ کر رہا ہے ابے کیا ہمارا نام گم ہوگیا کیا کہ بس ہمیں تفرقے میں ڈالدیا غصہ تو بہت ارہا تھا کہ اس کمبخت کو ہم چیر پھاڑ دیں مگر موجودہ حالات میں مصلحت کے ٹھنڈے پانی سے اگ کو بجھاتے ہوئے ہم نے کہا سردار جی صحیح کہہ رہے ہیں اب تو سردار جی کی باچھیں کھل گئیں " اوہ یار میں نئ کہتاسی اے سارا کمال اردو دا ہیگا اوہ یار اردو بڈی سونی جبان ہیگی اوئے اس دا کمال دیکھو پراوں اس وچ بیگم دا کلاسیفکیشن یہ چار اکشر دا نام ہیگا تسی سنو پہلا اکشر ب تے اس دا مطبل بےدرد ہور ی دا یاکوت(یعقوت) دیکھدے نا لال لال ہوندا ہیگا اوہی یاکوت تے گ گدھی ہور م تے مطبلی (مطلبی) ہماری سمجھ میں سردار جی کی بات آگئ واقعی بیگم کی تشریح تو بڑی سمجھداری سے کی ہےہم نے اپنے لئے حفظ ماء تقدم کی بنا پر ایک پرچہ پر یہ نوٹ کر لیا اور کمل ہوشیاری سے گدھی کے گاف کو نہیں لکھا ہم نے دل میں ٹھان لیا جب ضرورت پڑےگی گ کی اضافت کر لیں گے جب تک بیگم پر دہی جماتے رہیں ٹھیک ہے ویسے بھی ہم اپنی بیگم سے کبھی بھی آبیل مجھے مار والا مچیٹا نہیں کرتے
شام میں ہم افس سے گھر پہنچے شرٹ پینٹ اتار کر فریش ہوکر کرتا پائجامہ پہن لیا مگر ہماری سمجھ میں اج تک نہیں ایا یہ بیگمات مردوں کے آفس سے گھر پہنچنے پر جیبوں میں کیا تلاش کرتی ہیں ہماری بیگم بھی جیب ٹٹول رہی تھیں شرٹ کی اوپری جیب میں فولڈ ہوا ہمارا حفظ ماء تقدم رکھا تھا ابھی بیگم نے اسے نکالا تھا اور ہم صبح سے ہی بیگم کی اداوں کے سحر میں ڈوبے تھے چائے کی خواہش شدت سے تھی صبح کی جیسمین بھی سرور بخش گئ تھی اتفاق کی بات کسی کے گھر کشور کا گانا ارہا تھا
شوخیوں میں گھولا جائے تھوڑا سا شباب
پھراس میں ملائ جائے تھوڑی سی شراب
پھر ہوگا جو نشہ تیار وہ پیار ہے
ہم پتہ نہیں کیسے بہک گئے اور ہانک لگا دی بیغم زرا صبح والی جیسمین۔۔ ابھی ہمارے الفاظ منہ میں ہی تھے ہم نے اپنے اپ کو سیدھے سادے رنگروٹ کی طرح محاذ پر پایا ہم بے دست و پا تھے بے تکان گولی باری جاری ہوگئ " اجی ہاں اب میں تو بیغم ہی ہوں گی اب تو غم کرنے والی تو افس سے ہی آئے گی دیکھو اب پھرے شروع ہوئے ہیں کیسی ناس پیٹھی نے بیگم کی شکل بگاڑی ہے بےدرد ارے زرا بتادو کیا ظلم کر دیا تمہارےساتھ جو تمہاری رفیق نے میرے خلاف زہر اگلا ہے ہم نے کچھ کہنے کے لئے منہ کھولا ہی تھا۔۔کہ اجائے جنم جلی نہ چٹیا پکڑ کے مڑیا رگڑی ہو پھر پوچھوں گی کتے نازوں کی پلی ہے مکار، ارے بے۔۔۔ ہمارے منہ پر پھر ایک گولی لگی یعقوت لال لال مردوں کو اپنے فریب رنگ میں رنگنے والی اجائے چڑیل نہ چپلوں سے منہ لال کروں پھر پوچھوں گی تیری ماں نے بھی کبھی ایسا لال رنگ دیکھا تھا اور یہ دیکھو کیسی دیدہ دلیری سے دہی کا اشارہ کردیا کہ زہر ملاکر دینا دہی میں یہ سن کر ہمارے تو طوطے ہرن ہوگئے اللہ کی پناہ اب سمجھ آیا کہ بزرگ صحیح مثال دیتے ہیں اگر ناک نہیں ہوتی تو غلاظت میں منہ مارتی شائید زیادہ تر ریاستیں بیگمات کے بے سرو پیر کی منطق کی وجہ سے تباہ ہوئیں ہم نے اڑ لیتے ہوئے سمجھانا چاہا دیکھو بیگم۔۔۔ ارے کیا دیکھوں میں تم جیسے مرد جو دوسروں کی زلفیں سنوارتے ہیں چھی چھی دوسروں کی گندی خوشبوئیں سونگھتے پھرتے ہیں ان کو اچھی طرح جانتی ہوں ہم نے ڈر کے مارے دل ہی دل میں پوچھ لیا ہمارے علاوہ کتنے مردوں کو جانتی ہو وہ کچھ بھی کرسکتےہیں مجھے مطلبی بتا رہی ہے دو دن سے ادائیں دکھانے والی ارے میں نے سب کچھ قربان کیا ہے اگر کسی نے بھی تمہیں مجھ سے چھیننے کی کوشش کی تو سب کو ختم کرکے خود بھی ختم ہوجاوءں گی ہماری بیگم جھاڑو پنجہ لیکر اپنی وفا محبت قربانیوں کی گلوریوں کو چبا چبا کر ہم پر ایسی پچکارئیں مار رہی تھیں کہ ہم خود غلاظت کا ڈھیر بن گئے تھے اور وہ بالکل ہمارے بچپن کی بدشکل کلو بیگم(اسکا شوہر شراب پیکر اسے اسی نام سے پکارتا تھا) بھنگن کی طرح جھاڑو پنجہ سے غلاظت صاف کرکے ٹوکرا سرپر رکھ کر ڈھلاوء پر پھینک دیا ہوا وہ تو اب یاد بن گئ اب تعریف کروں یا دل کے پھپھولے پھوڑوں وہ تو ہمارے صاحب اقتدار نے میاں جی کی وراثت عقیدت کو ڈھیر کرکے کلو بیگم کی میلا پرتھا کو ختم کرکے تعصب کی ساری غلاظت خاں صاحب پر انڈیل دی اور قانوں پاس کرادیا دلت کا اب بھنگی کا لفظ استعمال کرنے کی پاداش میں جرمانہ اسکی خوشنودی میں اب پورا کلاس ہی نمایاں ہوگیا دلت کہانی دلت شاعری دلت ادب اور تو اور دلت ایوارڈ پتہ نہیں کسی صاحب نے بتایا الیکٹرانک دور میں ورن سسٹم بھی ماڈرن ہوگیا لیکن پرکھوں کا سسٹم جو ہے وہ چلتا رہے گا جب چلےگا تو ظاہر ہے دلت بیگمات کا ظہور تو ناگزیر تھا اور ایسی ایسی دھاکڑ بیگمات عالم وجود میں نمودار ہوئیں کہ پوری سیاست کو ہلا کر رکھ دیا اور برسوں کی روایات کے مطابق محور حکومت بن گئیں ایک تو ایسی بیگم مائہ نازی ائ اس نے تو مردانہ جاریحیت کو بھی ہیچ ثابت کردیا اور دولت وکرپشن میں تاریخ کے پنوں کو سیاح کردیا اف یہ ہوتا ہے پریشان ذہن بیگم کے قصے سے بیگمات کے تذکرے کی جانب رو بہک گئ بہرحال
جنگی محاذ پر جنگ بندی کا سمجھوتا شہنشاہ اکبر کے دربار میں خلعت اور تحائف کی شکل میں ہوا ہم صبح اپنی بیگم کے ساتھ ان کے سائہ کی شکل میں لکھنئو گھوم رہے تھے اوبر کا ڈرائیور ہم سے بتیا رہا تھا سر یہ لکھنئو کی عمارتیں کیا واجد علی شاہ نے بنوائیں تھیں اور سر ہم نے سنا ان کی پانچ سو بیگمات تھیں ہمارا دل دھڑکنے لگا کیا بیگم بھی کورونا کی طرح ہوگئ ہے پھر یہ مرض بیگم شروع ہم نے اسکا کوئ جواب نہیں دیا اور ورد کرنے لگے ال تو جلال تو ائ بلا کو ٹال تو مگر وظیفہ کامیاب نہیں ہوا وہ کہنے سر پانچ سو نہیں ہوں گی سو تو ہوں گی ہم غصہ میں جواب دیا واجد علی شاہ نے اتنی بیگمات پالیں کہ خود بیگم بن گئے یہ بات تو ہے سر اچھا سر یہ بتائیں ساری بیگمات مسلمان بادشاہوں کی کیوں ہوتی ہیں ہمیں چکر انے لگے کمبخت مانے گا اج ساری بیگمات کا پاٹھ پڑ لےگا ارے نہیں رانیاں بھی ہوتی ہیں ارے کہاں سر وہ تو اگر مسلمان بادشاہوں نے ہندو رانی سے شادی کی تو وہ تھیں جیسے رانی جودھا بائ ہمیں خاموشی سے اس کی بات قبول کرنے کے علاوہ کچھ نہیں تھا کیوں کہ دور حاضر میں ناموں کو اور تاریخ کو بدلنے کا ایسا ہنگامہ چل رہا ہے کہ ہمیں لگا بات اتنی نہ بگڑ جائے کہ پدماوتی پدماوت بن گئ توبیگمات کہیں رانیاں نہ بن جائیں تو بیگمات کی تو تاریخ ہی مسخ ہوجائےگی اب دیکھئے نہ سر جتنے بھی ایسے شہر جہاں مسلمان نوابوں کی حکومت رہی ہے وہ سب بیگمات کے نام سے بھرے پڑے ہیں ہم بیگم حضرت محل پارک کے سامنے سے گذر رہے تھے ہم نے اسی میں عافیت سمجھی کہ وہاں اتر کر تھوڑھی دیر کھلی فضا میں سانس لے لیں بیگم حضرت محل پارک لکھنئو کے نوابین کے خانوادے کی وہ مائہ ناز بیگم تھی جس نے جنگ آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا لیکن بیگم کا مجسمہ پارک میں کھڑا دنیا کی بے رغبتی اور بےاعتنائ پر دن رات انسو بہاتا رہتا ہے ہماری بیگم اس کو بڑے غور سے دیکھ رہی تھیں ہمارے پاس ہی کئ اور جوڑے اور بچے کھڑے تھے سب اپنی اپنی کہہ رہے تھے ایک بہت قابل شخص اپنی بیوی کے سامنے بڑی قابلیت جھاڑ رہا تھا " تم جانت ہو ای بیگم کون ہووت ہے یہ سب بیگمیں مہارانی ہوت ہیں بڑی سندر رہن بالکل گوری چھمنیا کونو پری کا ہوگی اور تو کو معلوم بیگم حجرت محل تو سندرتا کے کارن دیس ودیس میں پرسدھ ہوگئ جس کے کارن ودیسیوں نے بھارت پر اکرمن کردیا اب بتاو کا کوئ بہو بیٹین کو کا دئے دے کسی کے کہنے پے " وہ کمبخت ایسے چٹخارے لے لے کے بیگم کا ذکر کر رہا تھا جیسے مصری کی ڈلی چبا رہا ہو اور ہمارا کڑھ کڑھ کر ایسا حال تھا کہ دل چاہتا تھا اس کے منہ میں نیم کی اتنی نمولیاں بھر دیں کہ زندگی میں شہوت کے چٹخارے بھول جائے ادھر ہماری بیگم کا یہ حال تھا بیگم کی تعریف سن کراس جاہل کی بات پر نہال ہوئ جارہی تھیں بالکل ایسے جیسے کوئ مداری ڈگڈگی بجابجا کر سب کو اپنی طرف متوجہ کرکے ہپنوٹائز کردیتا ہے اور جیبوں سے سب کچھ نکلوا لیتا ہے
ہم بیگم کے نام سے کانپنے لگے تھے حضرت گنج کے بازار جاتے ہوئے ہم نے کہا بیگم دیکھو بیگمات نوابوں بادشاہوں کی ہوتی ہیں وہ ناز نخرے اٹھاتے تھے ہم ٹھرے نوکری پیشہ ہمارے پاس صرف جان ہے اس لئے آج سے ہم تمہیں جانو کہیں گے تم ہماری جان لے سکتی ہو۔ اے ہے اللہ نہ کرے میں کیوں جان لوں اپکی جان لینے سے پہلے اپنی جان قربان کردوں اللہ سلامت رکھے اپ کو ہم حضرت گنج پہنچ گئے تھے بیگم کی نظر لکھنوی چکن کے مشہور شو روم " بیگمات" پر پڑ گئ تھی ہم سے بولیں چلئے زرا بیگمات میں چلیں ہمارے اوپر بجلی ٹوٹ پڑی یہاں تو کوئ بھی سوٹ دس ہزار سے کم کا نہیں ہوتا مابدولت بیگم پیچھے چوبدار بنے چل رہے تھے اور ہمیں سردار جی کی تشریح سارے مطلب سمجھا رہی تھی
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...