کبھی لندن اندرون شہر جانا ہو تو ہمیشہ یہی کہتا ہُوں کہ جیسے آپ اندرون لاہور جارہے ہوں یا اور کِسی مصروف شہر میں تو گاڑی پر آپ تنگ ہوتے ہیں ، پارکنگ کی جگہ مُشکل سے مِلتی ہے ، بار بار تبدیل ہوتی سپیڈ کی حد، سپیڈ کیمرے ، سائیکل لین ، بس لین ، ریڈ لائینز ، ڈبل ریڈ لائینز ، نو سٹاپنگ ، دائیں ٹرن منع ہے ، بائیں ٹرن منع ہے ، ٹریفک کیمرے ، congestion charges وغیرہ وغیرہ ۔ اگر آپ ایک ٹیکسی ڈرائیور نہیں ہیں یا آپ کا کام ایسا نہیں ہے کہ آپ روز یہاں آتے ہوں تو بہتر ہے گاڑی مَت لے کر جائیں ورنہ ایک الیکٹرونک ٹکٹ یعنی چالان بھی کم از کم سو پاؤنڈز تک پڑجائیگا ۔ آپ کی قِسمت زیادہ ہی کھوچل ہُوئی تو کئی چالان چند دِن بعد آپ کے گھر کے ایڈریس پر موجود ہوں گے ۔ سو بابا جی گاڑی کِسی قریبی انڈر گراؤنڈ یا اوور گراؤنڈ ٹرین سٹیشن پر یا جہاں بھی مُمکن ہو وہاں پارک کریں اور وہاں سے ٹرین پکڑیں ۔
پرسوں بعد نمازِ جُمعہ ، میں ، بیگم اور دو دوستوں کے ہمراہ لندن سِٹی جانے کا پروگرام بنایا ، نیو بَری پارک سے انڈر گراؤنڈ ٹرین پکڑی اور ایمریٹس کیبلز نزد O2 ارینا پُہنچے ، یہ ویسی ہی کیبلز ہیں جیسے کوئی بھی چئیر لِفٹ ہوتی ہے بس فرق اِتنا ہی ہے کہ کوالٹی اور معیار بُہت بہتر ہے ۔یہ کیبلز دریائے ٹیمز کے اُوپر سے ہوتی ہُوئی وکٹوریا ڈوک کی طرف جاتی ہیں ۔ لندن میں مُختلف ڈوکس ہیں ، جہاں پر پانی کے راستے سے سامان پُرانوں زمانوں سے آتا ہے اور وہاں سے ٹرالرز سامان کو لے کر جاتے ہیں ۔ جب برِ صغیر پر انگریزوں کا قبضہ تھا تو ایسٹ انڈیا ڈوک ، ویسٹ اِنڈیا ڈوک ،آئیل اوو ڈوگز Isle of Dogs ،ایسٹ اینڈ اور کنیری وہارف Canary Wharf وغیرہ کے عِلاقوں میں مُسلسل جہاز آکر لنگر انداز anchored ہوتے تھے ۔
ایسٹ اِنڈیا ڈوک کا عِلاقہ ہمیں ایسٹ اِنڈیا کمپنی کی یاد دِلاتا ہے ، ایسٹ انڈیا اور ویسٹ انڈیا دو الگ الگ کمپنیز تھیں جو بعد میں اکھٹی merge ہوگئیں ۔خیر اِس عِلاقے کی اپنی ہی ایک الگ کہانی ہے اُس وقت سے لے کر آج تک یہ علاقہ یعنی کینیری وہارف شہر کا تجارتی مرکز ہے ۔
یہاں یعنی وکٹوریا ڈوکس سے DLR لیکر ہم لندن ٹاور پُہنچے ۔ لندن ٹاور اور لندن بِرج ، ٹاور بِرج ،لندن کی پہچان ہیں ۔ جیسے فیصل آباد میں گھنٹہ گھر ، لاہور میں مینارِ پاکستان یا شاہی قلعہ ، جیسے پیرس میں آئیفل ٹاور ۔ لندن بِرج ، ٹاور بِرج ، بِگ بین ، یا ٹاور اوو لندن کا وُہی مقام ہے ۔ ٹاور بِرج دریائے ٹیمز کے اُوپر ہے ۔ جب دریا میں کوئی بڑا جہاز آتا ہے تو یہ پُل کھول جاتا ہے اور جہاز گُزارنے کے بعد دوبارہ ٹریفک کے لئے کھول دِیا جاتا ہے ۔یہاں ہمیشہ ہی چہل پہل رہتی ہے اور دریا سے آنے والی ہوا ہمیشہ ہی نہایت سرد ۔ دریائے ٹیمز کے آس پاس کا عِلاقے کا اپنا ہی مُنفرد فسوں ہے ۔ شام کا سحر جیسے اُترتا ہی نہیں ۔ دریا پر اُڑتے پِرندے ، گُزرتی کشتیاں اُن میں بیٹھے خُوش گپیاں لگاتے لوگ ، سب کُچھ بُہت اچھا لگتا ہے۔یہاں ہر وقت کوئی نہ کوئی ڈوکیومینٹری یا عکس بندی کہیں نہ کہیں جاری ہوتی ہے۔
اِس کے بعد فوجیں لیسٹر اسکوائر ،چائنہ ٹاؤن روانہ ہُوئے ۔ یہاں سب چائنہ ، تھائی ، کورین اور جاپانی کھانوں وغیرہ کی دُکانیں اور ریستوران ہیں ۔ یہاں ہی مُجھے گیٹ کے باہر رومانیہ کا شہری “ رِکی “ نظر آیا جو اِتنی ٹھنڈ میں بیٹھا” اکورڈین “Accordion نامی میوزک انسٹرومینٹ پر “ گاڈ فادر “ کی مشہورِ زمانہ دُھن بجا رہا تھا ۔ میں کِتنی ہی دیر اُس کے پاس کھڑا ہوکر وُہ مدھر دُھن سُنتا رہا ۔ دو سوا منٹس کی دُھن کئی بار سُنی ، جیسے ماضی کی بند ہُوئی جادوئی کھڑکیاں اُس دُھن سے کُھلتی جارہی ہوں ۔۔۔۔۔ ( یہ وُہی دُھن ہے جو انو ملک نے عامر خان اور منیشا کوئرالہ کی ہندی “ فلم اکیلے ہم اکیلے تُم “ میں مشہور گانے “ راجہ کو رانی سے پیار ہوگیا “ میں استعمال کی ہے ۔ برسیلِ تذکرہ انو ملک کے کافی گانے ایسی ہی دھنوں پر بنائے گئے ہیں اور بھی کئی بولی ووڈ پلے بیک میوزک ڈائیریکٹرز نے ایسے ہی مشہور دُھنیں استعمال کی ہیں ۔)
رومانیہ یا ایسٹ یورپ کے بعض ممالک زیادہ بہتر اکانومی کے حامِل نہیں اُن کے بعض افراد یہاں لندن میں شدید جدوجہد کرتے نظر آتے ہیں ، رِکی بھی اُن میں سے ایک تھا جو اُس سرد رات کو اپنی بیوی کے ہمراہ ٹھنڈے فرش پر بیٹھا میوزک بجا رہا تھا۔ ایک پانچ پاؤنڈز میں نے اُس کو دیے ؛ میں اُس کے لئے زیادہ کُچھ نہیں کرسکتا تھا ۔
پروگرام تو یہ تھا کہ یہاں سے کھانا کھا کر واپس جایا جائے لیکن میرے عِلاوہ سب کا خیال یہی تھا کہ چُونکہ اِن سب کھانوں کی جگہوں پر پورک بھی بنتا ہے تو اِسی لئے سی فُوڈز یا دیگر سبزیاں بھی مشکُوک ہیں ۔ میں اِس معاملے میں زیادہ وہمی نہیں ہُوں ۔ پورک بنتا ہے بنے ہم تو حلال فُوڈ ہی کھا رہے ہیں نا بھئی ! میں اب چل چل کر تھک بھی گیا تھا صاحب بُرا ہو جمہوریت کا ،اکثریت جِیت گئی اور فیصلہ ہُوا کہ عربیوں کے عِلاقے ایجوئیر روڈ چلیں !
ایجوئیر روڈ نارتھ لندن میں ایک مشہور جگہ ہے جہاں زیادہ تر سعودی ، لبنانی ، مصری وغیرہ افراد کھانوں ، کیفے اور حُقہ یعنی شیشے کا کاروبار کررہے ہیں ، دیگر قومیتیں بھی ظاہر ہے موجود ہیں لیکن نُمایاں یہی عربی ہیں ۔ ( یہیں ذرا دُور اپنے الطاف بھائی بھی رہتے ہیں اور میاں صاحب کے مشہورِ زمانہ اپاٹمینٹس بھی یہاں قریب ہی ہیں ۔) ڈُھونڈ ڈُھونڈ کر ایک نہایت خُوبصورتی سے سجے ہُوئے ریستوران کا انتخاب کیا ۔ یہ اندر سے ایسے سجا ہُوا تھا جیسے ہم پاکستانی اپنا ٹرک سجاتے ہیں ۔ کھانے کی بھی کافی ورائٹی تھی اور نَرخ ایجوئیر روڈ کے حساب سے بھی کم از کم دوگُنا تھے اگر تین گُنا نہیں تھے ۔ بہرحال بُھوک اور تھکن بُہت زیادہ تھی کہ رات کے گیارہ ساڑھے گیارہ بج رہے تھے اور مزید چلنے کی ہمت ندارد تو سوچا بھئی ریٹس کی فِکر جانے دو یہیں بیٹھتے ہیں ۔
ویٹرز بھی کوئی عربی تھے ۔ اب یہاں میں سوچ رہا ہُوں کہ آپ لوگ ناراض ہوں گے لیکن یہی حقیقت ہے کہ جِتنے بھی غیر مُسلم کاروباری اور ریسٹورینٹس پر ہم گئے اُن کا اخلاق ہی کُچھ الگ تھا اور یہاں ہمارے مُسلمان بھائی چہرے پر چھوٹی سی مصنوعی مسکراہٹ سے عاری لیکن میں نے سوچا تھک گئے ہوں گے ۔ اُس نے ہمارے لئے ٹیبل ٹھیک کی ، مینیو کارڈز رکھے اور چلا گیا تھوڑی دیر بعد آیا تو ہم نے آرڈر نوٹ کروایا ، کُچھ دیر بعد وُہ سلاد ،چٹنیاں اور زیتون رکھ کر جانے لگا تو میں نے اُس کو کہا کہ پانی لا دو تو کہنے لگا کہ فریش واٹر لادُوں ؟ میں نے کہا لے آؤ ۔ لو جی ویٹر شیشے کی طرح لگنے والے پلاسٹک کے گلاس اور ایک میلا سا نظر آنے والے پلاسٹک کے جگ میں پانی لے آیا ۔ میں نے اُس سے کہا کہ بھئی یہ جگ تو میلا ہے ، کہنے لگا میلا نہیں ہے بس ایسا لگتا ہے ۔ بھئی کوئی شیشے کا جگ لے آؤ یا پانی کی بوتل ہی لگادو تو جواب مِلا کہ پانی کی بوتل تو ابھی نہیں ہے اور شیشے کا جگ یا گلاس تو ہم کبھی رکھتے ہی نہیں ۔
میں سخت حیران کہ اِتنا خُوبصورت اور سجاوٹ والا ریسٹورینٹ اور سروس اِتنی تھرڈ کلاس ! بوجوہ نام نہیں لکھا ، بہرحال سوچا کہ کھانا شاید بہتر ہو ؟ کھانا دس پندرہ منٹس میں آگیا ۔ واقعی کھانا بُہت اچھا نہ سہی ایک بہتر معیار کا عربی کھانا تھا ماسوائے ایک ڈِش کے جِس میں گوشت اپنی چربی میں پکتا ہے ، وُہ سمیلی تھا ؛ باقی سب بہتر تھا ۔ حمس کے نام پر ایک گہرے پیالے میں بس کِناروں پر حَمس لگا کر دے دِیا گیا اور جو عام طور پر دو تین یا زیادہ سے زیادہ پانچ پاؤنڈز کا ہوتا ہے وُہ یہاں تیرہ پاؤنڈز کا تھا ۔
جلدی جلدی کھانا کھایا اور واپسی کی راہ لِی ۔ اب ہمت اِتنی ہی تھی کہ آدھ میل دُور سٹیشن سے ہیمرسِمتھ اینڈ سٹی لائین سے لیور پُول سٹیشن آئے وہاں سے سینٹرل لائین لی اور واپس نیو بَری پارک پُہنچے جہاں گاڑی پارک تھی ۔ گھر پُہنچتے پُہنچتے رات کے دو بج رہے تھے ۔یہ ایک اچھا سفر تھا جِس کا مزہ میرے آخر میں عربی بھائیوں نے اپنی روایتی بیزاری سے خراب کردیا ۔ آپ کبھی ایجوئیر روڈ جائیں تو لبنانی یا ترکش ریستوران پر چلے جائیں لیکن عربی کھانے کی جگہوں سے پرہیز ہی بہتر ہے کیونکہ اُن کا رویہ اور سروس زیادہ بہتر نہیں ۔