قصہ علامہ اقبال کی ایک رباعی کا
ایک صدی سے زائد کا عرصہ ہوا۔ ڈیرہ غازی خان کے ترین قبیلے سے تعلق رکھنے والے اللہ داد خان کے ہاں ایک بچہ پیدا ہوا۔ اس کا نام محمد رمضان رکھا گیا۔ رمضان ہونہار طالب علم نکلا۔ بی۔ اے کے بعد بی ۔ ٹی کا امتحان پاس کیا اور بطور انگلش ٹیچر سرکاری ملازمت اختیار کر لی۔ طبیعت میں فقیرانہ استغنا بھی تھا اور صوفیانہ بے نیازی بھی ۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے اور سرکار انگلیسیہ کا ملازم ہونے کے باوجود کبھی دیسی لباس ترک نہ کیا۔ چہرہ سنت رسول سے سجا تھا ہمیشہ ہاتھہ میں ایک موٹی سوٹی اور کندھے پر بڑا سا تولیہ ڈالے رکھتے۔ فارسی اور اردو کے شعر کہتے ۔ علامہ اقبال کے عشاق میں سے تھے۔ انکے کئی اشعار پہ تضمین کہی جو علامہ نے بہت پسند کی۔ ایک نوجوان، عطا محمد جسکانی سے گہرے لگاؤ کے باعث عطائی تخلص اختیار کیا اور محمد رمضان عطائی کہلانے لگے۔
یہ ان دنوں کا ذکر ہے جب عطائی ڈیرہ غازی خان کے گورنمنٹ اسکول میں تعینات تھے۔ انہی دنوں ان کے قریبی شناسا مولانا محمد ابراہیم ناگی بھی ڈیرہ غازی خان کے سب جج تھے۔ ابراہیم ناگی ایک درویش منش اور صاحب علم شخصیت تھے۔ مولانا ابراہیم کو علامہ اقبال سے ملاقاتوں کا اعزاز بھی حاصل تھا۔
ایک دن مولانا ابراہیم لاہور گئے علامہ سے ملاقات ہوئی۔ واپس آئے تو سر شام معمول کی محفل جمی۔ علامہ سے ملاقات کا ذکر چلا تو عطائی کا جنوں سلگنے لگا۔ مولانا نے جیب سے کاغذ کا ایک پرزہ نکال کر عطائی کو دکھایا۔ یہ علامہ کی اپنی تحریر تھی۔ مولانا کہنے لگے۔
لو عطائی ! علامہ صاحب کی تازہ رباعی سنو۔ پھر وہ ایک عجب پر کیف انداز میں پڑھنے لگے۔
تو غنی از ہر دو عالم من فقیر
روز محشر عذر ہائے من پذیر
ور حسابم را تو بینی ناگزیر
از نگاہ مصطفےٰ پنہاں بگیر
مولانا کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے لیکن محمد رمضان عطائی کی کیفیت روتے روتے دگرگوں ہو گئی۔ اسی عالم وجد میں فرش پر گرے۔ چوٹ آئی اور بے ہوش ہوگئے۔ رباعی ان کے دل پر نقش ہو کے رہ گئی۔ اٹھتے بیٹھتے گنگناتے اور روتے رہے انہی دنوں حج پر گئے۔ خود اپنی ڈائری میں لکھتے ہیں کہ جب حجاج اوراد و وظائف میں مصروف ہوتے تو وہ زار و قطار روتے اور علامہ کی رباعی پڑھتے رہتے۔
حج سے واپسی پر دل میں ایک عجب آرزو کی کونپل پھوٹی۔ ”کاش یہ رباعی میری ہوتی یا مجھے مل جاتی“ یہ خیال آتے ہی علامہ اقبال کے نام ایک خط لکھا“ آپ سر ہیں فقیر بے سر۔ آپ اقبال ہیں، فقیر مجسم ادبار۔ لیکن طبع کسی صورت کم نہیں پائی“ انہوں نے علامہ کے اشعار کی تضمین اور اپنے فارسی اشعار کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ”فقیر کی تمنا ہے کہ فقیر کا تمام دیوان لے لیں اور یہ رباعی مجھے عطا فرما دیں۔“ کچھ ہی دن گزرے تھے کہ انہیں علامہ کی طرف سے ایک مختصر سا خط موصول ہوا۔ لکھا تھا:
جناب محمد رمضان صاحب عطائی۔ سینئر انگلش ماسٹر۔ گورنمنٹ ہائی اسکول ڈیرہ غازی خان۔
لاہور : 19/ فروری 1937
جناب من: میں ایک مدت سے صاحب فراش ہوں خط و کتابت سے معذور ہوں باقی، شعر کسی کی ملکیت نہیں آپ بلا تکلف وہ رباعی، جو آپ کو پسند آگئی ہے اپنے نام سے مشہور کریں۔ مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے۔
فقط محمد اقبال ۔ لاہور
علامہ نے یہ رباعی اپنی نئی کتاب ”ارمغان حجاز“ کے لیے منتخب کر رکھی تھی۔ عطائی کی نذر کر دینے کے بعد انہوں نے اسے کتاب سے خارج کر کے، تقریباً اسی مفہوم کی حامل ایک نئی رباعی کہی جو ”ارمغان حجاز“ میں شامل ہے۔
بہ پایاں چوں رسد ایں عالم پیر
شود بے پردہ ہر پوشیدہ تقدیر
مکن رسوا حضور خواجہ ما را
حساب من زچشم او نہاں گیر
(اے میرے رب! روز قیامت) یہ جہان پیر اپنے انجام کو پہنچ جائے اور ہر پوشیدہ تقدیر ظاہر ہو جائے تو اس دن مجھے میرے آقا و مولا کے حضور رسوا نہ کرنا اور میرا نامہ اعمال آپ کی نگاہوں سے چھپا رکھنا)
ایم اے فارسی کا امتحان دینے لاہور گئے تو عطائی، شکریہ ادا کرنے علامہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ہمراہ جانے والے چوہدری فضل داد نے تعارف کراتے ہوئے کہا ”یہ بوڑھا طوطا ایم اے فارسی کا امتحان دینے آیا ہے“ علامہ ایک کھری جھلنگا چار پائی پر احرام نما سفید چادر اوڑھے لیٹے تھے۔ بولے۔ ”عاشق کبھی بوڑھا نہیں ہوتا“ رباعی کا ذکر چل نکلا۔ عطائی نے جذب و کیف سے پڑھنا شروع کیا۔ توغنی از ہر دو عالم“ علامہ کی آنکھوں سے اشک جاری ہو گئے۔ اتنا روئے، اتنا روئے کہ سفید چادر کے پلو بھیگ گئے۔
آخری ملاقات علامہ کے انتقال سے کوئی چار ماہ قبل دسمبر 1937 میں ہوئی۔ انہوں نے علامہ سے کہا ”سنا ہے جناب کو دربار نبوی سے بلاوا آیا ہے“ علامہ آبدیدہ ہو گئے ۔ آواز بھرا گئی۔ بولے ”ہاں ! بے شک لیکن جانا نہ جانا یکساں ہے، آنکھوں میں موتیا اتر آیا ہے، یار کے دیدار کا لطف دیدہ طلبگار کے بغیر کہاں۔“ عطائی نے کہا ”جانا ہو تو دربار نبوی میں وہ رباعی ضرور پیش فرمائیے گا۔ جو اب میری ہے“ علامہ زار و قطار رونے لگے۔ سنبھلے تو کہا ”عطائی ! اس رباعی کو بہت پڑھا کرو۔ ممکن ہے خداوند کریم مجھے اس کے طفیل بخش دے“۔
1938 میں علامہ انتقال فرما گئے۔ عرصہ بعد شاہی مسجد کے احاطے میں ان کے مزار کی تعمیر شروع ہوئی تو ہر ہفتے اور اتوار کو ایک مجذوب شخص لاٹھی تھامے مسجد کی سیڑھیوں پر آبیٹھتا اور شام تک موجود رہتا۔ وہ زیر تعمیر مزار پہ نظریں گاڑے ٹک ٹک دیکھتا رہتا۔ کبھی یکایک زاری شروع کر دیتا۔ کبھی طواف کے انداز میں مزار کے چکر کاٹنے لگتا۔ اس کا نام محمد رمضان عطائی تھا۔
مولانا محمد ابراہیم ناگی کبھی کبھی کہا کرتے ”ظالم عطائی! کان کنی تو میں نے کی اور گوہر تو اڑا لے گیا۔ بخدا اگر مجھے یہ علم ہوتا کہ حضرت غریب نواز (علامہ اقبال) اتنی فیاضی کریں گے تو میں اپنی تمام جائیداد دے کر یہ رباعی حاصل کر لیتا اور مرتے وقت اپنی پیشانی پر لکھوا جاتا“۔
محمد رمضان عطائی، سینئر انگلش ٹیچر 1968 میں اس جہان فانی سے رخصت ہو گئے۔ انہوں نے اپنی وصیت میں لکھا۔ ”میرے مرنے پر اگر کوئی وارث موجود ہو تو رباعی مذکور میرے ماتھے پہ لکھہ دینا اور میرے چہرے کو سیاہ کر دینا۔“ مجھے معلوم نہیں کہ پس مرگ ان کے کسی وارث نے اس عاشق رسول کی پیشانی پہ وہ رباعی لکھی یا نہیں لیکن ڈیرہ غازی خان کے قدیم قبرستان ”ملا قائد شاہ“ میں کوئی بیالیس برس پرانی ایک قبر کے سرہانے نصب لوح مزار پر کندہ ہے۔
تو غنی از ہر دو عالم من فقیر
روز محشر عذر ہائے من پذیر
ور حسابم را تو بینی ناگزیر
از نگاہ مصطفےٰ پنہاں بگیر
اے اللہ ! تو دوجہانوں کو عطا کرنے والا ہے جبکہ میں تیرا منگتا و فقیر ہوں، روزِ محشر میری معذرت کو پذیرائی بخش کر قبول فرمانا (اور مجھے بخش دینا) اگر (پھر بھی) میرے نامہ اعمال کا حساب نا گزیر ہوتو پھر اے میرے مولیٰ ! اسے میرے آقا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہوں سے پوشیدہ رکھنا۔
(کیونکہ میں ایک گنہگار امتی کی حیثیت سے اپنے آقا کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں رکھتا)
ایک دوست نے توجہ دلائی ہے کہ جناب ابراہیم ناگی ، جن کا اوپر ذکر ہوا ہے ، ہمارے مشفق دوست ڈاکٹر انیس ناگی کے والد تھے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔