قصہ ایک رات کا
ہم ، جن کیلئے یاد ماضی عذاب نہیں بلکہ جینے کی وجہ ہے، اور پیچھے مڑ کر دیکھنے پر پتھر کے نہیں ہو جاتے بلکہ پرکھوں کی اس آواز کی تال سے تال ملاتے ہیں جو حملہ آوروں کے گھوڑوں کی چاپوں میں گم ہو گئی تھی، دن اور رات کے فرق ختم ہونے کے بعد نانی اپنے قصے سمیت روٹھ گئی ہے تب سے کوے کو غاصب نہیں بلکہ اس کے پاؤں میں گھنگرو باندھ کے واسطے دیتے ہیں کہ پھلا پھر سے اٹھا لےتاکے پھر سے قصہ شروع ہو سگے ، چرخہ کاتنے والی کو دعا (تیڈی کتنڑ والی جیوۓ) دینے سے لے کر آٹا گوندھنے وقت ہلنے (اٹا ملیندی ہلدی کیوں اے) پر لڑائی کے کے بہانے ڈھونڈنے کے لئے ہمیں ماضی کے مزاروں کے کسی عجائب گھر میں دیکھنا پڑتا ہے۔
ہم، جن کا ماضی بدل دیا گیا ہو اور آنکھوں پر سامراجی کھوپے چڑھا کر سماجی غلام گردشوں میں بیل کی طرح ایک دائرے میں ہلکی چھمک کے ساتھ صدیوں سے ہانکا گیا ہو اس وسوں کی سانولی کی پائل سے گیت چھم چھم کے نہیں آتے بلکہ وچھوڑا ،تہنائی اور دکھ کے گرم صحرا میں اتنا دوڑتی ہے کہ گھنگرو ٹوٹ جاتے ہیں۔
"تتی تھی جوگن چودھار" پھرنے والی وسوں کی بے چین روح کو کبھی "ملہی" قوم کے مہاویر آسرا دیتے ہیں تو کبھی گلیوں میں بہتی رت کو دیکھ کر کانپ جاتی کو "مائی موہراں" کی جرات اور ہمت میں پناہ ملتی ہے، ملہی قوم کے دھرتی زاد کے تیر سے لے کر مائی موہراں کے دیے کی روشنی تک کے درمیان میں دھرتی زاد کی کتھا گم تھی ، پھر وسوں نے اپنی اجتماعی لاشعور سے اپنے پوت جنے جو دھرتی کی مہا یدھ تلوار سے نہیں قلم سے لڑنے نکلے تو کہیں رفعت عباس نے گلیوں کی دیواروں سے کان لگا کر چیخوں کو سنااور بڑے شہر کے دکھ کو بڑے رزمیہ میں جگہ دی اور سندھو کے کنارے اشو لال نے ایک بستی نہیں دو بستیاں نہیں سو شہروں کے اجڑنے کی کتھا سنائی جن میں سارنگوں کے آنسوں اور کونجوں کے کرلاٹ بین کی صورت سنائی دیتے ہیں اور کہیں صوفی فکر کے تسلسل ، جن کے ماتھے پر صدیوں کا سچ تاج کی ماند چمک رہا ہے ، جن کو نروان ملنے پر آواز روٹھی تو تحریروں کے 'پھل لکھ کر" مندری ہوی وسوں کو آسیب سے آزاد کیا اور "ڈیہنہ لہنڑ توں پہلے" شہر وفا فاضل پور میں جھمر کا پڑ لگانے کی نوید سنا دی، اس " جھوکاں تھیسن آباد ول" کی آس پر سجائی جانے والی جھمر میں شرکت کے لیے دھرتی کے سوجھل واسیوں نے ہوا کے دوش پر لکھ بھیجا " خاب تاں ڈیکھوں خاب متاں سدھ پار دی ڈیوے"
ہم ،جن کے پاس جوگی جادوگر کی بارگاہ تک پہنچنے کے لیے "ترے تاں سارے دریا" کو پار کرنے کا نقشہ تھا ایک (ستلج) کے سوکھ جانے پر رج مونجھے ہوئے اور باقی دو چندر آب (چناب) اور سندھو کو سلامی دیتے ہوئے کو پار کیا شام سے پہلے وسوں کے جوگی صوفی تاج خان گوپانگ کے چرن چھوئے ۔
کوئی عجب رات تھی، جب سارے پاندھی پونچھے تو نوبت بجی چپڑی کی آواز آکاش تک جا رہی تھی ہر دھرتی زاد کا پاؤں زمین پر ایسے آ رہا تھا جیسے پانی کی لہریں کناروں کا بوسہ لیتی ہیں اور ہاتھ ہوا میں ایسے لہرا رہے تھے جیسے لوگوں کو سہنڑا دے رہے ہوں کہ جھوکوں کو اللہ نے آباد کر دیا ہے، کون ہے جو اس الوہی جھمر کا حصہ نہیں تھا؟ اپنے اپنے منصبوں کو اپنی نشستوں پہ رکھ کے الغوزہ کی دھن اور نغارے کی تھاپ پر اس امید پر محو رقص تھے کہ " یار فرید قبول کرے گا"
شام ڈھلنے سے اشا دیوی کے جاگنے تک کھیڈے جانے والی جھمر میں تاریخ، لفظ، ردھم ، سر، لے ، محبت کا لباس زیب تن کئے ہوئے سنگت کر رہے تھے ، چیتر کی پہلی لگ چکی تھی ، وسوں پر چھڑے چھیڑ سے چھٹکارا پانے کو جاتر کھیلے جانے کا سماں لگ رہا تھا ، وہی ہوا سوریا کے درشن کے سمے جب گھر پہنچے منظر واضح تھا ، آنکھوں سے ماضی کی گرد ہٹ چکی تھی ملہار کی بوندوں سے کچی مٹی کی مہک آ رہی تھی ہوا نے فرید کی بھاشا میں کان میں سرگوشی کی " کیچ دو ہنڑ ہنڑ ووے" تو بسر کی رات کا استخارہ معلوم ہوا کہ اپنے اسی دگ پہ ہیں جس سمت سے " دور پروں کوئی سڈ " آتا ہے۔
کھلی آنکھوں سے اس پار کی سیر کروانے پہ سوجھل دھرتی واسیوں آپ کا شکریہ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“