گزشتہ دو روز سے حسبِ سیزن زکام اور بخار کے ہاتھوں جسمانی ریمانڈ پر ہوں. دماغ تحلیل ہو کر ناک کے راستے خارج ہو رہا ہے. انگ انگ میں بجلی کی جگہ درد بھرا ہے. تپے ہوئے ماتھے سے دیگ پر رکھی پرات کی طرح دھوئیں نکل رہے ہیں. ٹھنڈی ہوا ناک اور گلے سے ریگ مار بن کر گزر رہی ہے. مونڈھے پر رکھنے والے صافے سے ناک پونجھ پونجھ کر چھیلے ہوئے ٹماٹر کی طرح لال کر دی ہے. گلا گرم رکھنے کے چکر میں سوا لیٹر چائے حلق سے اتار چکا ہوں. لیکن مجال ہے جو بخار زرا برابر بھی کم ہو جائے.
ایسی کیفیت میں عرصہ پہلے کا ایک جاں گسل واقعہ ذہن میں تازہ ہو گیا ہے. آپکو سناتا ہوں.
ایک دفعہ ہم شہر کے نواح میں والد صاحب کے کسی دوست کے ہاں مجلس سننے گئے. مجلس رات دیر تک جاری رہی، طرح طرح کے بےسرے ذاکر مجروں والے گانوں کی طرز پہ قصیدے پڑھ رہے تھے. موسم کی تبدیلی کی وجہ سے پہلے ہی بخار ہو رہا تھا اوپر سے کانوں کے پردے پھاڑنے والی آواز کی وجہ سے سر میں شدید درد شروع ہو گیا. مجلس ختم ہوئی تو ہمیں رات گزارنے کیلئے ابو کے دوست کی بیٹھک پر لے جایا گیا، بیٹھک بھی بھلا کیا تھی ایک کچا کمرہ جس میں ٹریکٹر کی بیٹری پر زیرو والا بلب جل رہا تھا، پراسرار خاموشی اور ٹھنڈ تھی کمرے کے کونے میں بیٹھا ایک بزرگ حقہ گڑگڑا رہا تھا اور دھوئیں کی بو سارے کمرے میں پھیلی ہوئی تھی. چھت کی گلی ہوئی کالی کڑیوں سے وحشت ٹپک رہی تھی. شدید بخار کی وجہ سے میرے دماغ کی نسیں تَنی ہوئی تھیں اور کان سائیں سائیں کر رہے تھے. میں فوراً ایک بستر میں گھس گیا اور منہ رضائی میں ڈال لیا رضائی سے فنائل کی کسیلی بو آنے لگی. کچھ دیر بعد اچانک کمرے کے باہر ایک غل مچا اور ایک سرتاپا سبز کپڑوں میں ملبوس بڑی داڑھی والا میلا سا بابا اپنے کچھ چیلوں کے ہمراہ کمرے میں وارد ہو گیا. مجھے بتایا گیا کہ یہ "بابا چھری مار" ہیں، اپنی کرشماتی چھری سے دم کرتے ہیں جس سے نیم مردے بھی جی اٹھتے ہیں. بابے کے علاقے دامان میں بابا چھری مار کے نام کا ڈنکا بجتا ہے. حضرت جی بڑی لوہے کی چھری ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتے ہیں اور جس کسی پر جن بھوت کا سایا ہو اسکے سر سے چھری گھما کر دم کرتے ہیں اور سب جنوں بھوتوں کو اسی چھری سے کیفرکردار تک پہنچا دیتے ہیں. (میں ان دنوں ہر قسم کے بابوں کے کرشمات کا قائل ہوا کرتا تھا) بابا میرے پاس آیا اور میرے ماتھے پر اپنا کھردرا ہاتھ رکھا. بابے کے ہاتھ کا لمس مجھے اچھا لگا.
اس نے جلتی ہوئی پیشانی پہ جو ہاتھ رکھا
روح تک آ گئی تاثیر مسیحائی کی
میں نے بمشکل اٹھتے ہوئے کپکپاتے ہونٹوں سے بابے سے گرم سانسوں میں لپٹی ہوئی التجا کی کہ کسی طرح اس منحوس بخار اور درد سے میری جان بخشی کروا دیجیے تاعمر آپکا چیلا بن کے رہوں گا.
بابا تو جیسے تیار بیٹھا تھا اس نے فوراً میری چارپائی سے رضائی اور گدا ہٹانے کا حکم دیا اور کہا پتر چارپائی پر سیدھے لیٹ جاو میں دم رکھتا ہوں انشاءاللہ فوری آرام آ جائے گا، آرام نہ آئے تو بےشک "چراغی" مت دینا. اب بابا آستینیں اوپر چڑھا کے فُل فام میں آ چکا تھا میں ممنونیت کے جزبات کے ساتھ چارپائی پر دراز ہونے لگا ابھی میرا سر سرہانے تک نہیں پہنچا تھا کہ بابے نے نیچے سے سرہانہ کھینچ لیا اور میری خُتی منجھی کے سیروُ پر ٹکرا کر تقریباً پاش پاش ہوتے بچی. کچھ دیر کیلئے بخار کی تکلیف یکسر بھول گئی. میں نے خُتی مَلتے ہوئے تلملا کر بابے کی طرف دیکھا تو بابے نے چہرے پر شیطانی مسکراہٹ لا کر اپنی کھچڑی داڑھی میں خارش کرتے ہوئے کہا پتر روئی کا سرہانہ سر تلے ہو تو دم اثر نہیں کرتا. خیر چاروناچار پھر سیدھا لیٹ گیا. دم کی کارروائی شروع ہوئی بابے نے منہ سے کچھ لعاب انگلی پر لگا کر میرے ماتھے پر لگا دیا اس کریح عمل سے مجھے آبکائی آنے لگی. پھر بابے نے میری قمیض کا اوپر والا بٹن کھولا اور کچھ پڑھتے ہوئے میرے سینے پر ہاتھ پھیرنے لگا. میرا ماتھا ٹنکا کہ اللہ نہ بھلائے تو بابا ٹھرکی ہے، کُولا چھوکرا دیکھ کر چَسیں لے رہا ہے. لیکن میرا یہ خیال اس وقت رفع ہو گیا جب بابے نے اپنے میلے کچیلے تھیلے سے ایک زنگ آلود چھری نکالی، چھری کی ہیت بہت خوفناک تھی زیرو والے نیلے بلب کی روشنی میں بابا چھری ہاتھ میں پکڑے بالکل ایسے لگ ریا تھا جیسے ہارر موویز میں کسی پرانی حویلی کے نئے کرایہ داروں کو نظر آنے والا بھوت ہو. مجھے بابے پر یقین تھا کہ بابا یہ چھری مجھے بالکل نہیں مارے گا لیکن پھر بھی احتیاطاً شیعوں والا کلمہ طیبہ مکمل پڑھ لیا. بابا کچھ پڑھتے ہوئے میرے اوپر سے چھری گول گول گھمانے لگا. بابے کا ہاتھ قدرے رعشہ زدہ تھا اور چھری گماتے ہوئے کانپ رہا تھا. میری جان حلق میں اٹکی رہی کہ ابھی اس کے ہاتھ سے چھری گری تو میرا رام نام ستے ہو جائے گا. کچھ دیر بعد بابے نے چھری پھیرنی بند کی اور منجھی کے پاوے کے ساتھ تین دفعہ زور زور سے ٹھوکی، میری جان میں جان آئی لیکن اسی اثنا میں بابے نے ایک زور دار پھونک ماری بابے کے منہ سے بالکل ویسی بو آ رہی تھی جو قربانی کی کھالیں جمع کرنے والی دکان کا شٹر کھلنے سے اچانک بدبو باہر آتی ہے. یہ بدبودار پھونک کم اور تھوک کی پھوار زیادہ تھی. میں اس ناگہانی صورت حال سے نمٹنے کیلئے بالکل بھی تیار نہیں تھا لہذا آنکھیں اور ہونٹ بھینچ کر پھونک بند ہونے کا انتظار کرنے لگا بابے کے پھیپھڑے جب پھونک سے خالی ہوئے تو مجھے اپنی سانس بحال ہوتی معلوم ہوئی لیکن ابھی صورت حال مکمل کنٹرول میں نہیں آئی تھی کہ بابے نے ایک اور پھونک مارنے کیلئے پھیپھڑے بھرنے شروع کیے ادھر میں بے اختیار چلا اٹھا.. بس اوے بابا بس کر تیکوں خدا دا واسطہ ای بس کر چا میں مرداں!! بابے کو میری حالت پر رحم آیا اور اس نے اپنا پھوکا واپس لے لیا. پھر مجھ سے طبیعت دریافت کی. اب بھلا پندرہ بیس منٹ کے اس ازیت ناک تشدد کے بعد بخار کا احساس کہاں باقی رہتا، میں نے کہا بابا جی میں بالکل ٹھیک ہوں بس اب آپ تشریف لے جائیں. بابے نے اپنی 125 روپے فکس چراغی وصول کی اور چلتا بنا. بابے کے جاتے ہی بخار پھر سرچڑھ کر بولنے لگا بہرحال جیسے تیسے میں سو گیا. صبح جب آنکھ کھلی بخار بدستور عروج پر تھا اور ادھر کسی نے اطلاع دی کہ رات کو اس بابے کے کچھ چیلے گاؤں کے ایک گھر سے ہزاروں روپے نقدی اور ایک ٹیڈی بکری کھول کر لے گئے ہیں.
علاقے والوں کو اس واردات پر تبصرے کرتا چھوڑ کر میں بڑی مشکل سے ایک کلینک پر پہنچا جہاں کمپوڈر نے تشریف پر دو ٹیکے لگائے اور میں نکتہء ازیت پر سپرٹ لگی روئی ملتے ہوئے کلینک سے باہر نکل آیا. کچھ دیر بعد درد اور بخار تقریباً ختم ہو چکا تھا…!