قسمت اور تقدیر کی کہانی
پاکستانی معاشرے میں گھر گھر ،گلی گلی دو لفظوں کا بڑا چرچا رہتا ہے ،وہ دو لفظ ہیں قسمت ۔یہ قسمت اور تقدیر کچھ نہیں ہیں ،ہم انسان ہمیشہ اپنی ناکامیوں کا زمہ دار قسمت اور تقدیر کوٹھہراتے ہیں ،شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کا کوئی وجود ہی نہیں ہے۔اگر قسمت اور تقدید کا وجود ہوتا اور یہ بول سکتی تو یہ انسانوں کے ساتھ جنگ کرتی ۔اس معاشرے کے انسان کو اپنے غموں،دکھوں اور مسائل کو چھپانے کے لئے ہمیشہ قسمت اور تقدیر کی ضرورت رہی ہے ۔تقدیر اور قسمت بہت خوبصورت الفاظ ہیں اور ہر جگہ آزادنہ دستیاب بھی ہیں تو شاید اس وجہ سے ہم ان کے پیچھے پڑے رہتے ہیں ۔لفظ تقدیر کا استعمال کرکے کچھ کرنا نہیں پڑتا ،صرف یہ کہنا ہوتا ہے ،یہ مصیبت تو قسمت میں لکھی تھی ،کیا ہو سکتا تھا ۔کامیابی یا ناکامی،غربت یا امارت،صحت اور بیماری ،زندگی اور موت ،یہاں قسمت اور تقدیر کے ہاتھ میں ہے ۔اس نامعلوم طاقت کا نام ہمارے معاشرے میں قسمت اور تقدیر ہے۔میری نگاہ میں یہ دونوں الفاظ بوگس ہیں ۔ان الفاظ سے جلد از جلد ہمیں پیچھا چھڑانا ہوگا ۔ہم مکمل انسان اور فرد نہیں ہیں ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم اپنے اعمال کی زمہ داری تک لینے کے قابل نہیں رہے ۔جب تک انسان اپنے آپ کی زمہ داری نہیں لیتا ،وہ طاقتور اور آزاد نہیں بن سکتا ۔جو انسان زمہ داری قبول نہیں کرتے وہ آزادی اور محبت کا مزہ نہیں اٹھا سکتے ۔اس دنیا میں ہر طرف آزادی کی قوتیں ہمیں معصومانہ انداز میں دیکھ رہی ہیں لیکن ہم ہیں کہ تقدیر اور قسمت کے پیچھے بھاگ رہے ہیں ۔تقدیر اور قسمت انسان کی غلامی کا نام ہیں ،جو تقدیر اور قسمت کو نہیں جانتا ،وہی آزاد انسان ہے اور صرف وہی آزادی کو دیکھ سکتا ہے اور محسوس کرسکتا ہے۔انسانی معاشرے کی شان و شوکت اس تقدیر اور قسمت نے چھین لی ہے ۔ہمارے معاشرے میں زہانت کی نشوونما رک چکی ہے ،ہم چیلنجوں سے نمٹنے کے اہل نہیں ہیں ،کیونکہ ہم ہمیشہ تقدیر اور قسمت کا انتظار کرتے رہتے ہیں ۔ہر مسئلے اور ناکامی کے بعد ہم صرف یہی کہتے ہیں ،اچھا وقت آئے گا ۔اور وہ اچھا وقت کبھی نہیں آتا ۔جو انسان تقدیر اور قسمت پر یقین رکھتا ہے ،اس کا مطلب ہے وہ انسان ہے ہی نہیں ۔انسان کسی چیز کا نام نہیں ،تقدیر چیزوں کی ہوتی ہے۔کرسی کی تقدیر ہے کہ وہ کسی مقصد کے لئے بنائی گئی ہے۔لیکن انسان فرنیچر نہیں ہے۔انسان حکم اور احکام کے لئے نہیں پیدا کئے گئے ۔انسان کا مطلب شعور ،بصیرت ،آگاہی اور محبت ہے۔شعور ،بصیرت اور آگاہی کو کسی تقدیر یا قسمت کی ضرورت نہیں ہوتی۔شعور اور آگہی کے لئے آزادی ہوتی ہے۔جبکہ تقدیر اور قسمت آزادی کے خلاف ہیں ۔تقدیر کا مطلب ہے انسان غلام پیدا ہوا اور وہ موت تک غلام ہی رہے گا ۔جب پیدا پونے سے پہلے ہی غلامی انسان کے ساتھ تھی تو اس کا مطلب ہے وہ پیدا ہوتے ہیں مر گیا ۔ہم انسان روبوٹ نہیں ہیں ،جن میں خاص پروگرامز فیڈ کئے گئے ہیں ۔ہم کسی خاص پروگرام کے ساتھ دنیا میں نہیں آئے ۔یہ آسٹرولوجسٹ ،پامسٹ اور ہاتھ دیکھنے والے سب لوگ انسان کا استحصال کررہے ہیں ۔اگر انسان کے ساتھ تقدیر اور قسمت کا نظریہ نہ ہوتا تو کوئی اس کا استحصال نہیں کر سکتا تھا ۔جب بھی کوئی ہاتھ دیکھنے والا انسانوں کو ان کے مستقبل کے متعلق بتاتا ہے تو وہ خوش ہوتے ہیں ،شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ مستقبل کو جاننے کے لئے انسان ہمیشہ بے چین رہتا ہے۔اگر کوئی مستقبل وغیرہ پہلے ہی ہمارے پروگرام کا حصہ ہے،تو پھر آزادی کا کیا مطلب؟کل یہ ہو سکتا ہے ،کل وہ ہو سکتا ہے ،تو اس کا مطلب انسان کسی نامعلوم طاقت کے ہاتھوں میں ہے اور وہ نامعلوم طاقت اس کے ساتھ جو چاہتی ہے وہی کرتی ہے ۔انسان اپنے وجود کا آقا ہے ۔تقدیر کہتی ہے انسان اپنے آپ کے بارے میں کچھ نہیں کرسکتا ،تو پھر ہم انسان آزادی کے لئے کیوں مرے جارہے ہیں ۔ہمارے معاشرے میں تقدیر نے انسان کو زندہ لاش بنادیا ہے۔ہر چیز اگر لکھی جاچکی ہے ،تو پھر کاہے کا جو ش وجذبہ اور ازادی؟قسمت کو ماننے والے انسان کی کوئی اہمیت نہیں ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔