قلعہ سیالکوٹ کی سیر
رضوان قریشی نے مجبور کردیا کہ میں ایک دفعہ قلعہ سیالکوٹ کا چکر لگا کر آئوں۔ چنانچہ میں اڈا شہباز خاں کی طرف سے قلعے کی طرف گیا، اڈا شہباز خاں سے قلعے کی سیڑھیوں تک مچھلی منڈی ہوتی تھی مگر اب کسی بورڈ پر مچھلی منڈی نہیں لکھا تھا سب جگہ اڈا شہباز خاں ہی لکھا تھا۔ سیڑھیوں کے ساتھ ہی شیخ ہسپتال ہے جس کے سامنے محمد دین پلازہ ہے اس پلازے میں میرا تقریبا سات سال دفتر رہا ہے۔ میں نے یاد کیا اس روڈ کو بچپن میں پرانی فروٹ منڈی کے نام سے یاد کیا جاتا تھا مگر اب کچھ بورڈ پر شیخ ہسپتال روڈ اور کچھ پر اردو بازار لکھا تھا اگرچہ رضوان کا اصرار ہے کہ اردو بازار بانو بازار کی گلی کے بعد بنگش بک ڈپو سے شروع ہوتا تھا۔
قلعے کی سڑک پر چلتے ہی بے شمار یادیں ذہن میں آگئیں، ہم گارڈن میموریل پڑھتے تھے اور چھٹی کے بعد قلعے پر آجاتے، میں محسن عدیل اور عظمت، محسن اور عظمت تیزی سے قلعے کے ٹیلے پر چڑھ جاتے اور میں اکیلا سڑک پر رہ جاتا۔ وہ دونوں آوازیں دیتے مگر مجھ میں ٹیلا چڑھنے کی ہمت نہ ہوتی۔، اب اس قلعے کو اس بری طرح کاٹ دیا گیا ہے کہ کوئی بھی نہیں چڑھ سکتا۔ نیچھے بانو بازار کی مارکیٹیں ہیں جہاں ہم ٹیلے سے اترا کرتے تھے۔ اس چار ہزار پرانی عمارت کو بری طرح تباہ کیا گیا ہے حالانکہ پاکستان میں اتنا پرانا کوئی قلعہ اتنی اچھی حالت میں شاید ہی کہیں ہو
سڑک کے آگے ایک مزار ہے اب وہ بہت اچھی طرح تعمیر ہوچکا، مجھے یاد ہے اس پیپل والے پیر کا نام بچپن میں کچھ اور سنتے تھے اور ہمیں ڈرایا جاتا کہ یہ ایک جلالی پیر ہیں۔ انھوں نے 65 کی جنگ میں دشمن کا گرایا بم اٹھا کر قلعے سے باہر پھینک دیا تھا ۔ اب ان کا نام پنج پیر ہے، مجھے یاد پڑتا ہے کہ کسی کتاب میں میں نے پڑھا تحا کہ پنج پیر نامی مزارات پنجاب میں اکثر جگہ پر ہیں یہ ایک علامتی مزار ہے پنجاب میں کسی حملہ آور کے قتل عام کی یاد میں، لوگ ان کو پنجاب کی روح خیال کرتے ہیں اور ان مزارات سے گہری عقیدت رکھتے ہیں۔
آگے سرخ رو کا مزار گھاس منڈی والی سیڑھیوں کے ساتھ ہی ہے اب یہ مزار بہت اچھا تعمیر ہوچکا ہے اس کے ساتھ کامرس کالج ہے جس کو گرینڈ ہل میرج ہال کا ایک حصہ مل چکا ہے۔ اگے جاکر میں ہمیشہ دل تھام لیتا ہوں، اگرچہ گرینڈ ہل میرج ہال ختم ہو چکا ہے مگر وہاں میری بہت سی یادیں ہیں۔ بچوں کا وہ پارک جہاں ایک سلائیڈ ہوتی تھی اور اس کے علاوہ اس اونچائی سے ہم کو اپنا محلہ نظر آتا تھا۔ وہاں دو سرنگوں کی کہانی جو لوگوں کے مطابق جموں تک جاتی تھیں جبکہ جناب رشید نیاز کے مطابق یہ موجودہ کینٹ تک جاتی تھیں اسی ایک سرنگ سے پیر شعلہ شہید نے راجہ ساہن پال کا تعاقب کیا تھا اور کینٹ میں ان دونوں کے مابین ایک فیصلہ کن اور آخری معرکہ ہوا تھا جس میں اگرچہ پیر شعلہ شہید ہوگئے مگر انھوں نے راجہ ساہن پال کو بھی کیفر کردار تک پہنچا دیا۔
اس کے آگے ضلع کونسل کے دفاتر ہیں۔ جناح ہال ہیں جہاں میں نےکئی تقاریب کروائی تھیں۔ اس کے بعد پیر مرادیہ اور مائی راستی کا مزار ہے اور ساتھ وہی سیڑھیاں ہیں جو اڈا شہباز خاں کی طرف اترتی ہیں
قلعے کے ساتھ ہی ایم سی پرائمری گھاس منڈی سکول تھا جہاں میرے والد، میرے تمام چچائوں اور محلے کے اکثر لوگوں نے پرائمری تک تعلیم حاصل کی- اکرام ا للہ صاحب ہیڈماسٹر اور صوفی صاحب نائب ہیڈ ماسٹر تھے- مرحومین کو اللہ کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے، اپنے اپنے رنگ میں یکتا تھے- اکرام صاحب جب تک زندہ رہے باقاعدہ والد صاحب سے ملنے آتے تھے ایسے تمام سکولوں میں تعلیمی معیار با لعموم اچھا تھا- تعلیم تجارت نہیں بنی تھی اور اساتذہ کو عزت کی نگاہ سے دیھا جاتا تھا- معاشرتی اور سماجی تبدیلیوں کا اس شعبے پر بھی اثر پڑا اور رفتہ رفتہ صحت کی طرح تعلیم بھی جنس بازار بن گئ- سرکاری سکول اور سرکاری شعبہ زوال کا شکار ہوا- اب یہ سکول بند ہے اور توقع ہے کہ کسی مناسب موقع پر بلدیاتی کارپوریشن اس پر پلازہ تعمیر کرلے گی
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“