یہ وہ قلعہ ہے جس کی نہ تو کوئی لوکیشن ملتی ہے اور نہ ہی اس کی تصاویر کہیں نظر آئے گی
۔ قلعہ مچھکی یا مچهکا دو نام ہیں اس کے یہ قلعہ لال خان صوبہ دار نے۱۱۹۱ھ/۱۷۷۷ء میں تعمیر کیا تھا لال خان صوبہ دار ،اختیار خان مندھانی کا بڑا بیٹا تھا۔یہ اختیار خان وہ تھا جس نے گڑھی اختیار خان آبادکی تھی ۔اس قلعہ قدیم کے اندورنی حصے سب کچے تھے یہ قلعہ دراوڑ سے تقریباً اسی کلومیٹر کے فاصلے پر بہ سمت مشرق میں چولستان ڈیزرٹ کے انتہائی ویرانوں میں واقع ہے میں نے اس قلعہ کا زکر کچھ ہسٹری کی کتابوں میں پڑها تھا مگر انتہائی افسوس اور معذرت کے ساتھ کہ تمام قلم کاروں نے بغیر تصدیق و تحقیق کے یہی لکھا کہ یہ قلعہ مدتوں پہلے زمین بوس ہو گیا تھا اور اب اس کا نام و نشاں صرف ریت کے ٹیلوں کی شکل میں باقی رہ گیا ہے یہ پڑہنے کے باوجود بھی پتا نہیں کیوں میرے اندر ایک بے چینی سی تھی ان ریت کے ٹیلوں تک پہنچنے کی اور پهر صحراے چولستان کا سینہ چیرتے ہوئے جب میں اس مقام پر پہنچا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ جس قلعے کو ہمارے قلم کار اپنے گھروں کے بند کمروں میں بیٹھ کر اس قلعہ پر یہ تحریر لکھ رہے ہیں کہ اس کا نام و نشان تک مٹ چکا ہے آئیں اور میری تصاویر اور تحقيق دیکھیں یہ قلعہ آج بهی صحرائے چولستان میں اپنی تمام تر شکستہ حالی کے باوجود بھی کهڑا ببنگ دہل چیخ چیخ کر اعلان کر رہا ہے کہ ابهی بهی اس دهرتی پر میرا وجود برقرار ہے مجھے ریت کا ٹیلہ قرار دینے والو میں آج بھی موجود ہوں پر کاش کہ کوئی آ کر مجھ تک پہنچے تو سہی. ….اس کی یہ پکار آج آپ لوگوں کو میں نے پہنچا دی ہے
اور اس طرف کبھی بھی اکیلے سفر نہی کرنا چاہیے ….
میں نے چار مرتبہ اکیلے بائیک پر صحرا میں اس قلعے کو ڈھونڈنے کے لیے سفر کیا تھا چوتھی باری میں کامیاب ہوا تھا پر جو اس سنسان ریت سے بهرے راستوں میں مجھ پر بیتی ہے اور زندگی و موت کی جنگ کهیلی ہے راستہ بهٹک جانے کے بعد اس کی تفصیل بیان نہی کر سکتا. .آپ دوستوں سے گزارش ہے کہ اس پوسٹ پر اپنے خیالات کا اظہار ضرور کیجئے گا. .میں شدت سے منتظر ہوں. .
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیجسے لی گئی ہے۔
“