چولستان ڈیزرٹ فورٹ
یہ قلعہ دراوڑ سے تقریباً 90 کلومیٹر دور صحرا کی انتہائی گہرائیوں میں دشوار گزار راستوں پر موجود ہے اور اس تک پہنچنے کا دوسرا راستہ بهاولپور سے تقریباً ایک سو پچانوے کلومیٹر براستہ چنن پیر سے ہے جس میں تقریباً پچپن کلومیٹر پکی سڑک اور باقی ایک سو چالیس کلومیٹر کچا راستہ ہے جس پر کئی جگہوں پر ریتوں کے انبار موجود ہیں اس قلعہ کا پہلا نام
۔قلعہ ونجھروٹ۔تها یہ قلعہ راجہ ونجھا نے تعمیر کرایا تھا ۔تاریخ مراد کیمطابق ۵۷۴ھ/۱۱۷۸ھ میں اس قلعہ کو شہاب الدین غوری نے مسمار کرادیا تھا لیکن کرنل ٹاڈ کیمطابق یہ قلعہ ۷۵۷ھ میں راجہ کہڑ کے لڑکے تنو نے تعمیر کرایا تھا۔
۔یہ قلعہ مدتوں تک کھنڈرات کی حالت میں پڑا رہا پھر۱۱۷۱ھ/۱۷۵۷ء میں موریا داد پوترہ نے اس کی ازسر نوتعمیر کرائی ۔۱۷۵۹ھ میں علی مراد خان نے یہ قلعہ لے کر مرمت کرائی دوسوسال تک یہ قلعہ مرمت کے بغیر پڑا رہا اس قلعہ کی زیادہ شکستہ حالی کا سبب پاکستان و بھارت کی 1971 کی جنگ ہے جب بهارت کے جنگی طیاروں نے اپنی خفت مٹانے کے لیے اس قلعے پر شدید بمباری کی اور اپنی عوام کو مطمئن کرنے کی کوشش کی کہ ہم نے پاکستان کی چیک پوسٹ کو تباہ کیا ہے مگر یہ جهوٹی افواہ تهی اس قلعہ میں نہ تو پاک فوج تھی اور نہ ہی پاکستان رینجرز. .
اور نہ ہی ہماری پاک فوج و رینجرز ایسے قلعوں میں پناہ لینے کی محتاج ہے سلام ہے پاک فوج کو اور رینجرز کے ان دستوں کو جب ہم راتوں کو میٹھی نیند سو رہے ہوتے ہیں اور یہ ان ویرانوں میں دن رات جاگ جاگ کر ہمارا پہرا دیتے ہیں کاش کہ کوئی آ کر ان شیر جوانوں کو اپنے گھروں سے دور جان ہتھیلی پر رکھے اپنا فرض نبهاتے ہوے دیکھ سکے بجنوٹ قلعہ سے انڈیا 23 کلومیٹر دور ہے اس قلعہ کے لئے میں نے پانچ مرتبہ سفر کیا دو مرتبہ ڈیراور کی جانب سے تین مرتبہ چنن پیر والی سائیڈ سے.
اس قلعہ تک پہنچنے کے لئے معلومات کے سلسلے میں جب میں نے پاکستان ٹوارزم کے ایک سینئر عہدیدار جناب شیخ شعیب صاحب سے ملاقات کی تھی (اب وہ ریٹائرڈ ہو چکے ہیں) تو انہوں نے کہا تھا کہ بجنوٹ قلعے تک فور بائی فور ویل گاڑی ہی جا سکتی ہے اور وہ بھی کم سے کم دو گاڑیوں کا گروپ تاکہ ایک کے خراب ہونے کی صورت میں دوسری اس کی مدد کے لیے موجود ہو ان ویرانوں میں. .آپ بائیک پر صحرا میں اکیلے قلعہ بجنوٹ کو ڈھونڈنے جانا چاہتے ہیں بغیر گائیڈ کے اور وہ بھی اکیلے بائیک پر. ..ناممکن اور خودکشی کی کوشش ہے یہ آپ کے ساتھ کچھ بهی ہو ریتوں میں بائیک کی چین ٹوٹنا پنکچر ہو جاتا انجن سیز ہو جاتا راستہ بهٹکنا بارش کا اچانک امکان. .اور پهر قلعے کو ڈھونڈنا. ..بلکل بلکل خودکشی اود ناممکن. .یہ خیالات اور مشورہ تھا ان کا پر آج قربان جاؤں اس پاک زات پر جس کے فضل و کرم سے آج میرا بائیک قلعے کے گیٹ کے آگے کهڑا چیخ چیخ کر یہ اعلان کر رہا ہے کہ جو بهی انسان اپنے رب سے تہہ دل سے دعا مانگے گا اور اپنا ہر کام اپنے رب کے بهروسے پر کرے گا میں اس بات کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میرا پاک رب کبھی اس کو مایوس نہیں کرے گا پاک ہے زات میرے رب رحمان کی اور تمام دنیا کی تعریفیں اسی اللہ پاک کی زات پر ہی جچتی ہیں……
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیجسے لی گئی ہے۔
“